ایپل فون ٹھیک کرنے کی ویڈیوز بنانے والا نوجوان، جس کی کمپنی کے اب آٹھ ملکوں میں فرنچائز ہیں

بی بی سی اردو  |  Feb 23, 2024

Cortesía Wiltechولمر کی عمر 35 سال ہے اور وہ 10 سال سے ایپل برینڈ کے الیکٹرانک آلات کی مرمت کر رہے ہیں

’میں نے اسے ایک کاروبار کے موقع کے طور پر دیکھا لیکن پھر مجھے اس بات کی سمجھ آئی کہ ڈیواس کو پھینکنے کے بجائے ری سائیکل (دوبارہ قابل استعمال) کر کے (ماحول کو بچانے میں) اپنا حصہ ڈالنا ہے۔‘

ولمر بیسیرا 15 سال سے الیکٹرانکس کی ریپیئرینگ کا کام کر رہے ہیں لیکن انھوں نے ایپل کمپنی کی مصنوعات کو ٹھیک کرنے میں مہارت حاصل کی اور اس کے لیے انھیں جانا جاتا ہے۔

کولمبیا میں اپنے شہر بوکارامانگا میں انھوں بطور ملازم لیپ ٹاپس کو ٹھیک کرنے کا کام شروع کیا اس دوران انھوں نے تھوڑے پیسے جمع کر کے اپنی دکان شروع کی۔

یہ وہ دکان ہے جہاں 2012 میں ایک دن ایک سیاح ان کے پاس ایک خراب میک بک (ایپل کمپنی کا لیپ ٹاپ) لے کر آئے، ولمر نے کبھی اس طرح کا لیپ ٹاپ نہیں دیکھا تھا۔

’یہ کمپیوٹر آن نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں نے کبھی اس برینڈ کا لیپ ٹاپ نہیں دیکھا اور کبھی اسے ٹھیک نہیں کیا لیکن انھوں نے اسرار کیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں اسے ٹھیک کروں تو اسے میرے پاس چھوڑ جائیں میں کوشش کروں گا لیکن وعدہ نہیں کر سکتا کہ یہ ٹھیک ہو جائے گا یا نہیں۔‘

انھوں نے اس لیپ ٹاپ کو کھولا تو اس کا ڈیزائن باقی لیپ ٹاپ سے بالکل مختلف تھا۔ انھیں اسے سمجھنے میں کافی دن لگے لیکن آخر کار وہ یہ جاننے میں کامیاب ہو گئے کہ اس میں مسئلہ کیا ہے۔ اس کے پراسیسر میں شاٹ سرکٹ ہوا ہوا تھا جسے ٹھیک کر دیا گیا۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس کام کے لیے کتنے پیسے گاہک سے لیں۔

’میں نے سوچا کہ یہ عام لیپ ٹاپ نہیں اور مجھے اسے ٹھیک کرنے میں معمول سے زیادہ وقت لگا ہے۔ میں ان سے اس کام کے لیے دگنے پیسے لوں گا۔‘

ولمر عوماً زیادہ پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ گاہک ہمیشہ انھیں کم کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس گاہک نے بغیر بحث کے جتنے پیسوں کا مطالبہ کیا گیا اتنے دے دیے۔

اور اس طرح ’ولٹیک‘ کا آغاز ہوا، اب 35 سالہ کولمبین ولمر کے کاروبار میں کولمبیا میں تین سٹور ہیں، آٹھ ملکوں میں فرینچائز ہے اور ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر 42 ملین لائکس ہیں۔

بی بی سی منڈو نے ولمر سے ان کی کہانی سنی، کیسے انھوں نے اپنے کاروبار کو وسیع کیا اور وہ کیسے ٹیکنالوجی صنعت کے پیدا کیے فضلے کے اثرات کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

نئے راستے پر پہلا قدمCortesía Wiltechولمر شروع میں ملازمت کے دوران ریپیئرنگ کا کام کرتے تھے

