صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر تک ’سب سے پہلے‘ پہنچنے والے پانچ موٹر سائیکل سوار جنھیں دنیا کی نظروں سے ’چھپایا‘ جا رہا ہے

بی بی سی اردو  |  May 28, 2024

سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے پہاڑی سے ٹکڑا کر کریش ہونے والے ہیلی کاپٹر کے ملبے تک سب سے پہلے کون پہنچا تھا؟ یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں متضاد دعوے سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔

ابتدائی طور پر ترکی اور پاسداران انقلاب نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے فوجی ڈرونز کی مدد سے ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کے حادثے کی جگہ کی نشاندہی کی تھی جبکہ ہلال احمر (ایران) نے جائے حادثہ کی شناخت کو اپنی ڈرون سرچ کا نتیجہ قرار دیا تھا تاہم اب بی بی سی فارسی نے سرچ آپریشن کی تصاویر کا جائزہ لینے کے بعد تصدیق کی ہے کہ شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے ملبے تک سب سے پہلے آف روڈ بائیکرز کا ایک گروپ پہنچا تھا۔

اس کے علاوہ شواہد یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ترک میڈیا نے سب سے پہلے ہیلی کاپٹر کے گرنے کے اصل مقام کی جو نشاندہی کی تھی وہ درست نہیں تھی۔

اس ضمن میں سوشل میڈیا پر شائع شدہ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ پاسدارن انقلاب کے اہلکاروں اور ہلال احمر کے کارکنوں کے جائے حادثہ پر پہنچنے سے قبل پانچ موٹر سائیکل سوار یہاں پہنچ چکے تھے۔ تاہم بوجوہ ایرانی میڈیا، خبر رساں ایجنسیوں اور سرکاری اداروں نے ان موٹرسائیکل سواروں کا کہیں تذکرہ نہیں کیا۔

بی بی سی فارسی کے مطابق یہ موٹرسائیکل سوار اپنے طور پر اس سرچ آپریشن کا حصہ بنے تھے اور انھیں سب سے پہلے ہیلی کاپٹر کا ملبہ اُس علاقے سے ملا جو حکام کی جانب سے مقرر کردہ سرچ ایریا (تلاش کے مقررہ علاقے) سے باہر تھا۔

بی بی سی فارسی کو ایک ذریعے کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ ایرانی سکیورٹی فورسز کے دباؤ کی وجہ سے ان پانچ موٹر سائیکل سواروں نے حادثے کی جگہ سے لی گئی تصاویر کو اپنے فون سے ڈیلیٹ کر دیا تھا۔

اس موٹر سائیکل سواروں کی شناخت حسین فولادی، فرشید مصیبی، رضا زراعی، علی ذوالفقاری اور امیر حسام نشانی کے ناموں سے ہوئی ہے۔

جائے حادثہ کا سب سے پہلے پتہ چلانے والے اِن موٹر سائیکل سواروں نے اپنے سوشل نیٹ ورکس پر ایسے پیغامات بھی پوسٹ کیے تھے جس میں اشارہ کیا گیا تھا کہ اُن کے سوشل میڈیا پیجز (صفحات) ’سکیورٹی حکام کی نگرانی میں‘ ہیں۔ انھوں نے اپنے فالوورز سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ انھیں اس ضمن میں پیغامات نہ بھیجے جائیں۔

اس حوالے سے موٹر سائیکلنگ سے متعلقہ ایک انسٹاگرام پیج نے ایک ویڈیو شائع کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان پانچ میں سے دو موٹر سائیکل سواروں کا ایک ریڈیو سے منسلک اینکر (میزبان) انٹرویو لے رہا تھا۔ اس ویڈیو میں موٹرسائیکل سوار میزبان کو بتاتے ہیں کہ وہ صبح 5 بج کر 45 منٹ پر اس مقام پر پہنچے تھے جہاں ہیلی کاپٹر کا ملبہ موجود تھا۔ انھوں نے ریڈیو میزبان کو اس وقت کے مناظر اور لاشوں کی حالت کے بارے میں بھی بتایا تھا۔

