پینشن ایک بڑا بوجھ ہے، ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانا ہو گی: وزیر خزانہ

اردو نیوز  |  May 08, 2024

پاکستان کی حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مشن کے دورے سے قبل پینشن کی بڑھتی ہوئی ادائیگیوں کو کم کرنے کے لیے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے پر غور کر رہی ہے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے منگل کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں وزیر اطلاعات عطا تارڑ اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے ساتھ پریس کانفرنس میں یہ بات بتائی ہے۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کا مشن اگلے 10 دنوں میں پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ نئے بیل آؤٹ پروگرام پر بات چیت کی جا سکے۔

پاکستان نے گزشتہ ماہ تین ارب ڈالر کا قلیل المدتی پروگرام مکمل کیا ہے لیکن اس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے ایک نئے طویل المدتی پروگرام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ’پنشن کی لاگت کو قابو میں لانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پنشن کی ادائیگیاں ’ایک بڑا بوجھ‘ ہیں۔ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کی عمر 60 برس ہے لیکن عمر اب محض ایک عدد ہے، 60 برس کی عمر اب 40 برس جیسی ہے۔‘

پریس کانفرنس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پینشن اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی پی) کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ’معاشی اشاریے مثبت ہیں۔ عالمی جریدے بھی پاکستان کی معیشت کی تعریف کر رہے ہیں، پنشن اصلاحات پر تجاویز طلب کی ہیں۔ جب تجاویز کو حتمی شکل دی جائے گی تو میڈیا اور عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔‘

 وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’ملک تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا ہے جہاں اصلاحات ضروری ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے اخراجات میں کمی کی بات کی۔ حکومت نے جہاں ریونیو میں اضافے کے لیے اقدامات کیے، وہیں اخراجات میں کمی بھی کی۔‘

پنشن اصلاحات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پچھلے کچھ ہفتوں سے میڈیا پر پنشن اصلاحات کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اور اسے کسی ایک ادارے سے منسوب کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پنشن اصلاحات کے حوالے سے تجاویز طلب کی گئی ہیں۔ ان تجاویز پر غور کیا جائے گا۔ غلط فہمی اور قیاس آرائیوں سے بچنے کے لیے ہماری کوشش ہے کہ جو بھی معاملہ کابینہ، حکومت یا کسی بھی فورم پر زیرِغور آئے۔ اسے میڈیا کے سامنے رکھا جائے تاکہ اس پر مناسب تجاویز آ سکیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More