کولمبیا میں ریپیرنگ کے کاروبار میں لوگوں کا آپس میں سخت مقابلہ ہوتا ہے۔

عموماً الیکٹرانکس کو ٹھیک کرنے والے یا شہر کے کسی شاپنگ مال میں ہوتے ہیں یا کوئی ایسی گلی ہوتی ہے جہاں وہ سب اپنی دکان لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ گاہکوں کو ایک ایک کر کے ہر دکان میں جانا ہوتا ہے اور جو دکان دار ان کا اعتبار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور انھیں بہترین قیمت دیتا ہے اسے ہی کام ملتا ہے۔

اس مقابلے کا ذہن میں رکھتے ہوئے ولمر نے گاہکوں کو اپنے پاس لانے اور رکھنے کی حکمت عملی پر سوچنا شروع کیا کیونکہ ایک بات ان کے لیے واضح تھی کہ وہ مزید ایسے گاہکوں کو ڈھونڈنا چاہتے ہیں جو ایپل کے پراڈکٹ کو استعمال کرتے ہیں۔

’پہلا کام میں نے یہ کیا کہ میں نے ایپل کا کمپیوٹر خریدا تاکہ اسے مزید سمجھ سکوں کہ یہ کام کیسے کرتا ہے۔‘

اس کے بیک وقت انھوں نے ڈیجیٹل مارکٹنگ کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنا شروع کیں۔ انھیں جلد اس بات کی سمجھ آ گئی کہ اپنی خدمات کی مشہوری کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا اچھا ہو گا۔

اس وقت فیسبک زیادہ چلتا تھا لہٰذا انھوں نے اسے ہی اس کام کے لیے استعمال کیا۔

شروع میں انھیں معمول کے مسائل مل رہے تھے ان کو انھوں نے ایسے الیکٹرانک پُرزوں کے ساتھ ٹھیک کر دیا جو آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن جلد ہی ان کے پاس ایسے کمپوٹر آنا شروع ہو گئے جن کی سکرین اور کی بورڈ خراب تھے اور اس کا مطلب تھا کہ ولمر کو ایپل کے سپیئر پارٹس چاہیے تھے اور وہ کولمبیا میں نہیں ملتے تھے۔

ایک طریقہ یہ تھا کہ امریکہ سے آنے والے کسی شخص سے وہ درخواست کر سکتے تھے کہ وہ یہ پارٹس اپنے ساتھ لے آئیں لیکن یہ طویل عرصے کے لیے پائدار نظام نہیں ہے۔ انھیں سپیئر پارٹس کی درآمد کرنی تھی۔

وہ کہتے ہیں ’امریکہ میں کافی عرصے سے ریپیئر مارکٹ چل رہی ہے ایسی ویب سائٹس ہیں جہاں سپیئر پارٹس بکتے ہیں۔ اس طرح میں نے انھیں خریدنا شروع کیا۔ میں نے ایک ویب سائٹ پر رجسٹر کیا، ایک لاکر خریدا جہاں ان پارٹس کی شپمنٹ ہوتی تھی اور پھر کولمبیا تک انھیں لانے کا راستہ ڈھونڈا۔‘

یہ ایک سیکھنے کا عمل تھا اور اس میں وقت لگا کیونکہ انھیں انگریزی میں ترجمہ کرنا تھا اور اس دوران انھوں نے کافی غلطیاں کیں اور ان کے پیسے بھی ضائع ہوئے۔

پانچ دفعہ ناکام ہونے کے بعد وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس وجہ سے وہ بہتر اور تیز طریقے سے اپنے گاہکوں کا مسئلہ حل کر سکتے تھے۔

آئی فون کا نیا چیلنجGetty Imagesجنوری 2024 میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ایپل نے فروخت میں سام سنگ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کی بدولت آئی فون سب سے زیادہ فروخت ہونے والا فون بن گیاایپل کے 10 لاکھ مالیت کے ہیڈ سیٹ کی فروخت شروع مگر اس میں خاص بات کیا ہے؟ایپل نے سام سنگ کو پیچھے چھوڑ دیا، سمارٹ فونز کی ریکارڈ فروخت کے بعد دنیا پر اپنا راج قائم کرنے میں کامیاب’92 ڈالر فی دعویدار‘ ایپل نے آئی فون کی رفتار کم کرنے کے کیس میں ادائیگیاں شروع کر دیں