یہ انٹرویو چند دیگر افراد اور ہلال احمر کی جیکٹ پہنے ایک شخص کی موجودگی میں لیا گیا۔ تاہم یہ انٹرویو ایران کے کسی ذرائع ابلاغ نے آج تک نشر نہیں کیا۔

تاہم جس ریڈیو نے یہ انٹرویو ریکارڈ کیا تھا انھوں نے گذشتہ جمعہ کے روز اپنے انسٹاگرام پیج پر اعلان کیا کہ ’انھیں اس ویڈیو کو نشر کرنے سے متعلق تنبیہ کی گئی تھی۔‘

اس پیغام میں مزید کہا گیا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ حکام موٹر سائیکل سواروں پر توجہ دیں اور ان کی (جائے حادثہ پر) موجودگی کا (تفیش کی غرض سے) استعمال کریں۔‘

ایرانی ذرائع ابلاغ میں ’سعید نیوز ویب سائٹ‘ وہ واحد میڈیا ادارہ ہے جس نے ان موٹر سائیکل سواروں کی جائے حادثہ پر موجودگی کے حوالے سے بات کی ہے۔ ایک موٹرسائیکل سوار فرشد موصیبی نے اس ادارے کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’وہ تمام جگہیں جو حکام کی جانب سے یہ کہہ کر بتائی گئی تھیں کہ ملبہ یہاں ہو سکتا ہے، وہ غلط تھیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے ابتدا میں سوچا تھا کہ ہیلی کاپٹر پیر داؤد اور شطان دارا کے جنگلوں میں گر کر تباہ ہوا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سرچ آپریشن کے دوران صبح 3:30 بجے ہم پیر داود کے جنگلوں میں امام زادہ کے محافظ کے گھر گئے جنھوں نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے دوپہر 1:30 بجے ایک ہیلی کاپٹر کی آواز سُنی تھی۔‘

فرشد موصیبی کہتے ہیں ’اس دوران ایک شخص، جس کے بارے میں میں نہیں جانتا کہ آیا وہ پاسداران انقلاب سے تھا یا نہیں، نے ہمیں اُس پہاڑ کی تصویر دکھائی جس پر ہم جانا چاہتے تھے اور ہم سے اس علاقے کے بارے میں پوچھا۔ پہاڑ پر پہنچ کر ہم نے موٹرسائیکلوں کو کھڑا کر دیا اور ہم پیدل نیچے کی طرف گئے۔‘

بی بی سی کو یہ واضح نہیں ہے کہ موٹرسائیکل سوار کی یہ گفتگو کن حالات میں ریکارڈ کی گئی تھی۔

فرشد موصیبی نے وہاں موجود لاشوں کی حالت کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ ’ہم نے وہاں خوفناک مناظر دیکھے اور دو افراد جو پائلٹ تھے وہ مکمل طور پر جھلس چکے تھے۔‘

فرشد موصیبی نے تصدیق کی کہ ’ہم 5:40 کے قریب اس جگہ پر پہنچے، ہم سے پہلے وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پھر فوجی دستے اور پاسدران انقلاب والے پہنچے۔‘ انھوں نے زور دے کر کہا کہ ’ہلال احمر والے وہاں نہیں تھے اور ہمارے بعد وہاں پہنچنے والے فوجی دستوں نے ہمیں کہا کہ ہم جلدی سے وہاں سے نکل جائیں۔ ہم نے انھیں بتایا کہ ہم یہاں مدد کرنے کے لیے ہیں اور ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔‘

جائے حادثہ کی پہلی تصاویر کب لی گئیں؟

بی بی سی کو اب تک ہیلی کاپٹر کے ملبے کی ایک دور دراز مقام سے بنائی گئی ویڈیو تک رسائی ملی ہے، جو موٹر سائیکل سواروں کے ملبے پر پہنچنے سے پہلے بنائی گئی تھی اور اس ویڈیو میں حادثے کی جگہ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اس ویڈیو میں مقامی نیوز چینل کے رپورٹر مہدی حسینی جائے حادثہ سے فاصلے پر موجود ایک پہاڑی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جہاں درختوں کے درمیان سیاہ دھبے دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ اشارہ کر کے بتاتے ہیں کہ ’صبح کے 5:37 بجے ہیں۔۔۔ ہیلی کاپٹر اس جگہ (جہاں سیاہ دھبے موجود ہیں) گر کر تباہ ہوا ہے۔‘

