’پنجاب کی کوئل‘ سریندر کور سے برصغیر کی تین نسلیں متاثر کیوں؟

اردو نیوز  |  Jun 14, 2024

پاکستانی گلوکارہ حدیقہ کیانی کا نیا پنجابی گیت ’اینہا اکھیاں وچ پانواں کیویں کجلا وے اکھیاں وچ تو وسدا‘ گذشتہ ماہ ان کے یوٹیوب چینل پر لانچ ہوا جسے اب تک 53 لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے۔

میوزک ویڈیو میں اس گیت کو صوفیانہ مزاج اور انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ گیت پہلی بار گایا گیا ہو۔ تقریباً 60 برس قبل گایا گیا یہ گیت پاکستان اور انڈیا کی پنجابی موسیقی کے مشترکہ ورثے، مزاج اور مقبولیت کی علامت بھی ہے۔

ہجر اور رومان کے جذبات کے عکاس اس نغمے کے خالق اور گائیک دونوں کا آبائی تعلق پاکستان سے تھا۔پنجاب کے ضلع نارووال کے علاقے شکرگڑھ میں پیدا ہونے والے شیو کمار بٹالوی کا کلام لاہور کے علاقے چوبرجی میں جنم لینے والی سریندر کور نے پہلی بار گایا تھا۔

برصغیر کی لوک موسیقی میں شامل ٹپے مائیے، بولیاں اور شادی بیاہ کے گیتوں کے بہت سے گیت سریندر کور نے گائے ہیں۔ اپنی سریلی آواز اور سحر انگیز گائیکی کی وجہ سے ’پنجاب کی کوئل‘ کہلانے والی گلوکارہ 14 جون 2006 کو دنیا سے رخصت ہوئیں۔

ان کے گائے لازوال گیت پاکستان اور انڈیا کی سرحد کے دونوں جانب چوپالوں سے کھلیانوں تک لاکھوں دھڑکنوں اور دِلوں پر راج کرتے ہیں۔ 

سریندر کور کا جنم 1929 میں چو برجی لاہور کے محلہ سیٹھیاں وان والی گلی کے باسی بشن داس کے ہاں ہوا۔ تعلیم یافتہ اور ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والے بشن داس گورنمنٹ کالج میں کیمسٹری کے استاد تھے۔ والدہ مایا دیوی لوگ موسیقی کی دلدادہ تھیں مگر صرف گنگنانے کی حد تک۔

ان کے ذوق کا اثر بڑی بیٹی پرکاش کور پر ہوا جس نے ایک قدم آگے بڑھ کر موسیقی کی تربیت پانے کی خواہش ظاہر کی۔ خاندان نے شروع میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا مگر ان کے بھائی ہربنس سنگھ کی مداخلت اور سفارش ان کے کام آئی۔ موسیقی کے استاد ماسٹر عنایت حسین سے گائیکی کی سیکھنے کا راستہ نکل آیا۔

سریندر کور کے گیت پاکستان اور انڈیا کی سرحد کے دونوں جانب لاکھوں دِلوں پر راج کرتے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

بڑی بہن کی دیکھا دیکھی سریندر کور نے 1943 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور میں بچوں کے پروگرام کے لیے آڈیشن دیا۔ آواز کی پختگی اور لہجے کے فطری لوچ کی وجہ سے وہ بڑوں کے پروگرام کے لیے منتخب ہوگئیں۔

موسیقی میں خواتین کا اوّلین حوالہ

پرکاش کور پہلی سکھ لڑکی تھیں جنہوں نے ریڈیو پر گانا گایا ۔13 سالہ سریندر کور نے بھی سر اور سنگیت کے رمز جاننے کے لیے  ماسٹر عنایت حسین کی شاگردی اختیار کی۔

آل انڈیا ریڈیو کی لہروں نے مقامی گیتوں، ٹپوں اور ماہیوں کو ہندوستان کے کونے کونے تک پہنچا دیا تھا۔ یہ دور  شمشاد بیگم اور زینت بیگم کے عروج کا تھا مگر اس کے باوجود موسیقی کا محور اور گیتوں کا مرکزی خیال زیادہ تر مرد کے گرد ہی گھومتا تھا۔ لوگ داستانوں اور رومانوی غزلوں میں ہیرو کی حیثیت مقدم تھی۔