پھر اس کے بعد 2014 کا سال تھا جب ایک اور گاہک کی وجہ سے ان کے کاروبار کو مزید وسعت ملی۔ وہ ان کے پاس آئی فون 6 لے کر آیا جو اس وقت سب سے نیا ماڈل تھا اور اسے کافی نقصان ہوا ہوا تھا۔

ولمر کہتے ہیں کہ انھیں اس کی سکرین تبدیل کرنی پڑی۔ ولمر کو ضروری پارٹ مل گیا تھا لیکن کیونکہ وہ پہلی دفعہ اسے ٹھیک کر رہے تھے تو ٹھیک کرتے ہوئے ان سے یہ ٹوٹ گیا لہٰذا انھوں نے اسے دوبارہ خرید کر فون کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔

انھوں نے اس آئی فون کو ٹھیک کر دیا لیکن اس میں انھیں مالی نقصان ہوا۔

لیکن وہ مزید معلومات اور درست پارٹس حاصل کر کے اس نقصان کا ازالہ کر سکتے تھے، تو ولمر نے اس پر کام شروع کر دیا۔

وہ کہتے ہیں ’میں نے مشک کرنے کا ارادہ کیا۔ میں نے ایک مائکرو سکوپ بھی خریدی تاکہ میں آئی فون کے چھوٹے پرزوں پر کام کر سکوں جس میں تقریباً پانچ ہزار چیزیں ہوتی ہیں میں نے شروات ان حصوں کو تبدیل کرنے سے کی اور پھر الیکٹرانک پرزوں کی طرف آیا۔‘

لیکن انھیں اپنے طریقے بنانے پڑے کیونکہ اس وقت اس قسم کے ڈیوائس کو ٹھیک کرنے کے لیے ضروری اوزار نہیں بکتے تھے۔ انھیں اس کے لیے ترکھانوں، الیکٹریشنز اور ولڈرز کے پاس جانا پڑا۔

یہ کام انھیں اس وقت تک کرنا پڑا جب تک ان کے مطابق چین سے ایسے آلات آنا شروع نہیں ہوئے جو خاص طور پر اس کام کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ ایسی سولڈرنگ آئرن آئی جو باریکی سے کام کرتی ہے اور اس کا درجہ حرارت کنٹرول کیا جا سکتا ہے ’ظاہر سی بات ہے کہ وہ کافی مہنگی تھی لیکن میں نے اس میں سرمایہ لگانے کا فیصلہ کیا۔‘

انھیں اپنی خواہش کے مطابق ورکشاپ بنانے میں تین سال لگ گئے لیکن ابھی بھی ان کی زیادہ بڑی مشکل تھی کہ ان کے پاس گاہک آئیں اور ان کا اعتماد حاصل کرنا ایک آسان کام نہیں تھا۔

انھوں نے بتایا ’مجھے یہ معلوم ہونا شروع ہوا کہ گاہکوں میں اتنی بے اعتباری کیوں ہے اور مجھے یہ پتا چلا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوتا ہے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی سکرین ایک ایسی سکرین سے تبدیل کی گئی جو اوریجنل نہیں تھی یا مرمت ٹھیک سے نہیں کی گئی اور اس کی وارنٹی بھی انھیں نہیں دی گئی۔‘

اور مسئلہ یہ بھی تھا کہ گاہکوں کو نہیں بتایا جاتا تھا کہ ان کی چیز کو ٹھیک کیسے کیا جاتا ہے۔

ولمر کو اس بات کی سمجھ آ گئی تھی کہ ان سے بات کر کے ان کا اعتبار نہیں جیتا جا سکتا لہٰذا انھوں نے ٹھیک کرنے کے عمل کی ویڈیو بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے باوجود کہ لوگ ان کی ویڈیو سے سیکھ سکتے تھے اور ان کا مقابلہ مزید بڑھ سکتا تھا۔

’مارکٹنگ کے کورس کے دوران ایک چیز میرے ذہن میں پھنس گئی، انھوں نے بتایا گیا کہ گاہک کو لفظوں سے قائل کرنا مشکل ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے وہ جلدی سے آپ کی باتوں کی تصدیق کر سکیں۔ دوسری جانب ایک تصویر ہزار لفظوں کے براپر پوتی ہے اور ایک ویڈیو ہزاروں تصویروں کے برابر ہوتی ہے۔‘