اس سے قبل ترکی نے کہا تھا کہ اس کے ’بیراکتر اکنسی‘ ڈرون نے، جسے ہیلی کاپٹر کے مقام کی شناخت میں مدد کے لیے ایران بھیجا گیا تھا، تھرمل کیمروں کے ذریعے جائے حادثہ کے اصل مقام کا پتہ لگایا اور اس کے بارے میں ایران کو آگاہ کیا۔

بی بی سی فارسی کی تحقیقات کے مطابق جس مقام کی شناحت ترکی کے ڈرون نے کی تھی وہ اصل جائے حادثہ سے 6 کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر تھی اور ترکی کی جانب سے میڈیا کو جس تھرمل پوائنٹ کی بابت بتایا گیا تھا وہ درست نہیں تھا۔

ایرانی ہلال احمر نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ترک ڈرون کی طرف سے دیے گئے کوآرڈینیٹس (جائے حادثہ کا مقام) غلط تھے۔ تاہم ہلال احمر نے کبھی بھی موٹرسائیکل سواروں کا نام نہیں لیا اور کہا کہ وہ ’ریڈ کریسنٹ کے رضاکار‘ تھے جنھوں نے سب سے پہلے ہیلی کاپٹر کی جگہ کا پتہ لگایا اور اس کے لیے ’کسی غیر ملکی مدد (جیسا کہ ڈرون ٹیکنالوجی) کا استعمال نہیں کیا گیا۔‘

تاہم شواہد اور انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ یہ موٹر سائیکل سوار ہلال احمر کے رضاکار نہیں تھے بلکہ وہ سرچ کا یہ کام اپنے طور پر کر رہے تھے۔

قدس فورس کی خصوصی ڈرون ٹیم

صدر رئیسی کے لاپتہ ہیلی کاپٹر کی تلاش میں دیر ہونے کے باعث سامنے آنے والے ردعمل اور تنقید کے بعد قدس فورس کی جانب سے یہ دعویٰ آیا کہ یہ قدس فورس ہی تھی جس نے ہیلی کاپٹر کے مقام کی سب سے پہلے نشاندہی کی۔

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے ایک رپورٹر نے اتوار کی رات 9 بجے کے نیوز پروگرام میں قدس فورس کی ایک خصوصی ڈرون ٹیم کا ذکر کیا جس نے ’ہیلی کاپٹر کی جگہ کا پتہ لگایا اور اسے ریسکیو ورکرز کے حوالے کیا۔‘

منگل کو خبررساں ادارے ’تسنیم‘نے جائے حادثہ کے علاقے میں پاسدران انقلاب کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی اور دعویٰ کیا کہ ’یہ پاسدران انقلاب کی ڈرون ٹیم تھی جس نے ہیلی کاپٹر کو تلاش کیا تھا۔‘ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو ترکی کے ساتھ ساتھ ایرانی ہلال احمر کے سربراہ کے ابتدائی انٹرویوز سے متصادم ہے۔

بدھ کو حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے دوران ایک رپورٹر کے کیمرے نے ایرانی ہلال احمر کے سربراہ کو غم گساروں کے ایک ہجوم کے درمیان چلتے ہوئے دیکھا اور اُن سے پوچھا کہ ’ہیلی کاپٹر سب سے پہلے کسے ملا تھا؟‘ انھوں نے جواب دیا ’پاسدران انقلاب اور ہلال احمر نے پہلی بار ہیلی کاپٹر کے ملبے کے مقام کی شناخت کی۔‘