ایسے میں سریندر کور اوران کی بہن کا ایک گیت پنجابی موسیقی میں خواتین کا حوالہ بن گیا۔ گھر گھر گونجنے والے نغمے میں عورت کی زبان سے اپنے ماحول، سماج اور معاشرت  کو بے باکی اور بے تکلفی سے بیان کیا گیا تھا۔

آج بھی شادی بیاہ کے موقع پر بیٹی کی رخصتی کے کرب اور کسک کے اظہار کے لیے ڈراموں، فلموں، افسانوں اور کہانیوں میں حوالے کے طور پر سریندر کور کے گائے گیت کی یہ بول استعمال ہوتے ہیں۔

’ماواں تے دہیاں رل بیٹھیاں نے مائے‘  گیت آٹھ دہائیاں  دیکھ چکا ہے لیکن بیٹیوں کے پرائے ہونے کے احساس کے اظہار کے لیے شاید ہی کوئی اور بول اس جیسا گہرا تاثر اور دیر پا تاثیر رکھتے ہوں۔

سریندر کور نے اس گیت کے 50 برس مکمل ہونے پر امریکہ اور برطانیہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر اسے دوبارہ سے گایا۔ ان کی بیٹی اور شرکا میں موجود اکثر خواتین کی آنکھیں اس کے اثر سے اشک بار ہو گئی۔ 

نئے ساز پرانے راگ

فن و تخلیق کی قبولیت اور مقبولیت کا ایک پیمانہ کسی شاہکار کا وقت اور حالات کے اثرات سے مبرا ہونا بھی ہے۔

’چناں کتھا گزاری ائی رات وے‘ گیت کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ سریندر کور کا یہ سدا بہار گیت وقت کی گرد میں گم ہونے کے بر عکس درجنوں بار نئے آھنگ سے گایا گیا ہے۔

پاکستان کے نوجوان گلو کار علی سیٹھی  نے 2018 میں اسے جدید سازوں اور نئی طرز کے ساتھ گایا ہے۔ اس کی میوزک ویڈیو میں میرا سیٹھی، میکائل ذوالفقار اور مہرین سید نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔

سریندرکور کے گیت الہڑ مٹیاروں اور ماؤں میں یکساں مقبول ہوئے (فوٹو: سوشل میڈیا)

یہ گانا  ہمایوں سعید اور مہوش حیات  کی فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ میں بھی شامل ہے۔ اسی طرح دس برس قبل کوک اسٹوڈیو انڈیا نے اسے ہتیش سنگھ اور سکھ وندر سنگھ کی آواز میں ریکارڈ کیا تھا۔ 

پاکستان کے معروف میوزک بینڈ وائٹل سائینز کا  گانا ’گورے رنگ کا زمانہ‘ 90 کی دہائی کا مقبول ترین نغمہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پنجابی گیت ’کالے رنگ دا پراندا ‘سے متاثر ہو کر لکھا گیا تھا۔

یہ گیت سریندر نے اپنی تیسری بہن نریندر کور کے ساتھ 60 کی دہائی میں ریکارڈ کروایا تھا۔

کچھ عرصہ قبل انڈیا میں عالیہ بھٹ کی میوزک ویڈیو کا گانا ’پراڈا‘ تنازعات کی زد میں آ گیا تھا۔ شائقین نے اسے پاکستانی گانے گورے رنگ کا زمانہ کا چربہ قرار دیا جس کے حقوق ای ایم ائی کمپنی کے پاس ہیں۔

ابتدا میں اس کمپنی نے انڈین گانے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا ذہن بنا لیا تھا مگر تحقیق کے بعد جب ان کے علم میں ایا کہ ان کا گیت دیگر نغموں کے علاوہ سریندر کور کے گیت ’کالے رنگ دا پراندا‘ کے طرز سے متاثر ہو کر لکھا گیا تھا تو وہ اپنے ارادوں سے پیچھے ہٹ گئے۔

