جب کراچی کی بندرگاہ انڈین میزائل بوٹس کے حملوں کا نشانہ بنی

بی بی سی اردو  |  Dec 05, 2023

چار دسمبر 1971 کی رات تقریباً 8:10 پر کراچی کے قریب موجود ایک ریڈار نے سمندر میں تیز رفتار حرکت کی نشان دہی کی جو اس وقت ساحل سے میلوں دور جنوب کی جانب تھی۔ اگلے 20 منٹ میں ایسی مزید رپورٹس موصول ہونے کے بعد پاکستانی نیول ہیڈکوارٹر کی جانب سے رات 9:58 پر سمندر میں موجود پاکستانی جنگی جہازوں کو خبردار کیا گیا کہ یہ دشمن کے بحری جنگی جہاز ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت تک بہت تاخیر ہو چکی تھی۔

کراچی سے 50 میل دور سمندر میں موجود پاکستانی بحری جنگی جہاز پی این ایس خیبر نے بھی ریڈار کی سکرین پر تیز رفتاری سے حرکت کرتے ان چھوٹے چھوٹے نقطوں کی نشان دہی کے بعد اُن کی جانب رُخ کر لیا تھا کہ اچانک جہاز کے بوائلر روم میں پہلا میزائل دھماکہ ہوا۔

خیبر کے عملے کو لگا کہ یہ انڈین فضائی کا حملہ ہے جس نے اینٹی ایئر کرافٹ گنز کا استعمال شروع کر دیا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ایک اور میزائل لگنے کے بعد چند ہی منٹوں میں پی این ایس خیبر اپنے عملے سمیت سمندر میں ڈوب گیا۔

کراچی پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان باضابطہ طور پر 1971 کی جنگ چھڑ جانے کے بعد انڈین نیوی کی تیز رفتار میزائل بوٹس کا حملہ شروع ہو چکا تھا۔

’پاکستان کی نیوی جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھی‘

کراچی پر انڈین نیوی کے حملے کی تفصیل میں جانے سے پہلے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے جو سنہ 1965 کی جنگ سے شروع ہوتا ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان اس جنگ کے دوران انڈین نیوی تقریبا غیر فعال رہی جب کہ پاکستان نیوی نے نہ صرف انڈین شہر دوارکا پر حملہ کیا بلکہ اپنی آبدوز ’غازی‘ کے ذریعے انڈین نیوی کو بمبئی تک محدود کر دیا۔

اس بحری جنگ کے نتائج انڈین نیوی کے لیے کافی خفت کا باعث تھے اور انڈین حکومت نے 1965 کی جنگ سے سبق حاصل کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر نیوی کو بہتر اور مضبوط بنانے پر کام شروع کیا۔

دوسری جانب پاکستان کی نیوی کے ساتھ بالکل الٹ معاملہ ہوا۔ وہی نیوی جو 1965 کی جنگ میں انڈین نیوی سے بہتر پوزیشن میں تھی، 1971 تک ایسی حالت میں تھی کہ انڈین نیوی کو بھی اس کی کمزوریوں کا علم ہو چکا تھا۔

انڈیا نے نہ صرف نئی آبدوزیں خریدیں بلکہ سوویت یونین سے تیز رفتار میزائل بوٹس بھی حاصل کیں جنھیں بعد میں کراچی کی بندرگاہ پر حملے کے لیے استعمال کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اوسا کلاس کی تیز رفتار سوویت میزائل بوٹس کی آفر پاکستان نیوی کو بھی دی گئی تھی جب پاکستان امریکی پابندیوں کے بعد سوویت یونین سے قریب ہونے کی کوشش کر رہا تھا لیکن یہ سودا نہیں ہو سکا۔

’کیا یہ کشتیاں دفاع کی بجائے حملے کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں؟‘

دوسری جانب انڈین نیوی نے سوویت یونین سے یہ میزائل بوٹس خرید لیں جن کا بنیادی مقصد انڈین بندرگاہوں کا دفاع تھا لیکن جب انڈین بحریہ کے اہلکار سوویت یونین میں ٹریننگ کر رہے تھے تو انڈین نیوی کے کیپٹن نیّر نے اپنی ٹیم سے پوچھا کہ کیا یہ میزائل بوٹس دفاع کے بجائے حملے میں استعمال ہو سکتی ہیں؟

