سر کیئر سٹامر: ’شکست سے نفرت‘ کرنے والے برطانیہ کے متوقع وزیراعظم کون ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jul 05, 2024

BBCسر کیر سٹامر اور ان کی اہلیہ

برطانیہ کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی کی کامیابی کے بعد اس کے سربراہ سر کیئر سٹامر ملک کے متوقع نئے وزیراعظم ہیں۔

سر سٹامر نے چار سال قبل سٹامر نے انتہائی بائیں بازو کے خیالات کے حامی جیریمی کوربن کی جگہ لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی۔

لیبر پارٹی موجودہ انتخابات میں فتح کے نتیجے میں 14 برس بعد اقتدار میں آئی ہے اور اس سیاسی جماعت کو بائیں بازو سے مرکز کی جانب لانے کے لیے سٹامر نے کافی کوشش کی تاکہ وہ الیکشن میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔

سیاست سے پہلے کی زندگی

50 کے پیٹے میں پہلی بار برطانوی دارالعوام کا رکن بننے سے پہلے سٹامر نے وکالت کے شعبے میں اپنا نام بنایا تھا تاہم انھیں ہمیشہ سے سیاست میں دلچسپی تھی اور اپنی جوانی میں وہ بائیں بازو کی سخت گیرسیاست کے حامی تھے۔

وہ سنہ 1962 میں لندن میں پیدا ہوئے اور ان کا بچپن جنوب مشرقی انگلینڈ میں سری کاؤنٹی میں گزرا۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔

سٹامر نے 2007 میں شادی کی۔ ان کی بیوی وکٹوریہ الیگزینڈر این ایچ ایس کے لیے کام کرتی ہیں جبکہ ان کے دو بچے ہیں۔

سٹامر اکثر کہتے ہیں کہ وہ مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد ایک کارخانے میں اوزار بناتے تھے اور ان کی والدہ ایک نرس تھیں۔

ان کے گھر والے لیبر پارٹی کے پرانے حامی تھے بلکہ سٹامر کا نام بھی پارٹی کے پہلے سربراہ، جو ایک کان کن تھے، کیئر ہارڈی کے نام پر رکھا گیا تھا۔

سٹامر کے گھر میں سکون نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کہ والد سرد مہر تھے اور زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ ان کی والدہ کی زیادہ تر زندگی سٹل ڈزیز نامی آٹو امیون بیماری سے لڑتے ہوئے گزری۔

بیماری سے لڑتے لڑتے بالآخر وہ چلنے اور بولنے سے قاصر ہو گئیں اور اسی بیماری کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ بھی کاٹنی پڑی۔

BBCسر کیئر سٹامر کی یونیورسٹی کے دور کی تصویر

سٹامر نے 16 سال کی عمر میں لیبر پارٹی کی مقامی یوتھ برانچ میں شمولیت اختیار کی۔ کچھ عرصے کے لیے انھوں نے ایک انتہا پسند بائیں بازو کے میگزین ’سوشلسٹ الٹرنیٹیوز‘ کے مدیر کے طور پر بھی کام کیا۔

سٹامر اپنے خاندان میں یونیورسٹی جانے والے پہلے فرد تھے۔ انھوں نے لیڈز اور آکسفرڈ سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور پھر انسانی حقوق کے ماہر وکیل کی حیثیت سے کام کیا۔

اس دوران انھوں نےکیریبین اور براعظم افریقہ کے ممالک میں سزائے موت ختم کرنے کے لیے کام کیا۔

نوّے کی دہائی میں انھوں نے ایک مشہور کیس میں دو ماحولیاتی کارکنوں کی نمائندگی کی تھی جن پر ملٹی نیشنل ریستوران میکڈونلڈز نے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔

سنہ 2008 میں سٹامر کو پبلک پراسیکیوشن کا ڈائریکٹر اور کراؤن پراسیکیوشن سروس کا سربراہ بنایا گیا جس کے بعد وہ برطانیہ اور ویلز میں سب سے سینیئر پراسیکیوٹر بن گئے تھے۔

سنہ 2013 میں انھوں نے یہ ملازمت ترک کی جبکہ سنہ 2014 میں انھیں ’سر‘ کا خطاب دیا گیا۔

PA Mediaسر کیئر سٹامرکو سنہ 2014 میں ’سر‘ کا خطاب ملا لیبر پارٹی کا سربراہ بننے تک کا سفر

