کرسن داس مولجی: وہ شخص جس نے خواتین بھکتوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے والے ’مہاراج‘ سے ٹکر لی

بی بی سی اردو  |  Jul 05, 2024

Getty Imagesفائل فوٹو

حال ہی میں نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے والی انڈین فلم ’مہاراج‘ کا بہت چرچا میں ہے۔ اس کے زیر بحث رہنے کی دو وجوہات ہیں: ایک یہ کہ یہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ قبل انڈین معاشرے کی سماجی برائیوں کے خلاف ایک صحافی کی لڑائی کی کہانی ہے اور اس کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس میں بالی وڈ کے ’مسٹر پرفیکشنٹ‘ عامر خان کے بیٹے جنید خان پہلی بار پردہ سکرین پر دکھائی دیے ہیں۔

یہ فلم گجراتی صحافی سوربھ شرما کے سنہ 2014 کے ناول ’مہاراج‘ پر مبنی ہے۔ اس فلم میں کرسن داس نامی صحافی کی ہندو معاشرے میں اصلاحی تحریک اور سماجی برائیوں سے لڑنے کی کوششوں کو پردے پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس فلم کے ڈائیریکٹر سدھارتھ ملہوترا ہیں جبکہ عامر خان کے بیٹے جنید خان کے ساتھ دیگر کاسٹ میں شالینی پانڈے، شروری واگھ اور جیدیپ اہلاوت مرکزی کرداروں میں ہیں۔

حقیقی واقعات پر مبنی اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ سنہ 1862 میں ایک صحافی نے ایک مذہبی رہنما کے جنسی جرائم کے بارے میں لکھنا شروع کیا اور کی وجہ سے انھیں بمبئی کی برطانوی سپریم کورٹ میں ہتک عزت کا ایک ایسا مقدمہ لڑنا پڑا، جو آگے چل کر تاریخی ثابت ہوتا ہے۔

لیکن وہ صحافی کون تھے جنھوں نے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل انڈین معاشرے میں خواتین کے استحصال اور فرسودہ مذہبی روایات کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔

کرسن داس مولجی کون تھے؟

انڈین مصنف بی این موتی والا ’کرسن داس مولجی سوانح عمری (1935)‘ میں لکھتے ہیں کہ کرسن داس 25 جولائی 1832 میں ممبئی کے ایک گجراتی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ایک گجراتی سکول سے حاصل کی اور پھر وہ انگریزی سکول میں داخل ہو گئے۔

فلم میں بیان کی گئی کہانی کے مطابق وہ بچپن سے ہی ذہین اور معاشرے کے رسم و رواج کے متعلق سوال اٹھانے والے تھے۔ وہ اکثر اپنے گھر والوں سے ایسے سوالات پوچھتے جو معاشرتی رویوں اور اقدار کے منافی سمجھے جاتے۔

مثلاً ’ہم ہر روز مندر کیوں جاتے ہیں؟ ’کیا بھگوان گجراتی زبان سمجھتے ہیں؟ کیا وہ (بھگوان) ہمارے گاؤں سے ہیں، اور عورتیں ہمیشہ کیوں گھونگھٹ میں رہتی ہیں؟‘

کرسن داس مولجی گجراتی زبان کے صحافی تھے جنھوں نے مذہب کے نام پر خواتین کے خلاف جنسی جرائم اور ان کے استحصال کے بارے میں لکھنا شروع کیا تھا اور اپنی صحافت اور معاشرتی رسم و رواج پر سوالات اٹھانے کی وجہ سے انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

Getty Imagesفائل فوٹومہاراج کون تھے؟

جادوناتھ جی مہاراج ہندو مت کے ویشنو پُشتی مرگ فرقے کی ایک قابل احترام مذہبی شخصیت تھے جو کرشن دیوتا کو اعلیٰ ہستی کے طور پر پوجتے ہیں۔ اس فرقے کے مذہبی رہنما خود کو ’مہاراج‘ کہتے تھے۔

گجرات، کاٹھیا واڑ، کچھ اور وسطی ہندوستان میں پشتی مرگ کے پیروکار امیر تاجر سے لے کر کسان تک تھے، جن میں بھاٹیہ اور بنیا جیسی اثرو رسوخ والی ذاتیں شامل تھیں۔