میجر جنرل ایان کارڈوزو نے اپنی کتاب ’1971 سٹوریز آف گرٹ اینڈ گلوری فرام انڈیا پاکستان وار‘ میں لکھا ہے کہ ’یہ کشتیاں تیز رفتار تو تھیں لیکن یہ کھلے سمندر میں طویل فاصلے تک سفر کرنے کے لیے ڈیزائن نہیں کی گئی تھی۔ تیزرفتاری کی وجہ سے وہ بہت زیادہ ایندھن لیتی تھی اور کسی بھی حالت میں 500 ناٹیکل میل سے آگے نہیں جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ یہ کم اونچی کشتیاں تھیں جن کی وجہ سے سمندر کی اونچی لہریں ان کے اوپر سے گزر سکتی تھیں۔‘

ان میزائل کشتیوں کے جارحانہ استعمال کے بارے میں انڈین بحریہ کے منتخب افسران کے درمیان مشاورت ہوئی اور آٹھ میزائل بوٹس کو بحریہ کے جہازوں کے ذریعے کولکتہ سے ممبئی تک پہنچایا گیا۔ ان میزائل کشتیوں سے دور دراز کے اہداف کو تباہ کرنے کے لیے کئی مشقیں کی گئیں۔

انڈین بحریہ کے افسران ریڈار رینج اور میزائلوں کے درست ہدف دیکھ کر حیران رہ گئے۔ طے پایا کہ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو ان میزائل بوٹس کو کراچی پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

جنگ سے قبل انڈین نیوی کے سربراہ ایڈمرل ایس ایم نندا بلٹز اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ چکے تھے کہ انھوں نے اپنےکریئر کا آغاز کراچی سے کیا تھا جس کی وجہ سے انھیں کراچی بندرگاہ کی ترتیب اور انتظام کا مکمل اندازہ ہے۔ انہوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ اگر انھیں موقع ملا تو وہ کراچی کی بندرگاہ پر حملے سے نہیں چوکیں گے۔

جب کراچی جانے والا انڈین بحری بیڑہ پاکستانی آبدوز کے قریب سے گزر گیا

پاکستان نیوی کی آبدوز ہنگور کے کمانڈر جنگ چھڑنے سے پہلے ہی کراچی سے روانہ ہو چکے تھے۔ انھیں بمبئی کے قریب کا علاقہ سونپا گیا تھا جہاں وہ نیول ہیڈکوارٹر کے احکامات کا انتظار کر رہے تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کیپٹن احمد تسنیم نے بتایا کہ ’تین دسمبر کی رات ہمیں چھ انڈین بحری جنگی جہاز، جن کا رُخ کراچی کی طرف تھا، نظر آئے۔ میں نے ریڈیو سائلنس بریک کی اور نیول ہیڈکوارٹر کو کوڈ ورڈ میں بتایا کہ اتنے جہاز بمبئی سے نکلے ہیں اور ان کا رخ کراچی کی جانب ہے۔‘

اس وقت تک احمد تسنیم کو ایسا کوئی حکم موصول نہیں ہوا تھا کہ وہ ان جہازوں کو نشانہ بناتے ورنہ انڈین نیوی کا یہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو سکتا تھا۔

ان کا خدشہ درست تھا کیوں کہ یہ بحری جہاز انڈین نیوی کے اس مغربی فلیٹ کا حصہ تھے جسے کراچی کی بندرگاہ پر حملے کا مشن سونپا گیا تھا اور اس وقت وہ بمبئی سے اوکھا پورٹ کی جانب روانہ ہوئے تھے۔

’پاکستانی جہاز کو لگا انڈین فضائیہ نے حملہ کر دیا ہے‘

چار دسمبر سنہ 1971 کی رات تین میزائل کشتیاں نیپات، نرگھٹ اور ویر کراچی کے لیے روانہ ہوئیں۔ انڈین نیوی نے پاکستانی فضائیہ سے بچنے کے لیے رات کا وقت چنا تھا۔

انڈین نیوی کے ریٹائرڈ ایڈمرل ایس ایم نندا اپنی سوانح عمری ’دی مین ہو بومبڈ کراچی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ طے پایا کہ حملہ رات کو کیا جائے گا۔ یہ میزائل کشتیاں سورج غروب ہونے تک کراچی میں تعینات جنگی طیاروں کی پہنچ سے دور رہیں گی۔ رات کو تیزی سے کام انجام دینے کے بعد وہ صبح تک پاک فضائیہ کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی۔‘

دوسری جانب پاکستان نیوی نے ہنگور کی جانب سے اطلاع ملنے کے بعد پی این ایس خیبر اور دیگر جنگی جہازوں کو سمندر میں پٹرولنگ کے لیے بھیج دیا گیا تھا جو چار دسمبر کی رات اس حملے سے پہلے کراچی کے جنوب مغرب میں گشت کرتے ہوئے انڈین نیوی کے غیر متوقع حملے کا شکار ہوئے۔

