عورت سے مرد اور پھر باپ بننے کا سفر: ’لوگوں نے کہا ایک لڑکی باپ کیسے بن سکتی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Feb 22, 2024

’للیتا للت بنی اور پھر للت باپ بن گیا۔ ایک بیٹی بیٹا بنی اور وہ پھر وہ ایک بیٹے کا باپ بن گیا۔‘

یہ کہتے ہوئے للت سالوے کی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک تھی۔ وہ انڈین ریاست مہاراشٹر کے شہر بیڑ کے رہائشی ہیں۔

للت اور ان کی بیوی سیما نے جنوری میں ایک بیٹے کو جنم دیا لیکن للت کے لیے یہ سفر کسی جدوجہد سے کم نہ تھا۔

سنہ 2020 تک للت سالوے، للیتا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ بچپن سے ہی للیتا کو لگتا تھا کہ اس کے جسم میں کچھ گڑبڑ ہے۔

للیتا کو جب اپنے جنسی اعضا کے قریب گلٹی محسوس ہوئی تو انھوں نے اس کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ انھیں ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ جنسی طور پر عورت نہیں بلکہ مرد ہیں۔

سنہ 2018 سے سنہ 2020 کے درمیان ان کی کل 3 سرجریاں ہوئی اور اس کے بعد للیتا کو ’للت سالوے‘ کے نام سے ایک نئی شناخت مل گئی۔ پھر سنہ 2020 میں للت نے بطورِ مرد شادی کر لی۔

للت کہتے ہیں کہ جب انھوں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ آیا وہ شادی کر سکتے ہیں، تو ان کو جواب ملا کہ ’اگر آپ فٹ محسوس کرتے ہیں، تو آپ یہ ضرور کر سکتے ہیں۔‘ اس کے بعد للت نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔

فروری 2020 میں للت نے سمبھاجی نگر کی ایک نوجوان خاتون سیما بنسودے سے شادی کرلی لیکن یہ فیصلہ ان کے لیے اتنا آسان نہ تھا۔

للت کہتے ہیں کہ لوگ ان پر ہنسا کرتے تھے۔ ’لوگ کہتے تھے اسے لڑکی کون دے گا؟ کون اس سے شادی کرے گا؟‘

للت کہتے ہیں جب ان کی شادی ہو گئی تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کے ان کے بچے نہیں ہوں گے۔

شادی کے تین سال بعد، للت اور ان کی بیوی سیما نے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب للت کو اپنی بیوی کے حمل کے بارے میں معلوم ہوا تو ان کے جذبات کیا تھے؟

للت کہتے ہیں کہ ’وہ احساسات الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔ جس دن مجھے پتا چلا کہ میری بیوی حاملہ ہیں تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے اپنی ماں کو فون کیا اور انھیں بتایا۔‘

لیکن اکثر جوڑوں کی طرح للت اور للیتا نے بھی لوگوں کو اس بارے میں نہ بتانے کا فیصلہ کیا۔

للت کے رشتہ داروں اور جاننے والوں کو سیما کے حمل کے بارے میں اس وقت پتا چلا جب انھوں نے ڈوہلے جیون کی تقریب رکھی۔

ڈوہلے جیون کے معنی حاملہ عورت کی خواہشات ہوتے ہیں۔ یہ میراٹھی سماج میں حمل کے ساتویں مہینے کے دوران کی جانے والی ایک تقریب ہے جس میں ماں بننے والی خاتون کو سر سے پاوں تک پھولوں میں سجایا جاتا ہے۔

جب ان سے لوگوں کے ردعمل کا پوچھا گیا تو للت کا کہنا تھا کہ لوگوں کو حیرت ہوتی تھی کہ میں باپ بننے والا ہوں۔ ’لوگ فون پر پوچھتے تھے کہ اوہ تم نے کھانے کی دعوت اس لیے رکھی کہ تمہاری بیوی حاملہ ہے؟ کچھ کہتے کہ یہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہے۔ ایک لڑکی کو بیٹا تو ہو سکتا ہے لیکن وہ باپ کیسے بن سکتا ہے؟‘

15 جنوری 2024 کو للت اور سیما کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ للت آج بھی جب اس دن کو یاد کرتے ہیں تو ڈر جاتے ہیں۔

’ڈاکٹر نے مجھے اندر بلایا۔ میں کانپتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ اندر چلا گیا۔ اندر بچے پر کپڑا ڈلا ہوا تھا اور وہ رو رہا تھا۔ ڈاکٹر نے کپڑا ہٹایا اور کہا کہ تمھارا ایک خوبصورت بیٹا ہوا ہے۔ میں نے ڈاکٹر سے مصافحہ کیا۔‘