اس فرقے کے مذہبی رہنما ’چَرن سیوا‘ نامی رسم کے ذریعے خواتین پیروکار کے اعتماد کا غلط استعمال کر کے ان کا جنسی استحصال کرتے تھے اور اسے مذہب کی ایک رسم کے طور پر پیش کرتے تھے۔

’اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی‘ نامی معروف جریدے میں انو کمار لکھتی ہیں کہ ’مہاراج نے نہ صرف اپنی خواتین بھکتوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے تھے بلکہ وہ اپنے مرد عقیدت مندوں سے بھی توقع کرتے تھے کہ وہ ان کی جنسی تسکین کے لیے اپنی بیویوں کو پیش کریں گے۔‘

کرسن داس جیسے مصلحین مذہب اور عقیدے کے اس طرح کے غلط استعمال کو باریکی سے سمجھتے تھے لیکن انھیں ان مہاراجوں (مذہبی رہنماؤں) کے بھکتوں اور اپنے خاندانوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

کرسن داس کی جانب سے اس ’چرن سیوا‘ نامی رسم کے خلاف آواز اٹھانے پر انھیں گھر سے نکال دیا گیا تھا لیکن وہ اپنی صحافت کے ذریعے مہاراج کے طرز عمل کی مخالفت کرتے رہے۔

انھوں نے شروع میں دادا بھائی نوروجی کے اخبار ’رست گفتار‘ کے لیے لکھا لیکن بعد میں ’ستیہ پرکاش‘ کے نام سے اپنی اشاعت شروع کی۔ اسی اخبار میں ان کے مضمون نے مہاراج جادوناتھ کو اتنا ناراض کر دیا کہ انھوں نے کرسن داس کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا۔

یہ بھی پڑھیےمندرا بیدی: ہندو عقیدے میں چتا جلانے کی رسم اور خواتین کی موجودگیسنگِ ماہ: عورت پر حق ملکیت جتانے کی قبائلی رسم ’غگ‘یا ’ژغ‘ کیا ہے؟Getty Imagesفائل فوٹوکرسن داس مولجی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ کیا تھا؟

صحافی کرسن داس مولجی نے ہندوؤں کے ایک فرقے کے مذہبی رہنما جادوناتھ مہاراج کے خلاف مذہب کے نام پر خواتین کا جنسی استحصال کرنے کا الزام لگایا تھا اور اس بارے میں اپنے اخبار میں چھپنے والی تحریروں میں لکھا تھا۔

اس کے جواب میں مذہبی رہنما مہاراج کی جانب سے سنہ 1862 میں بمبئی ہائیکورٹ میں کرسن داس پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا گیا۔

اس مقدمے میں کرسن داس نے دلیل دی کہ ان کے بجائے مہاراج جادوناتھ پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے کیونکہ ان کے مطابق پشتی مرگ سچا ہندو مت نہیں بلکہ ایک بدعتی فرقہ تھا جس نے عقیدت مندوں کو ’مہاراج‘ (مذہبی گرو) کی خوشنودی کے لیے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو اس کے حوالے کرنے کی ترغیب دی تھی۔

کرسن داس مولجی کا خاندان بھی اس فرقے کے مہاراج کا عقیدت مند تھا۔

مہاراج جادوناتھ کا یہ مقدمہ بھری عدالت میں 24 دن تک جاری رہا۔ مہاراج نے اپنے کردار کی تصدیق کے لیے متعدد گواہوں کو پیش کیا تھا۔

اس مقدمے میں مہاراج کے ذاتی معالج نے عدالت میں گواہی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے جادوناتھ اور دوسرے مہاراجوں کا آتشک کا علاج کیا تھا۔ معالج نے اعتراف کیا تھا کہ یہ بیماری انھیں متعدد خواتین عقیدت مندوں کے ساتھ ہم بستری کرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔

کرسن داس نے ہتک عزت کا یہ تاریخی مقدمہ جیت لیا تھا۔ یہ مقدمہ اس وقت کے معاشرے میں دھیرے دھیرے تبدیلیوں کی وجہ بنا۔