’دی سٹوری آف دی پاکستان نیوی‘ میں لکھا گیا ہے کہ ’ابتدائی طور پر خیبر کے کمانڈنگ آفیسر نے سمجھا کہ چمکدار سفید روشنی انڈین طیارے کی طرف سے داغا گیا فلیئر ہے۔ لیکن وہ جس رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا اس سے یہ اندازہ ہوا کہ یہ شاید انڈین طیارہ ہے۔ وہ میزائل خیبر کے الیکٹریشن میس ڈیک سے ٹکرایا اور فوراً ہی خیبر کے انجن نے کام کرنا بند کر دیا اور پورے جہاز کی بجلی چلی گئی۔‘

اسی اندھیرے میں جہاز سے ملٹری ہیڈ کوارٹر کو پیغام بھیجا گیا کہ 'دشمن کے طیاروں نے جہاز پر حملہ کر دیا۔ نمبر ون بوائلر ہٹ۔ شپ سٹاپڈ۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک دوسرا میزائل خیبر کو لگا جس کے بعد جہاز ڈوبنا شروع ہو گیا۔

مائن سویپر پی این ایس محافظ نے ڈوبتے ہوئے خیبر کے عملے کی مدد کی کوشش کی تو انڈین نیوی کی میزائل بوٹ ویر نے 11:20 پر اس پر بھی میزائل داغا جس سے پی این ایس محافظ بھی تباہ ہو گیا۔

انڈین حملے کے دوران کراچی بندرگاہ پر بھی کافی میزائل داغے گئے جب کہ اسی حملے کے دوران انڈین نیوی کی ایک میزائل بوٹ نے ایک لائبیرین جہاز وینس چیلنجز کو بھی میزائل سے تباہ کر دیا۔

اس تجارتی جہاز کو تباہ کرنے کے بعد انڈین نیوی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ جہاز ہتھیار لے کر جا رہا تھا جسے پاکستاننیوی نے غلط قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیے

ہنگور: جب پاکستانی ’شارک‘ نے انڈین ’کھکری‘ کا شکار کیا

غازی آبدوز جس کے ڈوبنے کی اصل وجہ پچاس سال بعد بھی ایک معمہ ہے

پاکستان اور انڈین کمانڈرز کے دوران جنگ ایک دوسرے کو خطوط اور چائے کا ذکر

1971 کی جنگ: جب امریکہ نے انڈیا کو ڈرانے کے لیے اپنا جنگی بیڑہ بھیجا

1971 کی جنگ میں انڈیا کے ٹینک تباہ کرنے والے آرمینیائی کرنل ڈیرک جوزف کون تھے؟

’جنگ میں تو ایسا ہوتا ہے‘

پاکستان نیوی کو پانچ دسمبر کی صبح پی این ایس محافظ اور پی این ایس خیبر کے بچ جانے والے عملے سے اس حملے کی تفصیلات ملیں تو یہ معمہ حل ہوا کہ چار دسمبر کی رات انڈین فضائیہ نے نہیں بلکہ انڈین نیوی کی تیز رفتار میزائل بوٹس نے حملہ کیا تھا۔

میجر جنرل فضل مقیم خان اپنی کتاب ’پاکستان نیوی ایٹ وار‘ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان نیوی کی جانب سے اس حملے کے جواب میں پاکستانی فضائیہ سے رابطہ کیا گیا کہ انڈین نیوی کی میزائل بوٹس پر فضائی حملہ کیا جائے۔ فضل مقیم لکھتے ہیں کہ ’پاکستانی فضائیہ کی جانب سے جواب دیا گیا کہ جنگ میں ایسا ہوتا ہی ہے اور ہم کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

آسٹریلین مؤرخ جیمز گولڈ رک اپنی کتاب ’نو ایزی آنسرز‘ میں لکھتے ہیں کہ پاکستانی فضائیہ نے جواب میں تاخیر سے ایک سنہری موقع کھو دیا کیوں کہ انڈین نیوی کی میزائل بوٹس کو خرابی کا سامنا تھا۔

پاکستان کی فضائیہ کی جانب سے انڈین پورٹ اوکھا پر حملہ تو کیا گیا جہاں سے انڈین بحری بیڑے نے اپنے حملے کا آغاز کیا تھا لیکن تب تک انڈین نیوی اپنی میزائل بوٹس وہاں سے ہٹا چکی تھی۔

اس حملے سے اتنا ضرور ہوا کہ ایمونیشن اور فیول ڈمپ تباہ ہو گئے جس کے باعث انڈین نیوی کا کراچی پر ایک اور حملے کا منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا۔