سٹامر سنہ 2015 میں لندن کے حلقے ہولبرن اور سینٹ پینکریاز سے رکن پارلیمنٹ کے طور پر دارالعوام کا حصہ بنے۔

اس وقت لیبر پارٹی بائیں بازو کے سیاست دان جیریمی کوربن کی قیادت میں اپوزیشن میں تھی۔ ترک وطن جیسے شعبوں میں حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کوربن نے سٹامر کو ہوم آفس کا ’شیڈو منسٹر‘ بنایا۔

برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سٹامر کو بریگزٹ کا ’شیڈو سیکرٹری‘ بنا دیا گیا۔ اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے دوسرا ریفرینڈم کروانے کی کوشش کی۔

PA Mediaسر کیر نے لیبر کی قیادت بائیں بازو کے جیریمی کوربن سے سنبھالی

سٹامر کو سنہ 2019 میں عام انتخابات کے بعد لیبر پارٹی کا سربراہ بننے کا موقع ملا جب عام انتخابات میں سنہ 1935 کے بعد پارٹی کو اب تک کی بدترین شکست ملی۔ اسی شکست نے جیریمی کوربن کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔

سٹامر نے بھی لیبر پارٹی کی قیادت بائیں بازو کے پلیٹ فارم سے ہی حاصل کی۔ انھوں نے توانائی اور پانی کی کمپنیوں کو قومیانے اور یونیورسٹی کے طلبا کے لیے مفت تعلیم کی وکالت کی تھی جبکہ کوربن نے لیبر کو بائیں بازو اور اعتدال پسندوں کے درمیان تقسیم کر دیا تھا۔

سٹامر کہتے تھے کہ وہ پارٹی کو متحد کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کوربن کے سخت گیر موقف کو بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ’مرکز کی طرف زیادہ جھکنے کے رجحان‘ کے بارے میں خبردار کیا تھا۔

تاہم بعد میں سٹامر نے کوربن کو لیبر پارٹی کی پارلیمانی پارٹی سے معطل کر دیا تھا کیونکہ کوربن کی قیادت کے دور میں ایک یہود مخالف تنازع سامنے آیا تھا۔

لیبر پارٹی میں بائیں بازو کے خیالات کے حامی بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ سٹامر پارٹی کے اندر ایک طویل عرصے سے اس بات کی کوشش کر رہے تھے کہ صرف اعتدال پسند اراکین انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہوں۔

سٹامر کا مختلف معاملات پر کیا موقف ہے؟

اپنی انتخابی مہم میں انھوں نے جو بھی کہا ہو، سٹامر پارٹی کو قابل انتخاب بنانے کے لیے مرکز کی طرف لے کر آئے ہیں۔

سوائے چند سخت گیر موقف والی سکیموں کے سٹامر نے برطانیہ کے خراب معاشی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے بہت سی مہنگی پالیسیوں کو ترک کر دیا۔

قومیانے کی پالیسی

سٹامر نے توانائی اور پانی کی کمپنیوں کے قومیانے کی اپنی سابقہ تجاویز کو مسترد کر دیا۔

تاہم انھوں نے گریٹ برٹش ریلویز نامی ایک نئی کمپنی کے تحت تقریباً تمام مسافر ریل خدمات کو پانچ سال کے اندر دوبارہ پبلک سیکٹر میں لے جانے کا وعدہ کیا ہے۔

تعلیم

سٹامر نے کالج کے طلبا کے لیے ٹیوشن فیس ختم کرنے کے اپنے سابقہ وعدے کو بھی ترک کر دیا۔ وضاحت دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت اسے برداشت نہیں کر سکے گی۔

مئی میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’یہ کافی حد تک ممکن ہے کہ ہمیں اپنے اس ارادے کو ترک کرنا پڑے کیوںکہ ہماری مالی صورتحال اب بہت مختلف ہے۔‘

تاہم سٹامر کا کہنا ہے کہ لیبر برطانیہ کے نجی سکولوں کی فیسوں پر ’ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘ وصول کرنا شروع کر دے گی۔

ماحولیات

لیبر پارٹی نے سنہ 2021 میں ماحول دوست توانائی کے منصوبوں پر سالانہ 35 ارب ڈالر خرچ کرنے کے وعدے کو بھی واپس لے لیا تاہم پارٹی کا الیکٹرک کاروں کی بیٹریز کے کارخانے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر بنانے کا منصوبہ اپنی جگہ قائم ہے۔