سٹوری آف ’باجرے دا سٹہ‘      

پاکستان میں مسرت نذیر کے گیتوں کا پنجابی موسیقی کی مقبولیت میں بڑا حصہ ہے۔ ان کی گائیکی اور گیتوں کے انتخاب پر سریندر کور کا گہرا اثر ہے۔

مسرت نذیر کی پہچان ’باجرے دا سٹہ‘ان سے قبل سریندر کور کی سریلی اواز میں مقبول ہو چکا تھا۔

دو برس قبل انڈیا میں جاس گریوال نے نئی نسل کو اس گانے سے متعارف کروانے کے لیے ’سٹوری آف  باجرے دا سٹہ‘ کے نام سے ایک فلم بنائی ہے جس کا مرکزی کردار موسیقی سیکھنے کی شوقین ایک نوجوان لڑکی ہے۔

سریندرکور کے گیت الہڑ مٹیاروں اور ماؤں میں یکساں مقبول ہوئے۔ جذبات کو چھیڑتے شوخ اور پنجاب کی دیہی معاشرت کی مٹھاس لیے یہ نغمے سرحد کے دونوں طرف سنے اور گنگنائے جاتے ہیں۔

’لٹھے دی چادر‘ اور ’کالا ڈوریا ‘ گھر کی نوک جھوک، ساس اور بہو کی کھٹ پٹ، نئی زندگی کا اغاز اور محلے کی دشمنیاں اور دوستیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ 

پنجاب کی دیہی معاشرت میں ان کے گیتوں کے بغیر شادیوں کا رنگ پھیکا اور تہواروں کا حسن مانند محسوس ہوتا ہے۔

’پنجاب کی کوئل‘ کہلانے والی گلوکارہ 14 جون 2006 کو دنیا سے رخصت ہوئیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

پنجاب کی دھرتی کے رنگوں اور رویوں کا عکس سر یندر کے گیتوں میں جھلکتا ہے۔ ان کے لیے کلام کی تلاش، ترتیب اور تدوین ان کے شوہر کیا کرتے تھے۔

گجرانوالہ میں پیدا ہونے والے جو گندر سنگھ سوڈی پنجابی زبان و ادب کے پروفیسر رہے تھے وہ عوامی تھیٹر کے ذریعے سماجی اصلاح اور طبقاتی برابری کی جدوجہد میں بھی پیش پیش تھے۔

جوگندر سنگھ سوڈی سے شادی کے بعد  سریندر کے لیے پنجابی زبان  کی روح اور اس میں رچی موسیقیت سے آشنائی مزید گہری ہو گئی۔ 

انہوں نے اپنے دور کے نامور پنجابی شاعروں کا کلام گایا ۔یہ حیرت انگیز اتفاق ہے کہ جن گیتوں نے سریندر کور کے نام کو بر صغیر سے باہر بھی پذیرائی بخشی ان کا آبائی تعلق بھی پاکستانی پنجاب سے تھا۔ 

ان میں پہلا نام شیو کمار بٹالوی کا ہے۔ ’مینوں ہیرے ہیرے آکھے منڈا لمبرداراں دا‘ اور ’محرم دلاں دے ماہی موڑیں گا کد مہاراں‘  جیسے گیت پنجاب کی سماجی بنت میں رومانس کا تخیل اور مجلسی ہنگاموں کی رنگا رنگی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔

پنجابی کی شہرہ آفاق شاعرہ امرتا پریتم کے رومانس میں رچے مصرعے اور سریندر کور کی لافانی اواز نے ’نمی نمی تاریاں دی لو‘ جیسا شاہکار تخلیق کیا۔

ان کے گیت راتوں کو چوباروں اور چھتوں پر بجتے اور سارا خاندان ان کی مدھر اواز کی ڈور تھام کر نیند کی وادیوں میں اترتا۔

فلموں میں کام کرنے سے انکار

سریندر کی پہچان پنجابی گائیکی کی تھی مگر عظیم موسیقار ماسٹر غلام حیدر کے کہنے پر 1948 میں انہوں نے فلم ’شہید‘ کے لیے اردو گانے بھی گائے۔

ان کا خاندان تقسیم کے بعد بمبئی منتقل ہو گیا تھا۔ دلی آنے سے قبل انہوں نے چند دیگر اُردو فلموں کے لیے بھی گیت ریکارڈ کروائے۔ ایک بار لاہور میں انہیں فلم میں کام کرنے کی پیشکش بھی ہوئی۔

