کیا پاکستانی حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر عوام پر ٹیکس کا اضافی بوجھ ڈالا؟

بی بی سی اردو  |  Jul 04, 2024

Getty Images

پاکستان میں حالیہ بجٹ پر نہ صرف اپوزیشن رہنماؤں نے کڑی تنقید کی بلکہ کاروباری طبقے اور تنخواہ دار افراد نے بھی اس پر شدید ناراضی ظاہر کی کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ملک میں مہنگائی کے ہوتے ہوئے اضافی ٹیکس کے بوجھ سے ان کی زندگیاں مزید مشکل ہو جائیں گی۔

حکومت مجموعی ٹیکس ریونیو میں قریب 40 فیصد کا اضافہ چاہتی ہے اور اس کے لیے گذشتہ سال کے اعداد و شمار کے مقابلے براہ راست محصولات میں 48 فیصد اضافہ جبکہ بلاواسطہ محصولات میں 35 اضافہ کیا گیا۔

تاہم ماہرین سمجھتے ہیں کہ بعض شعبے اضافی ٹیکس سے مستثنیٰ رہے ہیں جیسے ریٹیلرز، زرعی آمدن اور ریئل اسٹیٹ اور اس کا بوجھ عام آدمی اور مینوفیکچررز پر آئے گا۔

پاکستان اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک بڑے قرض پروگرام کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان میں مالیاتی ڈسپلن کو قائم رکھنے کے لیے مختلف شرائط اور تجاویز پیش کی ہیں تاکہ زیادہ ریونیو جمع کر کے ملک کے بجٹ خسارے کو کم کیا جا سکے۔

حکومتی وزرا نے اس بجٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس قرض پروگرام کے حصول کے لیے اضافی ٹیکس عائد کرنا آئی ایم ایف کی شرائط اور تجاویز سے مطابقت رکھتا ہے اور ان پر اس حوالے سے کافی دباؤ ہے۔

ادھر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف نے حکومت کو یہ نہیں کہا کہ یہ اپنے اخراجات بڑھائیں۔‘

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ ’زراعت پر ٹیکس لگائیں، ریٹیلر پر فکسڈ ٹیکس لگائیں۔ وہ آپ نہیں لگا رہے۔ پراپرٹی ٹیکس بھی نہیں لگا رہے۔ آئی ایم ایف نے تو آپ سے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگانے کا نہیں کہا تھا۔‘

ہم نے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان میں معیشت کی بہتری اور آمدنی بڑھانے یعنی زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے لیے اس کی سفارشات کا جائزہ لیا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آیا یہ بجٹ آئی ایم ایف کی سفارشات کے مطابق بنا یا نہیں۔

Getty Imagesآئی ایم ایف نے پاکستان میں ٹیکس زیادہ جمع کرنے کی کون سی سفارشات دی تھیں؟

پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف کی رپورٹس میں اکثر ملک میں ٹیکس نیٹ بڑھانے اور اسے وسیع کرنے سے متعلق مختلف تجاویز ہوتی ہیں۔

حالیہ ٹینکنیکل اسسٹنسنس رپورٹ میں مختلف شعبوں میں ٹیکس بڑھانے اور انھیں ٹیکس نیٹ میں لانے یا ٹیکس چھوٹ اور سبسڈی ختم کرنے کی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

آئی ایم ایف نے تجویز دی کہ پاکستان میں جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کو معقول بنایا جائے اور برآمدی سیکٹر کے علاوہ تمام شعبوں کو ٹیکس بیٹ میں لایا جائے۔

پاکستان سے کہا گیا کہ وہ سیلز ٹیکس کے کم ریٹ کو ختم کرے ماسوائے ضروری غذا، تعلیم اور صحت کے شعبوں کی اشیا پر ایک کم یکساں ریٹ لگایا جائے۔

ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان پرسنل انکم ٹیکس کو بھی زیادہ معقول بنائے جس میں سیلری اور نان سیلری افراد کے ٹیکس میں تضادات کو ختم کرے اور دونوں کے لیے ٹیکس سلیب کو کم کر کے صرف چار ٹیکس سیلبز بنائے جائیں۔

سفارشات میں پاکستان میں کام کرنے والے درمیانے اور چھوٹے کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کہا گیا جس میں مینوفیکچرز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز پر ٹیکس لگانے کی سفارش کی گئی۔

آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان میں بجلی کے بل کے ذریعے نئے ٹیکس پیئر کو تو تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ذریعے کسی کی انکم کے بارے میں تخمینہ لگانا صحیح نہیں اور اسے ختم کرنا چاہیے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان میں زرعی ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس زیادہ اکٹھا کرنے کو کہا گیا یعنی صوبوں کو زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی تجویز دی گئی۔

آئی ایم ایف کی جانب سے اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں ٹیکس اصلاحات کی سفارشارت بھی پیش کی گئی ہیں۔ اس کے مطابق پاکستان کا ٹیکس سسٹم ریونیو جمع کرنے کے ساتھ اس لحاظ سے بھی ’انڈر پرفارمنگ‘ ہے۔ اس کے مطابق یہ ٹیکس پیئرز کے ساتھ یکساں اور جائز سلوک نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیےپاکستان کی قومی اسمبلی میں فنانس بل منظور: آپ کو اپنی تنخواہ پر کتنا ٹیکس ادا کرنا ہوگا؟پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ کن بڑے شعبوں سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟کیا ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے پر شہریوں کے سِم کارڈ بند کرنے جیسا اقدام مؤثر ثابت ہو گا؟کیا بجٹ میں آئی ایم ایف کی سفارشات کی روشنی میں ٹیکس عائد کیے گئے؟

پاکستان کے رواں مالی سال کے بجٹ کو دیکھا جائے تو ایف بی آر کو اس سال تقریباً 13000 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرنا ہے جو گذشتہ مالی سال میں 9400 ارب تھا۔

حکومت کی جانب سے اس اضافی آمدنی کے لیے زیادہ ٹیکس لگائے گئے ہیں لیکن کیا یہ ٹیکس واقعی آئی ایم ایف کی تجاویز سے مطابقت رکھتے ہیں؟

ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بتایا کہ بجٹ میں تنخواہ دار اور نان سیلری طبقوں کے لیے ٹیکس سلیب ابھی بھی چھ ہیں جبکہ آئی ایم ایف نے چار سلیب کی سفارش کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی خواہش کے برعکس سیلری اور نان سیلری افراد کے ٹیکس ریٹ کو یکساں کرنے کے لیے اس بجٹ میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جبکہ اس بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ریٹ میں اضافہ کیا گیا۔

سیلز ٹیکس کی مد میں برآمدی شعبے کے علاوہ تمام چھوٹ ختم کرنے کے لیے سفارش کی گئی تھی تاہم فنانس بل میں دیکھا جائے تو ابھی بھی کچھ شعبوں پر ٹیکس چھوٹ برقرار ہے۔ ان میں سب سے نمایاں مثال پیٹرول و ڈیزل پر جی ایس ٹی کی چھوٹ ہے۔

پاکستان میں اس وقت پیٹرول اور ڈیزل پر کوئی جی ایس ٹی نہیں لیا جاتا جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا تھا کہ برآمدی شعبے کے علاوہ تمام شعبوں پر یکساں جی ایس ٹی لگایا جائے۔

ریٹیلرز پر ٹیکس کا کافی عرصے سے سننے میں آ رہا ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے بھی اس شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سفارش کی گئی تھی۔