منصوبہ یہ تھا کہ ولمر کی جانب سے پیش کی جانے والی خدمات کو خود گاہک دیکھ کر قائل ہو جائے گا۔

ولمر نے پھر اچھے معیار کی ویڈیوز بنانا سیکھنے کا فیصلہ کیا جس میں وہ ڈیوائس کو پہنچنے والا نقصان دکھائیں گے اور یہ بھی دکھائیں گے کہ انھوں نے اسے ٹھیک کیسے کیا۔

وہ بتاتے ہیں ’یہ ایک نئی چیز تھی کہ ہم ٹھیک کرتے دکھا رہے تھے، اس سے پہلے یہ سوشل میڈیا پر نہیں ملتی تھی کیونکہ یہ ایک خفیہ چیز تھی۔ لیکن میں نے دیکھا کہ گاہکوں کو یہ بات پسند آ رہی تھی کہ انھیں دکھایا جا رہا تھا کہ ہم ان کے آلات کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں اور اس سے کچھ اعتماد پیدا ہوا۔‘

یہ ایک اچھا فیصلہ تھا کیونکہ لوگ ان کی ویڈیوز کو دیکھ رہے تھے اور ان کے فالوورز کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا لیکن ایک 15 منٹ کی ویڈیو تھی جس کی وجہ سے وہ مشہور ہو گئے۔

وائرل ویڈیوCortesía Wiltechولمر اپنی دکان میں کام کرتے ہوئے اپنی زیادہ تر ویڈیوز شوٹ کرتے ہیں

ولمر بتاتے ہیں ’سب تب شروع ہوا جب ہم نے ایک شخص کا بتایا جو اپنے ڈیوائس کی مرمت کے لیے ایپل کے پاس گئے لیکن ان کو بتایا گیا کہ بہتر ہو گا اگر آپ نئی ڈیوائس لے لیں کیونکہ یہ کام نہیں کرے گی۔‘ پھر انھوں نے مجھے اپنی ڈیوائس بھیجی اور خط میں لکھا ’ولمر، میرے پاس آئی فون 13 پرو میکس ہے جو خراب ہے اور اس کا کوئی حل نہیں ملا، دیکھیں آپ کیا کر سکتے ہیں۔‘

اس طرح کی ویڈیو کام کر گئی تو انھوں نے اور بھی مختلف قسم کی ویڈیوز بنا کر انھیں آزمانے کا سوچا۔

انھوں نے ایک ایسی ویڈیو بنائی جس میں انھوں نے گاہکوں کو سمجھایا کہ وہ اوریجنل اور تبدیل شُدہ سکرینوں کے درمیان فرق کیسے بتا سکتے ہیں اور اس ویڈیو کے آخر میں انھوں نے ریپیئرنگ کرنے والوں کو پیغام دیا کہ یہ اہم ہے کہ آپ گاہکوں کے ساتھ ایمانداری کے ساتھ کام کریں اور انھیں جو حل بتائیں اُس کی ان سے اصل قیمت ہی وصول کریں۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’یہ معمول تھا کہ میری ویڈیوز کو 150 لائکس ملتے تھے لیکن میں نے یہ ویڈیو شام کو اپلوڈ کی اور چار گھنٹوں میں اسے پانچ ہزار لائکس مل گئے۔ میں حیران تھا کیونکہ مجھے اس کی عادت نہیں تھی مجھے لگا میرا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا ہے۔‘

لیکن یہ شروعات تھی اگلے دن اس ویڈیو کے ایک لاکھ ویوز ہو گئے تھے جو کسی ویڈیو کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔

پھر وہ ٹک ٹاک پر آئے اور انھوں نے اس پلیٹ فارم کے مطابق اپنی ویڈیوز کو ڈھالا۔ ان کی حکمت عملی سادہ تھی۔ سیدھی بات کریں، بہت زیادہ ایڈٹ نہ کریں اور گاہکوں کے بھیجے گئے دلچسپ اور پیچیدہ مسائل دکھائیں۔

