’چار لاشیں مکمل جل چکی تھیں‘: بشام میں چینی انجینیئرز پر خودکش حملے کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا

بی بی سی اردو  |  Mar 27, 2024

جب ریسکیو حکام کو بشام میں چینی انجینیئرز کی بس پر حملے کی اطلاع ملی تو وہ ٹھیک 12 منٹ میں جائے وقوعہ پہنچ گئے تھے۔ ایک ریسکیو اہلکار نے دیکھا کہ آگ لگنے سے لاشوں کی شناخت بھی مشکل ہو چکی تھی۔

منگل کو صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ کی تحصیل بشام میں اِن چینی انجینیئرز کا قافلہ داسو ڈیم کی طرف جا رہا تھا۔ بشام سے پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ خود کش حملہ آوروں نے اپنی گاڑی سے چینی انجینیئرز کی گاڑی کو ٹکر ماری جس سے ان کی گاڑی کھائی جا گِری اور پانچ چینی باشندوں سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے۔

عینی شاہدین کے بقول چینی انجینیئرز کی گاڑی کھائی میں گِرنے سے مکمل تباہ ہو گئی جبکہ جائے وقوعہ پر سڑک پر دوسری گاڑی کے بھی حصے بکھرے پڑے تھے۔

پاکستان اور چین دونوں کی جانب سے اس ’دہشتگرد حملے‘ کی مذمت کی گئی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ حملہ آوروں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا جبکہ اسلام آباد میں چینی سفارتخانے نے ایک بیان میں پاکستان سے اس حملے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔

خیال رہے کہ جولائی 2021 کے دوران داسو ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے والے نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے نومبر 2022 کے دوران اس حملے میں ملوث دو ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے بتایا گیا تھا۔

’چینی انجینیئرز کی گاڑی میں آگ لگ گئی تھی‘

مقامی صحافی عمر باچا بتاتے ہیں کہ واقعہ بشام سے تین کلو میٹر دور لاہور نالہ نامی سیاحتی علاقے میں ہوا۔ ان کے مطابق گلزار خان اور مصطفی پہلے پولیس اہلکاروں میں سے تھے جو جائے وقوعہ پر پہنچے۔ گلزار خان نے بتایا کہ چینی قافلے میں دو بسیں شامل تھیں اور سکیورٹی کی دو گاڑیاں ان کے آگے پیچھے تھیں۔

عینی شاہد حیات خان نے انھیں بتایا کہ وہ گھر پر نماز کی تیاری کر رہے تھے جب انھوں نے دو دھماکوں کی آوازیں سنیں۔ گھر کے باہر آسمان کی طرف دیکھا تو دھواں ہی دھواں تھا اور لوگ نالے کی طرف بھاگ رہے تھے۔

وہ بتاتے ہیں جب وہ سڑک کی طرف آئے تو نالے میں گاڑی پڑی تھی اور گاڑی سمیت ہر طرف جھاڑیوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ ’پھر پولیس آئی اور لوگوں کو ایک طرف کر دیا۔ ریسکیو والوں نے آگ بجھانے کا کام شروع کیا۔‘

ایک ریسکیو اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ واقعے کی اطلاع ملنے کے 12 منٹ کے اندر ریسکیو حکام جائے وقوعہ پر پہنچ چکے تھے۔

انھوں نے فوراً ریسکیو آپریشن شروع کر دیا کیونکہ وہ اپنے ساتھ فائر فائٹر، ایمبولینس اور دیگر سامان کے ہمراہ پہنچے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ریکسیو اہلکار آگ بجھانے کے لیے گہری کھائی میں اترے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ ’اگر کوئی زندہ گاڑی میں موجود ہے تو انھیں نکالا جا سکے۔‘

’ہم جب نیچے کھائی میں اتر رہے تھے تو دو لاشیں راستے میں پڑی تھیں جبکہ چار لاشوں کو ہم نے گاڑی سے نکالا تھا۔ دو لاشوں کی شناخت ہو پا رہی ہے مگر باقی چار لاشوں کی شناخت نہیں ہو سکی کیونکہ ان کے جسم مکمل جل چکے تھے۔‘

’شدت پسندی سے 19 فیصد زیادہ اموات‘ کیا پاکستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں؟افغانستان میں کارروائی کا نشانہ حافظ گل بہادر گروپ اور تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگرد تھے، دفتر خارجہ پاکستان

ریسکیو اہلکار نے بتایا کہ انھوں نے پہلے گاڑی میں لگی آگ کو بجھایا اور اس کے بعد گاڑی سے لاشیں نکالیں۔ ان کی بھی شناخت نہیں ہو پا رہی تھی۔

جائے وقوعہ پر پہنچنے والے بشام کے مقامی صحافی عرفان حسین بتاتے ہیں کہ جب ریسکیو حکام آگ بجھانے میں لگے ہوئے تھے تو اسی دوران پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس مقام کو گھیرے میں لے چکے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ ’سڑک پر ایک گاڑی کے پرزے بکھرے پڑے تھے۔ انجن کہیں پڑا تھا اور باقی پرزے دور دور گرے ہوئے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اس حملہ آور کی گاڑی ہو سکتی ہے جس میں بارودی مواد رکھا گیا ہوگا۔‘