تاہم حکومت کی جانب سے اس بجٹ میں چھوٹے اور درمیانے درجے میں کام کرنے والے مینوفیکچررز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز میں سے صرف مینوفیکچررز پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ ہول سیلرز اور ریٹیلرز کو نارمل ٹیکس رجیم میں لانے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے زرعی ٹیکس لگانے اور پراپرٹی رکھنے پر ٹیکس لگانے کی سفارش کی گئی تھی تاہم اس بجٹ میں وفاق کی طرف سے اور نہ ہی صوبوں کی جانب سے اپنے بجٹ میں زرعی ٹیکس بڑھانے کے لیے اقدامات لیے گئے ہیں۔

تو پھر وفاقی بجٹ کو ’آئی ایم ایف کا بجٹ‘ کیوں کہا جا رہا ہے؟

بعض اوقات اپوزیشن رہنما وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ کو ’آئی ایم ایف کا بجٹ‘ قرار دیتے ہیں تاہم اگر آئی ایم ایف کی سفارشات اور حکومتی اقدامات کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات پوری طرح درست نہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف ایک وسیع تر سفارشات کا کہتا ہے اور اس کی جانب سے ایک، ایک چیز پر ٹیکس کے بارے میں سفارشات پیش نہیں کی جاتیں۔

ان کے مطابق کسی خاص شعبے پر ٹیکس کے بارے میں دونوں اطراف کے درمیان اجلاس میں طے پاتا ہے جو منٹس آف میٹنگ کا حصہ ہوتا ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کے امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی مہتاب حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ جو سفارشات دی گئی ہیں وہ میڈیم ٹرم فریم ورک ہوتا ہے اور اس پر تین سال میں عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بجٹ پیش ہونے سے لے کر اس کی منظوری کو دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک وسیع تر اتفاق رائے ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ بجٹ میں ریٹیلرز اور زرعی شعبے پر انکم ٹیکس نہیں لگایا جو آئی ایم ایف کی سفارش تھی لیکن پھر بھی کچھ چیزوں کو اس میں لیا گیا۔

انھوں نے کہا ’یہ بجٹ کتنا آئی ایم ایف کی سفارشات پر بنا، اس کا اصل فیصلہ آئی ایم ایف خود کرے گا۔ اگر وہ آنے والے ہفتوں میں پاکستان کے لیے ایک بڑے قرض پروگرام کے لیے سٹاف لیول معاہدہ کر لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بجٹ اس کی شرائط کے تحت بنا۔‘

ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بتایا کہ آئی ایم ایف پاکستان سے ٹیکس آمدنی بڑھانے کا کہتا ہے تاکہ بجٹ خسارہ پورا کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف طویل مدتی اصلاحات کی بات کرتا ہے لیکن ’پاکستانی حکام ایک آسان راستہ اختیار کرتے ہیں۔ انھوں نے فوراً ٹیکس چھوٹ ختم کر کے اضافی آمدنی دکھا دی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ بھی صحیح ہے کہ بہت سارے شعبوں پر ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی تاہم جو آئی ایم ایف چاہتا ہے وہ ایک وسیع فریم ورک ہوتا ہے۔‘

’جب آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں تو یہ چیزیں طے کی جاتی ہیں اور پاکستانی حکام بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے اپنا طریقہ بتاتے ہیں جس میں خاص کر پرائمری بجٹ کو سرپلس دکھانا ہے۔‘

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق ’وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ آئی ایم ایف کی سفارشات سے ہم آہنگ بجٹ ہے۔‘

اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ کا عمران خان کی رہائی کا مطالبہ: ’یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے‘، وزیرِقانون کا ردعملپاکستان کی قومی اسمبلی میں فنانس بل منظور: آپ کو اپنی تنخواہ پر کتنا ٹیکس ادا کرنا ہوگا؟بجلی کا وہ ’ایک اضافی یونٹ‘ جو آپ کے بل میں دوگنا اضافے کی وجہ بنتا ہےکیا ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے پر شہریوں کے سِم کارڈ بند کرنے جیسا اقدام مؤثر ثابت ہو گا؟پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ کن بڑے شعبوں سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More