آج ان کے فیس بک پر 67 لاکھ فالورز ہیں اور ٹک ٹاک پر انھیں چار کروڑ 27 لاکھ لائکس مل چکے ہیں۔ اس کے بدولت انھیں پورے کولمبیا اور دنیا سے کام ملتا ہے۔ گاہکوں نے انھیں بوکارامنگا میں اپنے آلات بھیجنا شروع ہوگئے۔

Cortesía Wiltechایک آئی فون کیس جس پر ایک نوٹ ہے جس میں لکھا ہے: میں نے اپنے باس کو سیکرٹری کے ساتھ ریکارڈ کیا، مجھے یہ آئی فون آن کرنا ہے

اس طرح میکسیو کے ایک شہری نے ان سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا وہ ان کے پاس اپنا آئی فون ٹھیک کروانے کے لیے آ رہے ہیں۔ انھوں نے ولمر کو بتایا کہ میکسیکو میں ان کے فون کو ٹھیک کرنے کے لیے 800 ڈالر مانگے جا رہے تھے، ولمر نے ان کے فون کا جائزہ لینے کے بعد انھیں بتایا کہ وہ اس کام کے 100 ڈالر لیں گے۔

’کبھی کبھار مینیوفیکچررز مرمت کے لیے پورے فون کے سسٹم کو تبدیل کر دیتے ہیں لیکن ہم تو صرف اس پرزے کو تبدیل کرتے ہیں جو کام نہیں کر رہا ہوتا اور وہ ٹھیک کام کرنے والے پرزے کو نہیں چھیڑتے اور یہ کام زیادہ سستا ہے۔‘

یہ گاہک میرے کام سے خوش ہوئے اور انھوں نے میرے ساتھ ایک میٹنگ کی درخواست کی جس میں وہ ایک کاروبار کا منصوبہ میرے سامنے رکھیں گے۔

’انھوں نے مجھے بتایا کہ ہمیں شراکت داری شروع کرنی چاہیے اور وہ ایسا ہی کُچھ کرنا چاہتے ہیں۔‘

ولمر کی پارٹنرشپ میں دلچسپی نہیں تھی لیکن انھیں یہ بات پسند آئی کہ وہ اپنی خدمات کو وسیع کریں۔ انھوں نے فرینچائز ماڈل کا آغاز کیا جس میں وہ ان لوگوں کی تربیت کریں گے جو اپنی ورکشاپ کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔

جو لوگ ان کا برینڈ استعمال کرتے ہیں وہ انھیں آمدن میں بھی شریک کرتے ہیں جس میں سپیئر پارٹس کی خریداری پر ہدایات اور گاہکوں سے ڈیل کرنے اور بل بنانے کے سافٹ ویئر شامل ہیں۔

اس ماڈل کے ساتھ وہ لاطینی امریکہ کے آٹھ مُمالک میں 22 ورکشاپس کھولنے میں کامیاب رہے ہیں۔ وہ کولمبیا میں موجود ورکشاپس کے انتظامات سنبھالتے ہیں۔

’مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ ہمارے خطے کے لوگوں کی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ اپنی چیزیں ٹھیک کروائیں کیونکہ ان کے لیے نئی چیز خریدنا آسان نہیں ہوتا، اور ہم اُن کی مدد کے لیے ہی تو ہیں۔‘

نیا خریدنا بمقابلہ مرمتCortesía Wiltechکولمبیا میں ولمر کی ورکشاپوں میں سے ایک

کئی سالوں کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد ولمر نے اپنے کاروبار کی نئی جہتیں تلاش کرنا شروع کیں اور وہ یہ تھا کہ وہ ریپیئرنگ کر کے ماحول پر مثبت اثر ڈالنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

’ہماری ساری ورکشاپس میں ہم ہر مہینے 3500 آئی فونز ٹھیک کیے جاتے ہیں۔ میرے لیے یہ ایک لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو ان فونز کو پھینکنے کے بجائے انھیں اپنی جیب میں رکھے ہوئے ہیں۔‘

لیکن یہ آسان نہیں ہے کیونکہ انڈسٹری کی اس پر خاص توجہ ہے کہ کیسے گاہک کو پرانے پراڈکٹ کو چھوڑ کر نئے لینے پر قائل کریں، ان کی یہ ضرورت بنائی جائے کہ وہ پرانے ماڈل چھوڑ کر تازہ ترین چیز لیں۔