ان کے مطابق وہ چھوٹی گاڑی جو بظاہر حملہ آور کی تھی، وہ بھی مکمل تباہ ہو چکی تھی جبکہ جائے وقوعہ پر ایک انسانی کان بھی پڑا ہوا تھا۔

عرفان حسین کے مطابق جس مقام پر حملہ ہوا، یہ بشام سے چند کلومیٹر دور ہے اور یہاں آبادی بہت کم ہے۔ یہ مجموعی طور پر ایک پُرامن علاقہ ہے۔ اس قافلے میں کئی گاڑیاں تھیں جو داسو ہائیڈل پاور منصوبے کی جانب جا رہی تھیں اور ابتدائی طور پر یہی تاثر ملتا ہے کہ حملہ آوروں نے چُن کر چینی گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مختلف کمپنیوں کے زیرِ اثر داسو منصوبے کی طرف اکثر غیر ملکی اسلام آباد سے آتے ہیں اور ہر ہفتے چینی انجینیئر دورہ کرتے ہیں۔

عرفان حسین علی کے مطابق وہاں تفتیش کے دوران اہلکاروں نے کہا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ حملہ آور جس گاڑی میں سوار تھا وہ وہاں رُکی ہوئی ہو اور جب چینی انجینیئروں کی گاڑی وہاں پہنچی تو اس پر حملہ کر دیا گیا مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حملہ آور کی کار سامنے سے آ رہی ہو۔

عرفان حسین علی نے بتایا کہ لاشوں کو بشام کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں سے انھیں واپڈا کی ایمبولینسز میں اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والے پاکستان ڈرائیور کا تعلق کوہستان سے بتایا گیا ہے جہاں ان کی میت پہنچا دی گئی ہے۔

اسٹسنٹ کمشنر بشام عدنان خان نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ یہ واقعہ لگ بھگ ایک بجے دوپہر پیش ہوا جب ایک وٹز گاڑی میں سوار خود کش حملہ آور نے چینی انجینیئرز کی گاڑی کے ساتھ اپنی گاڑی ٹکرا دی۔ ان کے بقول مزید تفصیلات قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تفتیش کے بعد سامنے آ سکیں گی۔

ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی۔ اس سے قبل داسو منصوبے پر کام کرنے والے چینیوں پر 2021 میں حملہ کیا گیا تھا جس کا الزام ٹی ٹی پی پر عائد کیا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر اس واقعے کو ایک حادثہ قرار دیا گیا تھا لیکن بعد میں اس کی تصدیق کی گئی تھی کہ یہ باقاعدہ حملہ تھا۔

اس حملے کے بعد محکمہ انسداد دہشت گردی کے اس وقت کے ڈی آئی جی جاوید اقبال نے بتایا تھا کہ داسو حملے میں کل 14 افراد ملوث تھے اور یہ گروہ پاکستان میں متحرک تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی جہاں کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈر معاویہ اور طارق اس کے ماسٹر مائنڈ تھے۔

ٹی ایچ کیو ہسپتال بشام کے ڈاکٹر شاہ فہد کہتے ہیں کہ ڈرائیور اور ایک چینی کے علاوہ سارے افراد ایسے جل گئے تھے کہ شناخت کے قابل نہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ واقعے میں ایک چینی خاتون بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھیں۔

گذشتہ ایک ہفتے کے دوران یہ پاکستان میں مسلح شدت پسندوں کا واحد حملہ نہیں۔ منگل کو ایران سے متصل پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں دہشتگردوں نے بحریہ کے ایئر بیس پی این ایس صدیق پر حملہ کیا جس میں سکیورٹی فورسز کا ایک اہلکار ہلاک ہوا جبکہ چار حملہ آور مارے گئے۔

جبکہ اس سے قبل کیچ سے متصل ضلع گوادر میں پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر بھی متعدد شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا جسے پاکستانی حکام کے مطابق ناکام بنا دیا گیا تھا۔ اس حملے میں سرکاری حکام نے دو اہلکاروں کے مارے جانے کی تصدیق کی تھی جبکہ آٹھ حملہ آور بھی ہلاک کر دیے گئے تھے۔

ایک بیان میں پاکستان کی فوج نے کہا ہے کہ گوادر، تربت اور بشام میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کا مقصد پاکستان کی داخلی سلامتی کی صورتحال کو غیر مستحکم کرنا ہے۔

داسو میں چینی انجینیئرز کی بس پر حملے میں دو ملزمان کو سزائے موت، چار کو بری کر دیا گیاچین کا پاکستان سے گوادر حملے کی مکمل تحقیقات، قصورواروں کو سخت سزائیں دینے کا مطالبہ’تحریک جہاد پاکستان‘: ڈیرہ اسماعیل خان میں 23 فوجیوں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟آپریشن مرگ بر سرمچار: پاکستان کو فوری ردعمل دینے پر کس بات نے مجبور کیا اور یہ معاملہ کہاں جا کر رُکے گا؟پاکستان، شام اور عراق پر حملے جبکہ چین اور روس سے ’دوستی‘، ایران کن حربوں سے دنیا میں اپنے قدم جمانا چاہتا ہےگوادر پورٹ اتھارٹی کے دفتر پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا مجید بریگیڈ کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More