شندور پولو فیسٹیول ’بے وقت برفباری‘ کے بعد موخر: ’ہم موسم کے ہاتھوں شمالی علاقوں کو تباہ ہوتا دیکھ رہے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Jun 26, 2024

شندور پاس سے گذشتہ دنوں آنے والی تصاویر میں میدان اور اس میں لگے خیموں کو برف سے ڈھکا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ برفباری اچانک اور پولو فیسٹیول کے آغاز سے محض چار دن پہلے ہوئی تھی۔

خیبر پختونخوا حکومت نے ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں ماہ 28 سے 30 جون تک منعقد ہونے والا شندور پولو فیسٹیول معطل کر دیا گیا ہے۔ اعلامیے میں اس کی وجہ خراب موسمی حالات بتائی گئی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چترال کے ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ شندور پاس کے مقام پر اچانک موسم تبدیل ہوا اور برفباری نے پولو کے میدان کو پوری طرح ڈھک دیا ہے۔ ’اسی وجہ سے پولو کا تین روزہ فیسٹیول موخر کرنا پڑا۔‘

اس سے قبل 2022 میں شندور فیسٹیول کے اختتام کے بعد سینکڑوں سیاح اس وقت اپر چترال میں پھنس گئے تھے جب اچانک شندور پاس کے دہانے پر واقعے لسپور کے علاقے میں سیلاب آیا تھا۔

12 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ’دنیا کی چھت‘ شندور پاس میں ہر سال جولائی کے دوران تین روزہ پولو فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے جسے دیکھنے دنیا بھر سے شائقین اور سیاح چترال کا رُخ کرتے ہیں۔

تاہم حالیہ کچھ برسوں سے موسم کی خرابی کی وجہ سے کئی بار یہ فیسٹیول موخر کرنا پڑا ہے۔ 2012، 2013 اور 2015 میں سیلاب کے باعث یہ فیسٹیول منسوخ ہوتا رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں کھیلوں کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟

موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کھیلوں کا شیڈول تبدیل ہونا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ رواں برس گلگت بلتستان میں موسم سرما میں منعقد ہونے والی ونٹر گیمز کو نہ صرف کئی مرتبہ موخر کرنا پڑا بلکہ ان کا دورانیہ بھی کم کرنا پڑا۔

عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو سالانہ چار ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جبکہ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔

پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز ہیں جو زمین پر پولر ریجنز کے باہر کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں واقع ہیں۔

تاہم حالیہ برسوں میں ہونے والی درجنوں تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تبدیلی ان گلیشیئرز کو خطرناک تیزی سے کھا رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیاں ان علاقوں میں ’گلاف‘ یعنی گلیشیئر کے اچانک پگھلنے سے آنے والے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، موسم سرما میں کم یا تاخیر سے برفباری، طویل موسم گرما اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

یہ موسمیاتی تبدیلیاں جہاں ان علاقوں میں زندگی کے دیگر شعبوں کو متاثر کر رہی ہیں وہیں کھیلوں کی سرگرمیاں بھی مانند پڑ رہی ہیں۔

ان میں ایک طرف ملک کے شمالی علاقہ جات میں سرمائی کھیل تو دوسری جانب بین الاقوامی کھیل جیسے کہ کرکٹ اور فٹ بال بھی متاثر ہوئے ہیں۔

کم برف باری اور زیادہ بارش ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کو کیسے خطرناک بنا رہی ہے؟کیا ’بے وقت اور ضرورت سے زیادہ بارشیں‘ پاکستان کو درپیش موسمیاتی چیلنجز کی عکاس ہیں؟Getty Imagesجون 2022 کے دوران ملتان میں ایک کرکٹ میچ کے دوران دھول اڑنے کے باعث کھیل عارضی طور پر روکنا پڑا اور ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی پویلین لوٹ گئے

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں گلکن ونٹر کلب کے منتظم جمال سعید نے کہا کہ صورتحال کشیدہ ہے اور ’ہم اپنی آنکھوں سے تباہی آتی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ رواں برس موسم سے متعلق پیشگوئی بھی غلط ثابت ہو رہی تھی۔ ’ہماری توقعات اور اداروں کی پیشگوئی غلط ثابت ہوئی کیونکہ درجہ حرارت اور موسم بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔‘

ان کے مطابق ’وہ جھیلیں جہاں گذشتہ برس ان دنوں (جنوری) میں پانی جما ہوا تھا اور وہاں سے جیپیں گزرتی تھیں اور ہم سکیٹینگ کرتے تھے، اس سال وہاں برف ہی نہیں تھی۔ یعنی جہاں دو چار فٹ برف جمی ہوتی تھی وہاں پانی بہہ رہا تھا۔‘

خیال رہے کہ گلگت بلتستان میں موسم سرما کے کھیل گذشتہ کئی برسوں سے مقبولیت حاصل کر رہے تھے جس سے نہ صرف مقامی سطح پر کھیلوں کو فروغ ملا بلکہ موسم سرما کے دوران سیاحت کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔

تاہم رواں برس موسم سرما کے گرم درجہ حرارت نے خطے کے تہواری کیلنڈر کو اُلٹ پلٹ کر ڈالا۔ ان کھیلوں کو نہ صرف بار بار موخر کرنا پڑا بلکہ ان کے مقامات بھی تبدیل کرنا پڑے اور دورانیہ بھی کم کیا گیا۔

یہاں آئس ہاکی اور آئس سکیٹنگ جیسے سرمائی کھیلوں کے علاوہ روایتی کھیل جیسے بصرہ، پنڈوک اور بالبٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

سرمائی کھیلوں پر مشتمل سیون ڈیز فیسٹیول، جو عام طور پر 2-10 جنوری کے بیچ منایا جاتا تھا، اس سال 22-24 جنوری تک ملتوی کرنا پڑا۔

جمی ہوئی جھیلیں جو سکیٹنگ کے لیے آئس رِنگ کا کام کرتی ہیں، ان پر زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے برف کی تہہ جم نہیں سکی اور تقریب کو تین بار گلگت بلتستان کے مختلف جھیل والے دیہاتوں میں منتقل کیا گیا۔

اس کے علاوہ بچوں کے سپورٹس کے لیے کھیتوں میں بنائے جانے والے آئس رِنگ بھی زیادہ درجہ حرارت کے باعث پگھلتے رہے۔

Getty Imagesگذشتہ برسوں کے دوران پاکستان کے کئی علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں

جمال سعید نے بتایا کہ وہ عام طور پر ہنزہ میں مقابلے منعقد کراتے ہیں اور چونکہ ان میں 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کے لیے آئس ہاکی اور آئس سکیٹنگ بھی شامل ہے تو ان کے لیے کھیتوں پر پڑنے والی برف کو جمایا جاتا ہے۔

تاہم اس بار ’سردیوں کے موسم میں پہلے تو برفباری ہی نہیں ہوئی اور جو ہو رہی تھی تو درجہ حرارت اس قدر زیادہ تھا کہ برف جمی نہیں رہ سکتی تھی۔ اس طرح کھیتوں میں بنی برف کی رِنگ پگھل جاتی۔ اسی طرح جھیلوں میں بھی برف کی تہہ کی بجائے پانی بہہ رہا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے بچوں کو سمجھ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ان کے مستقبل کے لیے کس قدر خطرناک ہے، لیکن ہمارے بزرگ یا وہ نسل جو اس وقت اعلی عہدوں پر ہیں اور کچھ اقدامات کر سکتے ہیں، وہ کلائمٹ چینج کے خطرے کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔‘

وہ اسے ’خطرناک صورتحال‘ بیان کرتے ہیں کیونکہ ’موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہو رہی اور ہم اپنی آنکھوں سے شمالی پاکستان کو تباہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔‘

ان کو خدشہ ہے کہ ’یہ تباہی 50، 100 سال نہیں بلکہ اگلے 10 سالوں میں ہم سب کو کھا جائے گی۔‘

Getty Imagesلاہور میں موسم سرما کے دوران سموگ کے باعث کرکٹ کے میچز مشکلات کا شکار ہوتے ہیں ’موسمیاتی تبدیلی سے کرکٹ جیسا بڑا کھیل بھی متاثر ہوا ہے‘