وہ کہتے ہیں ’اسے منصوبے بندی کے تحت ایبسولینس کہا جاتا ہے اور اس میں مینیوفیکچر کرنے والے ایک پراڈکٹ پر مکینیکل اور کیمیائی تحقیق کرتے ہیں تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ وہ کتا عرصہ چل سکتے ہیں اور زیادہ عرصے نہ چلیں۔‘

اس کو بہتر سمجھانے کے لیے ولمر رفریجریٹر کی مثال دیتے ہیں۔ ان کے والدین نے ایک 25 سال پہلے خریدا تھا لیکن جو نئی ٹاکنالوجی والا رفریجریٹر انھوں نے اپنی شادی پر خریدا وہ دو سال بعد خراب ہو گیا۔

’میرے والد نے جہاں 50 سالوں میں دو ریفریجریٹر خریدے میں نے 10 سالوں میں تین خریدے ہیں۔ اور یہ تمام آلات کے ساتھ ہوتا ہے، میعار پہلے جیسا نہیں رہا وہ زیادہ وقت تک نہیں چلتے۔ یہ ’ایمبولینس‘ ہے جس میں ایک چیز کو زیادہ دیر تک نہیں چلنے دیا جاتا تاکہ زیادہ مصنوعات فروخت ہوں۔

لیکن اس میں مثبت صرف یہ بات نہیں ہے کہ ٹھیک کیے گئے آلات کام کرنا جاری رکھتے ہیں جس کی وجہ سے گاہکوں کو بار بار نئے آلات خرید کر پرانا نہیں پھینکنا پڑتے بلکہ مثبت چیز یہ بھی ہے کہ ایسے پرانے آلات جن کی مرمت نہیں ہو سکتی ان کے ان موجود چیزوں کی ریسائکل ہو جاتی ہے۔

ولمر بتاتے ہیں ’ہم بہت سے پرزے ری سائکل کرتے ہیں مثال کے طور پر اگر مجھے ایک آئی فون 13 پرو میکس آتا ہے کیونکہ اس کی سکرین ٹوٹی ہوئی ہے لیکن گاہک یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ آئی فون 15 خریدنا چاہتا ہے تو میں ان کے فون کا معائنہ کرتا ہوں کہ کون سے پرزے استعمال ہو سکتے ہیں اور پھر میں انھیں اس کی قیمت دیتا ہوں۔ اس طرح میں استعمال کے قابل حصوں کو صحیح طرح استعمال کرتا ہوں۔

اور باقی بچی چیزوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

’بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن کیونکہ اس کا کوئی نظام نہیں ہوتا تو ان کی وجہ سے آخر میں وہ سب بس آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔‘

اس وجہ سے ولمر کا کہنا ہے کہ جو سامان ان کے پاس بچتا ہے وہ اسے چین کے پراسیسنگ پلانٹس کو فروخت کر دیتے ہیں جو ہر مواد کو پراسیس کرتے ہیں تاکہ ان سے ماحول آلودہ نا ہو۔

اب مشکل یہ ہے کہ ان کے برینڈ والی ہر ورکشاپ ماحولیاتی طور پر ذمہ دارانہ سرگرمیوں پر عمل کروائیں۔

’میں ان صارفین کے لیے کام کرتا ہوں جن کی ایپل مدد نہیں کرتا۔ ظاہر ہے کہ یہ صحرا میں ذرّے کے برابر ہے، لیکنجس دور میں ہم رہتے ہیں اس میں حد سے زیادہ کمرشلزم کے خلاف بغاوت بھی ہے۔‘

نیا آئی فون، نیا چارجر: ایپل کو ممکنہ طور پر ’ٹائپ سی‘ چارجر پر منتقل کیوں ہونا پڑے گا؟ٹائٹینئم ڈیزائن، طاقتور کیمرہ، سی ٹائپ چارجر اور بہتر گیمنگ: آئی فون 15 میں نیا کیا ہے؟تیل کے بعد وہ قیمتی ٹیکنالوجی جس پر چین اور امریکہ لڑ رہے ہیں مگر امریکہ یہ ’جنگ‘ کیسے جیت رہا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More