کراچی بندرگاہ پر دوسرا انڈین بحری حملہ

پاکستان نیوی کو پہلے حملے کے بعد اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ انڈین نیوی تیز رفتار میزائل بوٹس کا استعمال کر رہی ہے جن کے میزائلز کی لمبی رینج اور رفتار کے باعث رات کی تاریکی میں فضائی مدد کے بغیر روکنا مشکل ہے۔ اسی لیے پاکستان نیوی کے جہازوں کو رات کے وقت بندر گاہ میں محفوظ مقام پر رہنے کی ہدایت دی گئی۔

دوسری جانب انڈین نیوی کو بھی مشکلات کا سامنا تھا۔ ایک جانب خراب موسم تھا تو دوسری جانب تکنیکی مسائل۔ ان کے باوجود انڈین نیوی نے کراچی پر آٹھ دسمبر کو ایک اور حملہ کیا لیکن اس بار پاکستان نیوی کی بجائے ان حملوں کا نشانہ تجارتی جہاز بنے۔

اس حملے کے دوران گلف سٹار نامی پاناما کا تجاری بحری جہاز ڈبو دیا گیا اور برطانوی تجارتی جہاز ہرمیٹن کو نقصان پہنچا۔

انڈین نیوی نے کراچی پر ایک تیسرے حملے کا منصوبہ بھی بنا رکھا تھا۔ لیکن اسی دوران انڈین نیوی کو ایک بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

’ہم نے کراچی پر انڈین نیوی کے تیسرا حملے کو رکوایا‘

انڈین نیوی کے سربراہ ایس ایم نندا ابھی کراچی پر ایک اور حملے کی تیاری کر رہے تھے کہ نو دسمبر کی رات انڈین نیوی کے جنگی بحری جہاز آئی این ایس کھکری کے ڈوبنے کی اطلاع ان تک پہنچی۔

یہ واقعہ 9 دسمبر کی رات کو اس وقت ہوا جب پاکستانی آبدوز ہنگور نے آئی این ایس کھکری کو تباہ اور آئی این ایس کرپان کو بھاری نقصان پہنچایا تھا۔

یاد رہے کہ یہ وہی آبدوز تھی جس کے کمانڈر احمد تسنیم نے تین دسمبر کی رات کراچی کی جانب انڈین بحری بیڑے کی روانگی کی اطلاع دی تھی۔

اس وقت جنگ شروع نہ ہونے کی وجہ سے احمد تسنیم نے انڈین جہازوں کو نشانہ نہیں بنایا تھا لیکن آئی این ایس کھکری کو ڈبو کر انہوں نے انڈین نیوی کو ہلا کر رکھ دیا کیوں کہ اس حملے میں انڈین نیوی کے 18 افسران اور 176 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

انڈین نیوی نے کراچی پر حملے کا منصوبہ ترک کر کہ ہنگور کو ڈھونڈنے اور تباہ کرنے کا ارادہ کیا جس کے لیے بڑے پیمانے پر انڈین ہوائی اور بحری جہاز استعمال کیے گئے لیکن احمد تسنیم انڈین نیوی کی تمام تر کوشش کے باوجود انہیں چکمہ دینے میں کامیاب ہو گئے۔

ایڈمرل گورشکوف کی تعریف

دوسری جانب سویت سیٹلائٹس کے ذریعے کراچی کے گرد لڑی جانے والی اس بحری جنگ کے مناظر سوویت نیوی چیف ایڈمرل سرگئی گورشکوف تک پہنچ رہے تھے۔ ایڈمرل گورشکوف کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ اس نے جو میزائل بوٹس انڈیا کو اپنے بحری اڈوں کی حفاظت کے لیے دی تھیں وہ کراچی پر حملے کے لیے استعمال ہو رہی تھیں۔

جنگ کے چند دن بعد ایڈمرل گورشکوف اپنے بیڑے کے ساتھ ممبئی پہنچ گئے۔ میجر جنرل کارڈوزو لکھتے ہیں: ’گورشکوف نے انڈین بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نندا کو بتایا کہ وہ ان میرینز سے ملنا چاہتے ہیں جنھوں نے ان کی دی ہوئی میزائل کشتیوں کو استعمال کرتے ہوئے کراچی پر حملہ کیا۔‘

بعد میں ایڈمرل گورشکوف نے انڈین نیوی کے افسران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 'آپ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ اس لڑائی میں تنہا نہیں تھے۔ ہم امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ اگر ضروری ہوتا تو ہم مداخلت کرتے۔

’لیکن آپ لوگوں نے ہماری میزائل کشتیوں کو جس طرح استعمال کیا ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔‘

یہ رپورٹ پہلی مرتبہ 11 دسمبر 2021 کو شائع ہوئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More