دو ہزار کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت، کیا فائدہ ہو گا؟

اردو نیوز  |  Mar 28, 2024

پاکستان کی وزارت تجارت نے امپورٹ پالیسی آرڈر 2022 میں ترمیم کرتے ہوئے دو ہزار کلومیٹر تک چلی ہوئی گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ایس آر او کے تحت دو ہزار کلومیٹر چلی ہوئی گاڑی نئی گاڑی تصور ہو گی۔

وزارت تجارت کی جانب سے جاری ہونے والے ایس آر او 430 (2024) میں کہا گیا ہے کہ ’وفاقی حکومت کو امپورٹ ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات کے تحت امپورٹ پالیسی 2022 کے سیکشن تین میں ترمیم کی جاتی ہے۔‘

اس ترمیم کے تحت کسی بھی ملک میں غیر رجسٹرڈ  اور دو ہزار کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کی جا سکیں گی۔ اس سے قبل 500 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑی درآمد کرنے کی اجازت تھی۔

وزارت تجارت کے مطابق دو ہزار کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمدکرنے کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم دو ہزار کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑی کو پاکستان میں نئی گاڑی تصور کیا جائے گا۔

بیرون ملک سے کار درآمد کنندگان نے اس فیصلے کو غیرضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حقیقی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے موجودہ حکومت بھی ایسے فیصلے کر رہی ہے جس کا عوام، امپورٹرز اور ملکی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

معروف کار امپورٹر جواد بشیر نے اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہو گا۔

’صرف یہی ہے کہ پہلے آپ 500 کلومیٹر چلی ہوئی گاڑی منگوا سکتے تھے اب دو ہزار کلومیٹر تک منگوا سکتے ہیں۔ یعنی دنیا کے کسی بھی ملک میں دو ہزار کلومیٹر چلی ہوئی گاڑی پاکستان کے قانون کے مطابق نئی گاڑی تصور ہو گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اصل ضرورت گاڑیوں کی عمر کی حد میں اضافہ کرنے کی ہے۔ یعنی کار کیٹیگری میں پانچ سال اور جیپ کیٹیگری میں سات سال پرانی گاڑی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس سے جو زرمبادلہ پاکستان آئے گا وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے گئے زرمبادلہ سے کہیں زیادہ ہو گا۔‘

جواد بشیر کے مطابق ’پاکستان میں گاڑیوں کے معاملے میں مناپلی ہے اور اس مناپلی کے تحت صرف وہ گاڑیاں منگوانے کی اجازت ہے جو بہت زیادہ فیول کھاتی ہیں۔ جب کچھ احساس ہوا اور پچھلے کچھ ماہ میں جاپانی گاڑیاں آنا شروع ہوئی ہیں تو پاکستانی لوگوں کی قوت خرید ہی جواب دے چکی ہے۔ اب لوگ ہائبرڈ گاڑی خریدنے کے قابل نہیں رہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More