این سی ایچ آر سول سوسائٹی کے شراکت داروں، بین الاقوامی کمیشنز اور مقامی بار کونسلوں کے تعاون سے پاکستانی قیدیوں کی مدد کیلئے نئی راہیں تلاش کرنے کیلئے کوشاں ہے، رابعہ جویری آغا

اے پی پی  |  Apr 25, 2024

اسلام آباد۔25اپریل (اے پی پی):قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے سول سوسائٹی کے شراکت داروں، بین الاقوامی کمیشنز اور مقامی بار کونسلوں کے تعاون سے پاکستانی قیدیوں کی مدد کیلئے نئی راہیں تلاش کرنے کیلئے کوشاں ہے تاکہ خاص طور پر بیرون ملک جیل میں قید ایسے لوگوں کی مدد کی جاسکے جو آزاد قانونی مشیر کی خدمات حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے  یا جس ملک میں وہ قید ہیں وہاں کی زبان سے لاعلم ہیں ۔

جمعرات کو این سی ایچ آر سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اس سلسلے میں جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے زیر اہتمام نیشنل کانفرنس “ری امیجننگ جسٹس” میں ‘غیر ملکی شہریوں کی قید’ کے موضوع پر بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویری آغا نے کہا کہ مقامی کمیشنز کو ڈیٹینشن سینٹرز کا دورہ کرنے کے لیے اختیارات حاصل ہونے چاہیئے ، این سی ایچ آر پاکستانی مشنز اور انسانی حقوق کمیشن کے درمیان شراکت داری کو فروغ دینے کی امید رکھتا ہے تاکہ بیرون ملک پاکستانی قیدیوں کی مدد کی جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ حال ہی میں، ہم نے ملائیشیا کے کمیشن سہاکم اور کوالالمپور میں پاکستانی مشن کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیااور ان دونوں اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ ہم نے ملائیشیا میں قید 299 پاکستانیوں کے لیے قانونی امداد حاصل کرنے کے لیے وائی بی جے کے بار کونسل کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ ہمارا مقصد متحدہ عرب امارات (یو اے ای )کے کمیشن کے ساتھ تعاون کرنا ہے تاکہ پاکستانی قیدیوں کی مدد کی جاسکے ۔ چیئرپرسن این سی ایچ آر نے بتایا کہ اپریل 2024 تک پڑوسی ممالک افغانستان، بھارت اور ایران کے ایک ہزار سے زائد شہری پاکستان کی جیلوں میں قید ہیں۔ جن میں سے تقریباً 66 فیصد سزا یافتہ ہیں جبکہ 34 فیصد کا کیس ابھی زیر سماعت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ افغانستان کے علاوہ تمام ممالک نےکونسلر ریلیشن سے متعلق ویانا کنونشن پر دستخط کیے ہیں۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ قیدیوں کو اکثر انتظامی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہےاور یہ چیلنجز ان کی طویل حراست کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تصدیق اور قومیت کی شناخت میں تاخیر، بیوروکریٹک رکاوٹوں یا کشیدہ سفارتی تعلقات، زبان اور ثقافتی رکاوٹوں ،کونسلر کی جانب سے محدود امداد اور قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے نہ ہونے کی وجہ سے وطن واپسی کے عمل میں تاخیر ایسے قیدیوں کے لیے مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایک سیل کی چار دیواری میں قید ،خاندان سے دوری ، فون پر جانی پہچانی آواز کی تسلی، یا کسی بھی وقت جلد گھر واپس پہنچنے کی امید کا ٹوٹنا وہ حقیقت ہے جس کا پاکستان اور دنیا بھر میں قید بہت سے غیر ملکی شہریوں کو ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نظربندی اور قیدیوں کے حقوق کے معاملات کو دیکھنے کے اپنے مینڈیٹ کے مطابق کمیشن ملک گیر جیلوں کے دورے کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم خاص طور پر غیر ملکی خواتین قیدیوں کے بارے میں فکر مند ہیں جن کی تعداد اس وقت 15 ہے۔ ہمارے معائنے کے دوران کمیشن کا سامنا دو غیر ملکی خواتین قیدیوں سے ہوا، دونوں ذہنی بیماری میں مبتلا تھیں جنہیں اپنی شناخت یاد نہیں تھی ۔

ایک کا تعلق ہندوستان اور ایک کا تنزانیہ سے تھا۔رابعہ جویری آغا نے کہا کہ کمیشن کے ملیر جیل کے دوروں کے دوران این سی ایچ آر نے ان بھارتی ماہی گیروں کو دیکھا جو برسوں سے جیلوں میں بند ہیں جبکہ این سی ایچ آرکو ہندوستانی قیدیوں کے ساتھ ظالمانہ یا غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔انہوں نے بتایا کہ وزارت داخلہ اور خارجہ امور کے ساتھ متعدد ملاقاتوں کے بعداین سی ایچ آر کی کوششوں کا نتیجہ حکومت کی طرف سے 650 ہندوستانی ماہی گیروں کی رہائی کے احکامات جاری کرنے کی صورت میں سامنے آیا ۔

اس مثبت سلوک کے باوجود بھارتی حکومت پاکستانی ماہی گیروں کی واپسی یکساں طور پر کرنے میں  ناکام رہی۔چیئرپرسن این سی ایچ آر نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ توقع کی جارہی ہے کہ 29 اپریل کو مزید 39 ہندوستانی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ یہ حکومت پاکستان کی طرف سے بہت اچھا اقدام ہے اور یہ انسانی ہمدردی کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کے مضبوط اور مثبت عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More