موسمیاتی تبدیلیوں سے صرف علاقائی کھیل ہی نہیں بلکہ ملک میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلے جانے والے بڑے کھیل بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

برطانوی ادارے بیسز نے چند سال قبل ہی اپنی ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرکٹ دنیا کے ان کھیلوں میں سے ایک ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

اسی طرح نیویارک ٹائمز کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے جو کھیل سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، ان میں کرکٹ ٹاپ کے کھیلوں میں سے ایک ہوگا۔

یہ تجاویز مسلسل دی جا رہی ہیں کہ کرکٹرز کی کٹس، میچ کا دورانیہ اور دیگر کئی قواعد تبدیل کیے جائیں۔ حالیہ برسوں میں کئی ممالک میں کلائمٹ چینج کے منفی اثرات سے نہ صرف کرکٹ کے میچز متاثر ہوئے بلکہ بعض اوقات شدید گرمی کے باعث کھلاڑیوں کو ہسپتال بھی جانا پڑا۔

جون 2022 میں جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی تو میزبان شہر ملتان مین درجہ حرارت 44 درجہ سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ اس دورے پر آنے والے ویسٹ انڈین باؤلر عقیل حسین نے کہا تھا کہ ’ایسا لگ رہا تھا جیسے آپ کسی تندور میں بیٹھے ہیں۔‘

2022 میں ہی جب آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں ایک طویل عرصے کے بعد مختلف اوقات میں پاکستان کے دورے پر آئیں تو لاہور کے شائقین ان ٹیموں کو ایکشن میں شدید سموگ کی وجہ سے دیکھ ہی نہ سکے۔

لاہور میں سموگ کے باعث انگلینڈ کے ساتھ میچز کو ملتان منتقل کرنا پڑا مگر وہاں بھی ایک ٹیسٹ میچ سموگ کی نذر ہو گیا۔

Getty Imagesکھیلوں سے جڑی بے یقینی اور معیشت کو نقصان

کھیلوں کی سرگرمیاں متاثر ہونے سے ان کے ساتھ جڑی معاشی سرگرمیاں بھی کم ہو رہی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہنزہ سے تعلق رکھنے والی سلمی بیگ کہتی ہیں کہ وہ سرمائی کھیلوں کے دوران دستکاری کے سامان کے سٹال لگا کر گذشتہ کچھ سالوں سے آمدن کما رہی تھیں۔

’اس سال ہم نے سوچا تھا کہ چترال جائیں گے اور کوشش کریں گے کہ وہاں شندور فیسٹیول میں بھی کچھ سامان بیچ سکیں۔ لیکن اب وہ بھی منسوخ ہو گیا ہے۔ سردیوں میں ہونے والے کھیل بھی دو، تین دن کے ہو گئے تھے اور ٹریننگ کے سیشن بھی کم ہوئے تو ہماری مشکل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ گذشتہ دو سالوں میں اندازہ ہوا ہے کہ ’موسم کا کچھ پتا نہیں اب کب کیا ہو جائے۔ نہ ہی اب یہ پتا ہے کہ کمانا کیسے اور کب ہے؟‘

دوسری جانب چترال سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری افسر کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس قسم کے اقدامات یعنی فیسٹیولز منسوخ یا موخر کرنا ان کی ’مجبوری ہے مگر ان اقدامات سے کئی لوگ اور خود خیبرپختونخوا حکومت کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے اور ہمیں اخراجات کی مد میں خاصاً نقصان ہو رہا ہے۔‘

خیال رہے کہ پولو فیسٹیول اب جولائی میں منعقد کرایا جائے گا اور خیبرپختونخوا کا محکمہ سیاحت و کھیل یہ امید رکھے ہوئے ہے کہ موسم انھیں ایسا کرنے کی اجازت دے گا۔

کیا ’بے وقت اور ضرورت سے زیادہ بارشیں‘ پاکستان کو درپیش موسمیاتی چیلنجز کی عکاس ہیں؟نہ برف نہ بارش اُداس جنوری: پاکستان اور انڈیا کے پہاڑی علاقوں میں خشک موسمِ سرما، ’اس کی مثال نہیں ملتی‘کم برف باری اور زیادہ بارش ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کو کیسے خطرناک بنا رہی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More