للت کا اصرار ہے کہ انھوں نے بچے کی پیدائش کے لیے ٹیسٹ ٹیوب یا آئی وی ایف جیسی کسی ٹیکنالوجی کی مدد نہیں لی لیکن للت سالوے کا باپ بننا کیسے کسی دوسرے مرد کے باپ بننے سے مختلف ہے؟

للت کہتے ہیں، ’فرق اس بات کا ہے کہ اس مرد کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ واضح نہیں تھا کہ آیا وہ عورت ہے یا مرد۔ ایسے شخص نے اپنا وجود پیدا کیا، اپنی دنیا بنائی۔ تو یہ بہت بڑی بات ہے۔‘

للت سنہ 2010 سے پولیس میں بطورِ کانسٹیبل پر کام کر رہے ہیں۔ فی الحال وہ پولیس سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں تعینات ہیں۔ ان کے اپنے بیٹے کے لیے کچھ خواب ہیں۔

’میرا سفر تو یہاں تک ختم ہو گیا۔ اب ہمیں اس کا مستقبل بنانا ہے۔ ابھی یہ ایک پولیس کانسٹیبل کا بیٹا ہے۔لیکن میرا خواب ہے کہ میں اپنے بیٹے کو آئی اے ایس، آئی پی ایس آفیسر بناؤں۔‘

یہ بھی پڑھیےانڈیا کے ایل جی بی ٹی کیو جوڑے: ’میرے والدین مجھے غیرت کے نام پر قتل کرنے کے لیے تیار تھے‘سپریم کورٹ: کیا انڈیا ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینے کے قریب ہے؟’میں عورت سے مرد تو بن گیا ہوں لیکن اب کوئی بھی مجھے قبول نہیں کر رہا‘

للت اب دوسروں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ لوگ ان سے جنس کی دوبارہ تفویض کی سرجری کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ان سے معلومات لینے والوں کا تعلق بہار، اتر پردیش، ہماچل، گجرات سے ہے۔

اس بارے میں للت کہتے ہیں کہ ’میں ان لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو کیا مسئلہ درپیش ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم آپ کی طرح کرنا چاہتے ہیں۔ تو میں نے ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ یہ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ان والدین کو اس بارے میں معلوم ہے، کیا انھوں نے ڈاکٹر کو دکھایا؟‘

للت کہتے ہیں کہ اِن تمام چیزوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہ لوگوں کی مدد کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا انھیں واقعی تفویضِ جنس کی سرجری کی ضرورت ہے یا نہیں اور وہ انھیں ڈاکٹر سے بات کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

لیکن للت سے ہر طرح کے لوگ مدد کے لیے رجوع کرتے ہیں۔ اس کی وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک شخص ایک عورت سے محبت کرتا تھا لیکن اس خاتون کو ڈر تھا کہ اگر اُس شخص کی بیوی کو پتا چل گیا تو وہ ایک ساتھ نہیں رہ پائیں گے۔ اس خاتون نے للت کو بلایا اور جنس کی دوبارہ تفویض کی سرجری کے بارے میں پوچھا۔

جب للت نے خاتون سے پوچھا کہ وہ سرجری کیوں کروانا چاہتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ سرجری کے بعد وہ مرد بن جائیں گی اور پھر اپنے عاشق کے ساتھ رہ سکیں گی۔

للت کی خواہش ہے کہ معاشرہ تیسری صنف کے لوگوں کو انسانیت کی نظر سے دیکھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا معاشرہ ٹرانس جینڈر، تیسری صنف، ایل جی بی ٹی افراد کو غلط نظر سے دیکھتا ہے۔ جب آپ عورت کو عورت کے طور اور مرد کو ایک مرد کے طور پر دیکھتے ہیں، تو آپ کو راہ چلتے ٹرانس جینڈر کو دیکھ کر کیوں تجسس محسوس ہوتا ہے؟ آپ للت سالوے کے بارے میں کیوں متجسس ہیں؟‘

’اگر کوئی تیسری صنف والا رستے پر چل رہا ہوتا ہے تو آپ اسے ہیجڑا کیوں کہتے ہیں؟ آپ اسے ایک انسان کے طور پر دیکھیں۔‘

جب للت سے ان کے جنس کی تبدیلی اور والد بننے کے سفر کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک طویل اور مشکل سفر تھا۔ بہت لڑائی ہوئی۔ میں چار دیواری کے اندر رونا چاہتا تھا‘ لیکن للت کہتے ہیں کہ وہ اب اس سب سے آزاد ہیں، آزادی سے سانس لے رہے ہیں اور خوشی سے جی رہے ہیں۔

’لڑکی کی حیثیت سے خوش نہیں، جنس تبدیل کرنے کی اجازت دیں‘دو بہنیں جو جنس تبدیلی کے آپریشن کے بعد دو بھائی بننے پر خوش ہیں'میں عورت کے جسم میں بے چین تھا'، جنس تبدیلی سےمرد بن جانے والے سکول ٹیچر کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More