موٹر سائیکل سواروں کے دعوؤں کی تائید کرنے والے ثبوت کیا ہیں؟

ہیلی کاپٹر کے ملبے کے ملنے کے ابتدائی لمحات کے حوالے سے جاری ہونے والی ابتدائی ویڈیوز میں سے ایک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص پہاڑ پر بکھری لاشوں کے درمیان چل رہا ہے اور ویڈیو بتاتے ہوئے بتا رہا ہ کہ یہ جگہ سب سے پہلے ایک موٹر سائیکل سوار نے دریافت کی ہے۔ ایک اور ویڈیو میں جائے حادثہ پر ایک شخص کو اس مخصوص لباس میں ملبوس دیکھا جا سکتا ہے جو موٹرسائیکل سوار پہنتے ہیں۔

بعد ازاں ’تسنیم‘نے اسی ویڈیو سے لی گئی ایک تصویر کو دوبارہ شائع کیا اور عنوان لکھا کہ ’وہ شخص جس نے ابتدائی ویڈیو بنائی وہ پاسدران انقلاب کا افسر ہے۔‘ ساتھ میں دعویٰ کیا گیا کہ ’یہ وہ پہلا شخص ہے جو وہاں پہنچا۔‘

بی بی سی سے بات کرنے والے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ یہ بائیکرز اس علاقے کو اچھی طرح جانتے تھے اور انھوں نے ہیلی کاپٹر کو ایک ایسے علاقے کی تلاش کرنے کا فیصلہ کیا جو انتہائی دشوار گزار تھا اور بعد ازاں جہاں سے ہیلی کاپٹر کا ملبہ ملا۔

جب ہیلی کاپٹر لاپتہ تھا جو ہلال احمر نے مختلف نیوز پروگراموں میں ان مقامات کے بارے میں بتایا تھا جہاں سرچ آپریشن جاری تھا یا جہاں سرچ ٹیموں کی توجہ مرکوز تھی اور یہ مقامات اس جگہ سے کئی کلومیٹر دور تھے جہاں سے ہیلی کاپٹر کا ملبہ ملا ہے۔ ترک ڈرون نے بھی جس علاقے پر تلاش کی غرض سے پرواز کی تھی وہ بھی جائے حادثہ سے بہت دور تھا۔

ترکی، پاسداران انقلاب اور ایرانی ہلال احمر سبھی نے سرکاری میڈیا میں ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کی تلاش کی کارروائی کے بارے میں بتایا اور دعویٰ کیا کہ ان کی ہی کوششوں کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کو تلاش کیا گیا۔

درجنوں یا شاید سینکڑوں اہلکاروں اور رضاکاروں نے اس رات ہیلی کاپٹر کی تلاش کے آپریشن میں حصہ لیا تھا اور گاہے بگاہے اپنے نتائج ایک دوسرے کے ساتھ اور میڈیا کے ساتھ شیئر کیے تھے۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ پانچ نوجوان موٹر سائیکل سواروں کی کوششوں کو نظر انداز کیا گیا جو اس رات اندھیرے، سردی اور بارش میں ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر تک پہنچے اور سب سے پہلے لاشیں نکالیں۔

ہیلی کاپٹر کے حادثے کے تقریباً ایک ہفتے بعد متعدد موٹر سائیکل سواروں نے اپنے انسٹاگرام پر ایسی تصاویر پوسٹ کیں جن میں ان موٹرسائیکل سواروں کا تذکرہ ہے۔ اُدھر ایران کے سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے حکام نے ابھی تک اُن موٹرسائیکل سواروں کے نام تک نہیں بتائے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان پانچ رضاکار موٹر سائیکل سواروں کی کاوشیں اور کامیابیاں ہلال احمر، پاسداران انقلاب اور ترک حکومت کے درمیان مقابلے کے سائے میں پوشیدہ ہیں۔

سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر تباہ ہونے کی ممکنہ وجوہات اور وہ سوالات جو معاملے کو مزید الجھا رہے ہیںبیراکتر اکنسی: ترکی کے ڈرون نے ’ہیٹ سگنل‘ کی مدد سے ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا ملبہ کیسے تلاش کیا؟بیل 212 ہیلی کاپٹر: ابراہیم رئیسی کے زیرِ استعمال ’یوٹیلٹی ہیلی کاپٹر‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More