وہ یورپی ملک جس نے اپنے منصوبوں کے لیے چینی سرمایہ کاری حاصل کی اور اب اسے ’بیجنگ کی کالونی‘ بننے کا ڈر ہے

بی بی سی اردو  |  Jul 07, 2024

Reuters

چین نے سنہ 2023 کے دوران ہنگری میں اتنی سرمایہ کاری کی جتنی تمام یورپی ممالک نے مل کر وہاں کی۔ اس کی وجہ سے وہ یورپی یونین میں بیجنگ کا قریب ترین شراکت دار بن گیا ہے۔

ہنگری کے اس مقام کو صدر شی جن پنگ کے 8 تا 10 مئی 2024 کو بوڈاپیسٹ کے دورے کے دوارن اجاگر کیا گیا جہاں 18 مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے اور دونوں ممالک کے تعلقات کو ’جامع سٹریٹجک شراکت داری‘ میں اپ گریڈ کیا گیا۔

ہنگری کا میڈیا بوڈاپیسٹ پر بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے بہت زیادہ منقسم ہے۔ لبرل پریس نے سنگین سیاسی، معاشی اور ماحولیاتی خدشات کا اظہار کیا ہے۔

اب تک کیا ہوا ہے؟

مشہور لبرل آن لائن مالیاتی اخبار پورٹ فولیو نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ایم ٹی آئی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 2023 کے ایک سال دوران ہنگری میں تقریبا اتنی ہی چینی سرمایہ کاری کی گئی جتنی ’دیگر تمام یورپی ممالک نے مشترکہ طور پر‘ کی۔

پورٹ فولیو نے کہا کہ برلن میں قائم مرکیٹر انسٹی ٹیوٹ فار چائنا سٹڈیز (میرکس) اور روڈیم گروپ کی جانب سے چھ جون کو شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ’ہنگری نے گذشتہ سال یورپ میں چین کی براہ راست سرمایہ کاری کا 44 فیصد حصہ حاصل کیا، جس نے تین سب سے بڑی یورپی معیشتوں جرمنی، فرانس اور برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔‘

حکومت کے اہم روزنامے مگیار نیمزیٹ نے ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہنگری چین کی مدد سے 21 ویں صدی جیت لے گا‘ اور 2023 میں ’تمام غیر ملکی سرمایہ کاری کا تین چوتھائی‘ بیجنگ سے آئے گا جو17 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

مگیار نیمزیٹ نے کہا کہ اس دورے کے دوران اوربان نے الیکٹرک وہیکل مینوفیکچرنگ، ریلوے اور آئی ٹی کے شعبوں میں چین کے ساتھ تعاون کو سراہا۔ دونوں ممالک نے ’ہنگری کی زرعی اور غذائی مصنوعات برآمد کرنے اور جوہری صنعت کے پورے سپیکٹرم میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔‘

اس دورے نے ہنگری کے میڈیا میں مختلف رد عمل کو جنم دیا۔

Getty Imagesایسا کیوں ہوا؟

بائیں بازو کے لبرل اخبار نیپزاوا کے مطابق 2010کی دہائی کے آخر سے 2020 کی دہائی کے اوائل میں ہنگری کا کاروباری ماحول یورپی سرمایہ کاروں کے لیے تیزی سے کم پرکشش ہو گیا جس کی وجہ حکومتی بدعنوانی اور حکومتی پالیسیوں کا انھیں متاثر کرنا تھا۔

اس کی وجہ سے یورپ سے نئی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی اور اب یورپی یونین کے سرمایہ کار ’ہنگریسے حاصل ہونے والے زیادہ تر منافع کو دوبارہ انویسٹ کرنے کے بجائے گھر بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

اخبار کا کہنا ہے کہ ’روایتی سرمایہ کاروں نے ہنگری سے منھ موڑ لیا۔ یورپی یونین کی پیداوار کے خواہاں چینی سرمائے نے ہنگری کی حکومت کے منصوبوں کو پورا کیا۔‘

اگر تمام چینی سرمایہ کاری کام کرنا شروع کر دے تو ان کی مجموعی مالیت 20 ارب یورو تک پہنچ جائے گی جس سے چین ہنگری کی معیشت کے لیے اہمیت کے لحاظ سے جرمنی اور آسٹریا کے برابر آ جائے گا۔