معروف انڈین صحافی نیرو پما دت کے ساتھ انٹرویو میں سریندر کور بتاتی ہیں کہ ایک بار انہیں پنچولی سٹوڈیو سے بلاوا آیا۔ وہ سمجھیں کہ پلے بیک سنگنگ کے لیے بلوایا ہوگا مگر سٹوڈیو میں انہیں ایک کاغذ پر لکھی چند لائنیں دی گئی اور اسے پڑھنے کا کہا گیا جو انہوں نے پورے اعتماد اورروانی سے پڑھ ڈالا۔

امرتا پریتم کے رومانس میں رچے مصرعے اور سریندر کور کی لافانی اواز نے ’نمی نمی تاریاں دی لو‘ جیسا شاہکار تخلیق کیا (فوٹو: سوشل میڈیا)

جب انہیں بتایا گیا کہ انہیں فلم میں کردار کے لیے ابتدائی ٹیسٹ میں پاس قرار دیا گیا ہے تو یہ سن کر وہ خوفزدہ ہو گئیں۔ ان کے خیال میں فلم میں اداکاری کوئی اچھا کام نہ تھا۔

اپنے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’میری پہلی اور آخری منزل گائیکی ہے۔‘

 تقسیم کے بعد انڈیا کے فنکاروں کا ایک وفد ماسکو گیا ۔جس میں نرگس، راج کپور بلراج ساہنی اور پنجابی گلوکار اسا سنگھ مستانہ شامل تھے۔سریندر بھی اس کا حصہ بنیں۔

اس دورے میں ان کی اسا سنگھ مستانہ سے شناسائی میں اضافہ ہوا۔ آنے والے دنوں میں دونوں نے دو گانا گایا اور خوب گایا مگر مستانہ کے انتقال سے یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔ 

’سریندر کور پیکے آئی ہے‘

ایک بار کسی اخبار نویس نے ان سے پوچھا کہ ان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ ان کا جواب تھا کہ ’اپنے آبائی گھر کا دورہ کرنا۔‘

سنہ 1997 میں اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی خصوصی دعوت پر انہیں ایک ثقافتی وفد کے ہمراہ لاہور جانے کا موقع ملا۔

ایک انڈین صحافی کے ساتھ انٹرویو میں سریندر کور کہتی ہیں کہ لاہور میں ان کی گلی کا نام اس وقت بھی بشن سٹریٹ تھا۔ ’50 برس بعد اپنے آبائی گھر کی پیشانی پر ’مایا بھون‘ نام کا کتبہ لگا ہوا تھا۔‘

ان کے گھر کو اس کے اصل مکینوں کی چھوڑی گئی حالت پر محفوظ رکھنے کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے جو ان کی بیٹی ڈولی گلیریا بیان کرتی ہیں۔

ڈولی بھی اپنی والدہ کی طرح پنجابی کی نامور گلوکارہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک بار وہ لندن میں پرفارم کر رہی تھی کہ انہیں سٹیج پر ایک چِٹ موصول ہوئی۔ انہوں نے خیال کیا کہ کسی مخصوص گانے کی فرمائش ہوگی۔

مگریہ کسی زیڈ اے چوھدری نامی شخص کی طرف سے انہیں ملنے کی استدعا تھی۔

ڈولی مزید بیان کرتی ہیں کہ پروگرام کے بعد ایک معمر جوڑا ان کے پاس آیا۔ انہیں ایک چھوٹا سا ڈبہ تھمایا اور اسے کھولنے کا کہا۔ ڈولی نے جب ڈبہ کھولا تو اندر ایک البم رکھا ہوا تھا۔

’میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ یہ آپ کی ماں کے لاہوری آبائی گھر کی تصویریں ہیں۔‘

یہ مکان تقسیم کے بعد انہیں الاٹ ہوا تھا ۔انہوں نے مکان کو اصل شکل میں برقرار رہنے دیا۔

2006 میں سریندر کور کو پدم شری ایوارڈ دیا گیا (فوٹو: دا پرنٹ)