اس کے علاوہ انھوں نے اس دور میں ہندو معاشرے میں ادا کی جانے والی دیگر رسموں کے خلاف بھی آواز اٹھائی تھی جن میں ذات پات کے خلاف اور بیوہ خواتین کی دوبارہ شادی کرنے جیسی کوششیں شامل تھی۔

کرسن داس کی کوششوں اور عدالتی فیصلے کو پریس کے ایک حصے میں بہت سراہا گیا اور مقامی انگریزی پریس نے انھیں ’انڈین لوتھر‘ کا لقب دیا۔

کرسن داس کے دوست ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

کرسن داس کے ہم عصر اور ان کے اخبار میں معاون مادھو داس رگھوناتھ داس اپنی 1890 کی کتاب میں کرسن داس کی مدد سے ایک بیوہ سے شادی کرنے کے اپنے تجربے کے بارے میں لکھتے ہیں۔

وہ اس شادی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بیوہ کی دوبارہ شادی کوئی معمولی واقعہ نہیں اور اس وجہ سے ہمیں اسے کامیاب بنانے کے لیے تمام حفاظتی تدابیر اختیار کرنی پڑیں۔‘

کرسن داس نے خود دلہن کے والد کی جگہ ان کا کنیا دان کیا لیکن انھیں اس شادی کروانے پر معاشرے کے قدامت پسند حلقوں سے سخت ردعمل کا خوف اتنا زیادہ تھا کہ ایک برطانوی انسپیکٹر نے رات کو ان کے دفاع کے لیے لاٹھیاں دیں۔

وہ لکھتے ہیں ’احتیاط کے طور پر ہم نے خود چار طاقتور پٹھانوں کو اس جگہ کی حفاظت کے لیے رکھا تھا۔‘

کرسن داس نے معاشرے کو دوسرے طریقوں سے بھی چیلنج کیا تھا۔ مادھو داس رگھوناتھ داس لکھتے ہیں کہ انھوں نے ’ناپاک ملیچھجوں اور آسوروں کے ملک‘ کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ (جادوناتھ کو ماننے والا ایک طاقتور طبقہ انگلینڈ کے لوگوں کو ’شیتھیا‘ مانتے تھے۔)

وہ ہندو معاشرے کے ایک حصے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ان کے لیے یورپ کا سفر ان کے جرائم کی فہرست میں سب سے سنگین جرم تھا، یہاں تک کہ ایک بیوہ سے شادی کرنے جیسا بڑا جرم۔‘

رگھوناتھ داس لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب تھا کہ ’کرسن داس کو ملیچھوں اور آسوروں کی سرزمین پر جانے کے جرم میں معاشرے سے خارج کر دیا گیا تھا اور ان کی بیوی اور چھوٹے بچوں کو بھی بغیر کسی جرم کے وہاں سے نکال دیا گیا۔‘

’بلکہ کرسن داس کے مرنے کے بعد ان کے فرقے والوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی بیوی اور بچے معافی مانگیں۔ ان کی شرط تھی کہ وہ گائے کے گوبر کو اپنے پورے جسم پر رگڑیں اور پھر اپنے گناہوں کو (شہر) ناسک کے مقدس دریا میں دھوئیں، جو ہزاروں اور لاکھوں یاتریوں کی پے در پے نسلوں کی گندگی اور گناہوں کی وجہ سے بھرا ہوا ہے۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’شیٹھیوں (مہاراج کی عقیدت مند ایک ذات) نے ان کی بیوہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس کا معاشرے پر یہ اثر ہوا کہ (کرسن داس) کے بعد ہماری ذات سے کوئی فرد یورپ نہیں گیا۔‘

وہ برطانوی افسر جس نے بیواؤں کو شوہر کے ساتھ زندہ جلانے کی رسم ستی کو غیر قانونی قرار دیاجب تاج برطانیہ نے ستی کی رسم کو قابل تعزیر جرم بنا دیا’اُردو سے چِڑ نئی نہیں مگر اب یہ نئے ہندوستان کا حصہ ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More