چین کے ساتھ قریبی تعلقات اوربان کی اس حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کا انھوں نے 2012 میں انکشاف کیا تھا اور جس کا مقصد ہنگری کو مغرب اور مشرق کے باہمی تعلقات میں ’درمیانی طاقت‘ بنانا ہے۔ خاص طور پر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت ریلوے منصوبوں کے ذریعے۔

چین اپنے منصوبوں کو کس طرح فروغ دیتا ہے؟

چینی حکام نے ہنگری میں حکومت نواز میڈیا کو اپنے منصوبوں اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا۔

چینی رہنما کے دورے سے قبل مگیار نیمزیٹ نے شی جن پنگ کا ایک مضمون شائع کیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’آج ہنگری ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے اور وسطی اور مشرقی یورپ میں چینی سرمایہ کاری کے لیے پہلی منزل ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعاون نتیجہ خیز اور توانائی سے بھرپور ہے۔‘

سنہ2023 میں مگیار نارانکس نے چینی سفارت خانے کے چارج ڈی افیئرز چاؤ جنگ کے ساتھ ایک طویل ’پروپیگنڈا‘ انٹرویو شائع کرنے پر حکومت کے حامی روزنامہ مگیار ہرلاپ کا مذاق اڑایا تھا۔

ہفتہ وار اخبار نے کہا کہ چاؤ جنگ نے چینی حکومت کے نعروں کو نشر کرنے میں بے عیب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

Getty Imagesچین نے کن اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے؟

ہنگری میں چین کے بڑے سرمایہ کاری کے منصوبوں میں سی اے ٹی ایل کی طرف سے ڈیبریسین میں ایک بیٹری پلانٹ کی تعمیر اور زیگڈ کے قریب بی وائی ڈی کی طرف سے الیکٹرک کار پلانٹ شامل ہیں۔

اگرچہ حکومت کے حامی نیوز بلاگ مینڈینر نے بیٹری فیکٹری منصوبے کو ’ہنگری کی معیشت کی تاریخ میں ایک بے مثال پیمانے پر سرمایہ کاری‘ قرار دیا لیکن حزب اختلاف کے حامی میڈیا نے ماحولیاتی خطرے کی گھنٹی بجا دی جس میں مگیار نارانکس نے ’پانی اور بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب، دونوں نایاب اور بہت سارے زہریلے مادوں کی موجودگی‘ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

شی جن پنگ کے دورے کے دوران بوڈاپیسٹ بلغراد ریلوے لائن کو چین کی مالی اعانت سے جدید بنانے اور بوڈاپیسٹ کے ارد گرد ریل فریٹ بائی پاس اور بوڈاپیسٹ ہوائی اڈے سے ریل پر مبنی لنک کی تعمیر کی تیاریوں کے اعلان کو کچھ تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

مشہور ویب پورٹل 24 نے چین کے ماہر گیولا کرجزار کے حوالے سے کہا ہے کہ بوڈاپیسٹ-بلغراد منصوبے کا اعلان ’کئی سال پہلے بڑی توقعات کے ساتھ کیا گیا تھا‘ لیکن اس کی تکمیل ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

مگیار نارانکس نے کہا کہ ’اتنی بڑی سرمایہ کاری کے عملی فوائد نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘

ایک اور مضمون میں اس نے پوچھا کہ تعمیر کے لیےحاصل کیے گئے فنڈز کو واپس کرنے میں ’کتنے سینکڑوں یا ہزاروں سال‘ لگیں گے۔

معروف ہفتہ وار ہیٹی ولاگاگساگ نے کہا کہ دو نئے ریلوے لنکس کے منصوبے میٹروپولیٹن یا قومی نقل و حمل کے نیٹ ورک سے منسلک نہیں ہوں گے کیونکہ ’چینی ابھی تک ایسا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے کے قابل نہیں ہیں جو ہنگری کے ریلوے نظام میں فٹ بیٹھتا ہے‘ اور منصوبے یورپی یونین کے قواعد و ضوابط کے بھی متضاد ہوں گے۔

کیا ہنگری کے چینی ’کالونی‘ بننے کا خطرہ ہے؟

چونکہ مشترکہ منصوبوں کو چینی قرضوں سے مالی اعانت فراہم کی جا رہی ہے اس لیے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ہنگری ممکنہ طور پر چین پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگے گا۔