سریندر کور نے ایک انٹرویو میں اپنے دورہ لاہور کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے نیرو پمادت کو بتایا کہ ’میں نے لاہور میں اپنے جاننے والوں کے درمیان دل کی گہرائیوں سے گایا اور ایسا اسے قبل کبھی نہیں گایا ہوگا۔‘

لاہور میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں وہ کہتی ہیں کہ ’اپنا گھر دیکھ کر میں رو پڑی تھی ۔جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔‘

سریندر کور نے اہل پاکستان کے لیے اپنا گانا ’ڈاچی والیا موڑ مہار وے ‘ ریکارڈ کروایا۔

ان کی 50 برس بعد اپنے آبائی گھر  واپسی کے بارے میں مشہور اخبار ’خلیج ٹائمز‘ نے ایک خصوصی فیچر شائع کیا۔ اس کی سرخی یہ تھی ’Surinder Kaur Peke Aayi hai‘

تین نسلوں کی پسندیدہ گلوکارہ

80 کی دہائی کے اواخر میں پنجابی میوزک میں تبدیلی کا دور ایا جس میں ہلکے سازوں کی جگہ پُر شور الات نے لے لی۔ یہ پنجابی پوپ میوزک کی شروعات تھی۔ گرداس مان اور ملکیت سنگھ اس روایت کے بانی تھے۔

موسیقی کے انداز اور مزاج کی اس تبدیلی کا اثر سریندر کور پر بھی پڑا مگر ذرا مختلف انداز سے جس نے انہیں وقتی طور پر رنجیدہ کیا مگر یہ تاریخ میں ان کے مقام کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہوا۔

ایک بار چندی گڑھ میں ہونے والے سالانہ روز گارڈن فیسٹیول میں وہ سٹیج پر آئیں تو نوجوان شائقین نے ان پر فقرے کسے۔ انہیں نیچے اُتارنے اور گرداس مان کو سٹیج پر بلانے کا مطالبہ کیا گیا۔

سریندر کور نے رنج اور غصے کے عالم میں نئی نسل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’آج آپ نے مجھے ہوٹنگ کر کے نیچے اُترنے کا کہا ہے۔ یاد رکھو ایک دن آئے گا جب لوگ یاد کریں گے کہ کبھی سریندر کور بھی ہوا کرتی تھی۔‘

ان کے الفاظ الہامی ثابت ہوئے. ہندوستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر ایچ ایم وی میوزک کمپنی نے ’پنجابی میوزک کے 50 سال‘ کے نام سے پانچ کیسٹوں کا انتخاب متعارف کروایا۔

اس میں ممتاز بیگم، یملا جٹ، رنگیلا اورنئی اوازوں میں گرداس مان اور دلیر مہدی کے گانے شامل تھے۔اس میں دو کیسٹ صرف سریندر کور اور بریش کور کے گیتوں کے تھے۔

2006 میں انہیں پدم شری ایوارڈ دیا گیا۔ انہیں اس بات کا افسوس تھا کہ ان کی نامزدگی پنجاب سے نہیں بلکہ ہریانہ کی طرف سے ہوئی۔

سریندر کور کی گائیکی ان کے خاندان کی تیسری نسل تک منتقل ہو چکی ہے ۔ڈولی گلیریاکے پنجابی گیتوں میں اپنی والدہ کا رنگ جھلکتا ہے۔ اب ان کی بیٹی سنینی شرما بھی اپنی نانی کے نقش قدم پر پنجابی گیت بڑے چاؤ سے گاتی ہے۔

برصغیر کی موسیقی میں بدلتے انداز کے باعث ظاہری اور معنوی طور پر بہت تبدیلی آ چکی ہے ۔ماضی کے کلاسیکل گیتوں کو نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے دوسرا جنم مل رہا ہے۔

ایسے میں تقسیم ہند کے بعد کی تیسری نسل میں ان کے گائے گیتوں کے ری مکس کی پذیرائی ان کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

سریندر کور کے نغموں میں برسات کے پتنگے ،آسمان پر جھولتی پتنگیں اور مٹیاروں کے کندھوں پر ڈھولتے پراندوں کا ذکر ہماری معاشرت کی مٹتی علامات کا بیان ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More