BBCشازیہ حیا کو اپنے والدین اور بھائی کو کابل میں چھوڑ کر تنہا برطانیہ جانا پڑا
بی بی سی ورلڈ سروس کے جلاوطنی میں کام کرنے والے صحافیوں کی تعداد 2020 سے تقریباً دگنی ہو کر اب 310ہو گئی ہے۔
آزادی صحافت کے عالمی دن سے پہلے جاری کیے گئے یہ اعدادوشمار روس، افغانستان اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں آزادیِ صحافت کے خلاف پابندیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
ایران سمیت کئی ممالک کے صحافی ایک دہائی سے زائد عرصے سے بیرون ملک رہنے پر مجبور ہیں۔
ان میں سے بہت سے صحافیوں کو آن لائن اور آف لائن ہراسانی، جان سے مارنے کی دھمکیوں سے لے کر جیل کی سزاؤں تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بی بی سی ورلڈ سروس کی ڈائریکٹر لیلیان لینڈر کہتی ہیں کہ ’رپورٹنگ جاری رکھنے کے لیے انھیں گھروں سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔۔۔ جلاوطن صحافیوں کی تعداد میں ہم جو اضافہ دیکھ رہے ہیں وہ آزادی صحافت کے لیے بہت باعثِ تشویش ہے۔‘
جب اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو اس کے بعد بی بی سی نے اپنی زیادہ تر ٹیم کو اس ملک سے نکال لیا تھا۔ خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ ان کے مرد ساتھیوں کو بھی دھمکیوں کا سامنا تھا۔
سنہ 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس نے سینسر شپ کا نیا قانون متعارف کرایا، جس کا مطلب یہ تھا کہ جنگ پر تنقید کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ بی بی سی روسی سروس کی نامہ نگار نینا نذرووا کہتی ہیں اگر میں جنگ کو جنگ کہوں تو صرف اس بات پر بھی مجھے آسانی سے جیل بھیجا جا سکتا ہے۔‘
نینا نے اپنی ٹیم کو ماسکو سے لٹویا منتقل کر دیا۔
اس سال اپریل میں نینا کے ساتھی اور بی بی سی روسی سروس کی نامہ نگار الیا بارابانوف کو روس کی جانب سے ’غیر ملکی ایجنٹ‘ قرار دیا گیا، ان پر ’غلط معلومات پھیلانے‘ اور جنگ کی مخالفت کا الزام لگایا گیا۔ الیا اور بی بی سی اس الزام کو مسترد کرتے ہیں اور عدالت میں اس حوالے سے کارروائی جاری ہے۔
BBCنینا نذروا نے 2022 میں اپنے شوہر اور 16 ماہ کے بیٹے کے ساتھ روس چھوڑ دیا
میانمار اور ایتھوپیا میں بھی صحافیوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے وہ آزادانہ رپورٹنگ کرنے سے قاصر ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس سے تعلق رکھنے والی جوڈی گنزبرگ کا کہنا ہے کہ جلاوطن صحافیوں کی تعداد میں گذشتہ تین سال کے دوران 225 فیصد اضافہ ہوا۔ وہ ان افراد کو مالی و قانونی مدد فراہم کرتی ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں ’جیلوں میں قید صحافیوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا، سنہ 2015 کے بعد سے جتنی تعداد میں صحافی قتل ہوئے، اتنی تعداد پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ روس، ایران اور سعودی عرب جیسی حکومتیں اپنے ملک کے اندر اور باہر بیانیے کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید سختیوں پر اتر آئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیےجمال خاشقجی کے قتل کی خفیہ ٹیپس کیا بتاتی ہیں؟’ارشد شریف کی کینیا میں ہلاکت پولیس کی مبینہ فائرنگ کا نتیجہ، تحقیقات جاری‘آزادی صحافت: ’پریس کلب کے باہر آویزاں وزیراعظم کے بینر بہت کچھ کہتے ہیں‘