مخالف کنزرویٹو پارٹی نے سٹامر کی اس بات پر تنقید کی کہ یہ ایک کلیدی پالیسی سے کسی طرح ’اپنی جان چھڑانے کی‘ کوشش کر رہے ہیں۔

حال ہی میں سٹامر نے ’جی بی انرجی‘ نامی ایک نئی کمپنی کے ذریعے ماحول دوست توانائی میں آٹھ ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

انھوں نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ سنہ 2030 تک برطانیہ کی بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن میں فوسل فیول کا استعمال تقریباً مکمل طور پر ختم کروا دیں گا۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیےبرطانیہ کے عام انتخابات: لیبر پارٹی 14 برس بعد اقتدار میں، رشی سونک نے شکست تسلیم کرلیبرطانیہ الیکشن 2024: لندن کا وہ حلقہ جہاں پاکستان اور انڈین نژاد امیدواروں میں مقابلہ ہےGetty Images

اسرائیل غزہ تنازع

اکتوبر 2023 میں اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سٹامر نے غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔

ان کے موقف پر فلسطینی حامی ووٹرز کی طرف سے سخت رد عمل آیا اور لیبر پارٹی کے درجنوں ارکانِ پارلیمان نے ان سے اختلاف کیا اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

تاہم اس سال فروری میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’جنگ بندی ایسی ہو جو دیرپا رہے۔ اب یہی ہونا چاہیے۔‘

عوامی رائے جاننے کے لیے مارچ میں ’یو گو‘ نامی ادارے کی جانب سے کروائے گئے ایک پول میں سامنے آیا کہ برطانیہ میں 52 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ سٹامر اس معاملے سے صحیح طرح نہیں نمٹ رہے۔

سٹامر نے حکومت کی اس وقت بھی حمایت کی جب یمن کے حوثی جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل سے جڑے بحری جہازوں کی سروس پر حملے کے جواب میں برطانیہ نے حوثی اڈّوں پر بمباری کی تھی۔

یورپ

سنہ 2019 میں سٹامر نے بریگزٹ کے معاملے پر دوسرے ریفرینڈم کے لیے زور دیا تھا کہ آیا برطانیہ کو یورپی یونین سے نکل جانا چاہیے یا نہیں۔

اب وہ کہتے ہیں کہ بریگزٹ پر واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن وہ یورپی یونین کے ساتھ خوراک، ماحولیاتی اور مزدوری کے معیارات جیسی چیزوں پر تعاون کے نئے معاہدوں پر بات کریں گے۔

’مجھے ہارنے سے نفرت ہے‘Getty Images

سٹامر کے مخالفین اکثر ’سست رو‘ ہونے پر ان کامذاق اڑاتے ہیں لیکن سٹامر خود کو قواعد و قوانین کے سخت پابند کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے ایک ساتھی نے انھیں ’مسٹر رولز‘ کہہ کر پکارا۔

انھوں نے صرف ایک بار قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ جوانی میں انھیں پولیس نے بغیر ٹریڈ پرمٹ کے آئس کریم بیچتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ وہ آئس کریم ضبط کر لی گئی تھی تاہم مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

انٹرویوز میں وہ اپنی شخصیت کو زیادہ نمایاں نہیں ہونے دیتے لیکن اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان میں مقابلے کا جذبہ خوب موجود ہے۔

برطانوی اخبار گارڈیئن سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’مجھے شکست سے نفرت ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صرف شرکت بھی معنی رکھتی ہے لیکن میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں۔‘

برطانیہ الیکشن 2024: لندن کا وہ حلقہ جہاں پاکستان اور انڈین نژاد امیدواروں میں مقابلہ ہےبرطانیہ الیکشن 2024: برطانیہ کے سیاسی منظرنامہ پر ’غزہ جنگ‘ ایک اہم معاملہ کیوں بنا؟برطانیہ الیکشن 2024: اپنا ووٹ کسے اور کیوں دیں؟برطانیہ میں وقت سے پہلے انتخابات کیوں؟مسلمان ووٹ بینک اور ’غزہ جنگ‘ جس کی گونج برطانیہ کے سیاسی منظرنامے میں سنائی دے رہی ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More