منڈینر نے حزب اختلاف کے سیاست دان بینس ٹورڈائی کے حوالے سے کہا کہ دونوں رہنماؤں کی جانب سے اعلان کردہ ’معاشی طور پر غیر معقول‘ سرمایہ کاری ہنگری کے بجائے چین کے مفادات کو پورا کرے گی اور ہنگری کو ’چینی کالونی‘ اور بیجنگ کا مقروض بنا دے گی۔

لیکن سینٹرسٹ لبرل آن لائن روزنامہ ٹیلیکس نے مشورہ دیا کہ ’اس بات سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے قرض کے جال میں پھنس جائیں گے کیونکہ ہنگری کی جی ڈی پی میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ چاہے کچھ نئے منصوبے بوڈاپیسٹ-بلغراد منصوبے میں شامل کیوں نہ ہو جائیں۔‘

ماضی میں بوڈاپیسٹ میں شنگھائی میں قائم فودان یونیورسٹی کے پہلے یورپی کیمپس کی تعمیر کے لیے ڈیڑھ ارب یورو کے منصوبے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، جس کا آغاز 2021 میں ہوا اور اس کی توسیع چین نے کی لیکن سرمایہ ہنگری کا تھا۔ تحقیقاتی ویب سائٹ ڈائرکٹ 36کے مطابق اس کی تعمیر ایک چینی کمپنی چینی مواد اور چینی لیبر کا استعمال کرتے ہوئے کر رہی ہے۔

تاہم فودان منصوبے کو ہنگری کی حکومت نے 2023 میں اس وقت ترک کر دیا تھا جب فنڈز کی کمی کا مسئلہ پیش آیا۔

مئی 2023 میں ہیٹی ولاگاگڈاساگ نے کہا تھا کہ یہ منصوبہ ’بالآخر ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘۔

ہیٹی ولاگزداساگ نے 2023 میں کہا کہ اس منصوبے پر پابندی کی وجہ یونیورسٹی کو چین کے لیے جاسوسوں کی بھرتی کے لیے استعمال کیے جانے کے خدشات ہو سکے ہیں۔

چینی تارکین وطن مزدوروں کا مسئلہ بھی تنازعے کا سبب رہا ہے۔ فروری 2024 میں ہنگری کے وزیر داخلہ سینڈر پنٹر نے چین کے ساتھ ایک وسیع سکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت مبینہ طور پر ہنگری اور چینی پولیس کو ہنگری کے سیاحتی علاقوں میں مشترکہ طور پر گشت کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

یہ سب 2022 میں ہنگری میں دو غیر قانونی ’چینی پولیس سٹیشنوں‘ کے انکشاف اور بندش کے باوجود کیا گیا۔

ہیٹی ولاگازداساگ نے کہا کہ یہ سٹیشن ایک عالمی چینی پولیس نیٹ ورک کا حصہ تھے جو چینی تارکین وطن کو ’ہراساں‘ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

اخبار نے یہ بھی کہا کہ ہنگری کی حکومت قانون میں ترمیم پر غور کر رہی ہے جس سے مستقبل کے چینی تارکین وطن کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کو فائدہ ہوگا، جن کی آمد کو ہنگری اور چین کے درمیان پروازوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے سہولت ملے گی۔

24 ویب سائٹ نے کہا کہ اگرچہ حالیہ برسوں میں ہم ملک میں چینی میگا سرمایہ کاری کے تسلسل کو دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ نئی سرمایہ کاری میں سے کس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا کیونکہ وہ فی الحال صرف ’ارادے کے اعلانات‘ ہیں۔

چینی معیشت اور پانچ سوال: پاکستان سمیت دیگر ممالک میں چین کی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا ہے؟چین، ایران کو اسرائیل کے خلاف مزید محاذ آرائی سے باز رہنے پر زور دے: امریکی وزیرِ خارجہ انتھونی بلنکن’آپریشن عزم استحکام‘: کیا چین کے سکیورٹی اور اندرونی استحکام کے مطالبے نے پاکستان کو متحرک کیا؟چین کے متعدد بڑے شہر تیزی سے زمین میں کیوں دھنس رہے ہیں اور اس کا حل کیا ہے؟امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ کا نیا محاذ: چینی الیکٹرک گاڑیوں پر 100 فیصد ٹیکس کیوں لگا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More