بی بی سی فارسی کے نامہ نگار جیار گول کہتے ہیں ’میں اب بھی ڈر ڈر کر رہتا ہوں۔ جیسے ہی میں ایک کمرے میں داخل ہوتا ہوں تو باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرتا ہوں۔ میں نے گھر میں بہت سارے سکیورٹی کیمرے لگا رکھے ہیں۔ مجھے مشورہ دیا گیا ہے کہ میں اپنی بیٹی کا سکول تبدیل کر دوں۔‘
جیار 2007 کے بعد سے ایران واپس نہیں جا سکے۔ جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ ان کے جنازے میں بھی نہیں جا سکے تاہم وہ ان کی قبر کی زیارت کے لیے سرحد پار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
لیکن جب سے چار سال قبل ان کی اہلیہ کی کینسر کے باعث وفات ہوئی، وہ زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔ ’میں ہر وقت یہی سوچتا رہتا ہوں کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میری بیٹی کا کیا ہو گا؟
وہ کہتے ہیں کہ ’ایرانی حکومت اب بہت زیادہ دلیر ہو گئی ہے۔ وہ سخت پابندیوں کی زد میں ہے لیکن اس کے باوجود انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ عالمی برادری ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔‘
مارچ میں ایک آزاد براڈ کاسٹر اور ایران انٹرنیشنل کے پریزینٹر کو لندن میں ان کے گھر کے باہر ٹانگ میں چھرا گھونپ دیا گیا تھا اور حال ہی میں برطانیہ کی انسداد دہشت گردی کی پولیس نے ملک میں رہنے والے بی بی سی فارسی کے عملے کو بڑھتے ہوئے خطرے سے خبردار کیا۔
بی بی سی فارسی کے عملے کو حال ہی میں معلوم ہوا کہ ان کی غیر موجودگی میں ایرانی حکومت نے انھیں ایک سال قید کی سزا سنائی۔ انھیں اس بارے میں معلومات تب ملیں جب ہیکروں نے ایرانی عدلیہ کی معلومات لیک کیں۔
اس سے قبل ایرانی وزارت خارجہ نے بی بی سی فارسی کے عملے پر تشدد، نفرت انگیز تقاریر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اکسانے کا الزام لگایا تھا۔
BBCبی بی سی فارسی کی فرناز غازی زادہ اور رانا رحیم پور دونوں نے ایران چھوڑ دیا تھا
افریقہ میں ورلڈ سروس کے ایک صحافی (جنھوں نے اپنے ملک میں لیڈروں کے ڈر سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کی) کا کہنا ہے کہ ان کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ حکومت ان کا پاسپورٹ تجدید کرنے سے انکار کر دیتی ہے تو وہ بے وطن ہو جائیں گے۔
بی بی سی پشتو کی شازیہ حیا کے لیے جلاوطنی کی زندگی ندامت سے بھری پڑی ہے۔ 2022 میں جب طالبان نے افغانستان پر کنٹرول سنبھالا تو انھیں اپنے والدین اور بھائی کو کابل میں چھوڑ کر تنہا برطانیہ جانا پڑا۔
’جس رات میں تقریباً 2 بجے گھر سے نکلی، مجھے نہیں پتا کیوں لیکن میں اپنے چھوٹے بھائی کو گلے نہیں لگا سکی۔ اور مجھے اس کا بہت افسوس ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’میں یہاں آزاد ہوں لیکن وہ ایک طرح کی جیل میں رہ رہے ہیں۔‘
پیکا قانون: ’پاکستانی صحافیوں کو خوفزدہ کرنے اور خاموش کرانے کا ذریعہ‘’جو ماضی میں پسندیدہ صحافی تھے آج ناپسندیدہ کیوں ہو گئے‘جمال خاشقجی کے قتل کی خفیہ ٹیپس کیا بتاتی ہیں؟