کیا چاکلیٹ اور فاسٹ فوڈ کی بہت زیادہ طلب بھی ایک ’نشہ‘ ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 08, 2024

Getty Images

پچھلے چند برسوں سے اس امکان پر تحقیق کی جا رہی ہے کہ کیا ہمیں چند غذاؤں یا کھانوں کی لت لگ سکتی ہے؟ خاص طور پر وہ جن کا ذائقہ ہمیں بہت پسند ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر آپ نے شاید سنا ہوگا کہ چینی نشہ آور ہے لیکن سائنس اس سب کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

ذائقہ دار کھانوں کا لالچ

کسی بھی چیز کی لت لگنے یا نشے کو عموماً شراب، بھنگ یا کسی مخصوص طرز عمل سے ہی جوڑا جاتا ہے۔

پہلی قسم کے بارے میں امریکن سائیکیٹرک ایسوسی ایشن اپنے تشخیصی اور شماریاتی ’مینوئل آف مینٹل ڈس آرڈرز‘ میں اس کی تشخیص کے لیے معیار طے کرتی ہے۔ ان میں سماجی بگاڑ اور ان کے استعمال پر قابو کا نہ ہونا شامل ہے۔

نشہ آور اشیا کی لت سے مماثلت کی بنیاد پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ کھانے کی بھی لت لگ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر کھانے کی مقدار پر کنٹرول کھو دینا یا کھانے کی زبردست بھوک محسوس کرنا۔ یہ ایسا رویہ ہے جو انتہائی ذائقے دار کھانوں سے فعال ہوتی ہے۔

اس طرح ہم ان کھانوں کی وضاحت کرتے ہیں جو ہمیں دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ پسند ہوتے ہیں جیسے وہ جن میں سوڈیم یا سیچوریٹڈ فیٹ کی زیادہ مقدار شامل ہوتی ہے۔

دماغ پر وہ بالکل منشیات کے استعمال کی طرح اثر کرسکتے ہیں۔

Getty Imagesایک مسئلے کی تشخیص

تاہم کھانے کی لت کا تصور بہت ساری مشکلات پیدا کرتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کھانا جسمانی عمل ہے لہٰذا یہ طے کرنا کہ کیا مناسب ہے اور کیا نہیں، پیچیدہ ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف منشیات کی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ علاج کے لیے اس کا استعمال بند کر دیا جائے کیونکہ ہمیں زندہ رہنے کے لیے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ کھانے کی لت کو اکثر دیگر مسائل جیسے موٹاپے، زیادہ کھانے کی خرابی یا بلیمیا کے ساتھ کنفیوز کیا جاتا ہے۔ طبی طور پر ان خرابیوں کو الگ کرنا مشکل ہے۔

اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ کوئی شخص کھانے کی لت میں مبتلا ہوسکتا ہے تو یہ سوچنا منطقی لگتا ہے کہ اس کی تشخیص ممکن ہے۔

کھانے کی لت کو ایک خرابی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر نشے کے عادی افراد کے لیے پہلے سے موجود رویّوں کے علاوہ خوراک کے لیے اس طرز عمل کے لیے کوئی مخصوص تشخیصی معیار نہیں ہے۔

نہ تو امریکن سائیکیٹرک ایسوسی ایشن اور نہ ہی عالمی ادارہ صحت اسے ایک عارضہ سمجھتا ہے۔ تو ہم اس کی تشخیص کیسے کر سکتے ہیں؟

اس کی تشخیص بنیادی طور پر ایک سائیکومیٹرک ٹیسٹ سے کی جاتی ہے جسے ییل یونیورسٹی نے کچھ سال پہلے تیار کیا تھا جسے وائی ایف اے ایس کہا جاتا ہے۔

تب سے یہ کھانے کی لت کا پتہ لگانے اور تحقیقات کرنے کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ بن گیا ہے۔

Getty Imagesکیا کھانے بھی نشہ ہے؟

عام طور پر نشے کی کچھ خصوصیات خوراک کے استعمال کے معاملے میں دکھائی دیتی ہیں۔

مثال کے طور پر زیادہ وزن والے لوگ کھانے کی مقدار کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اسی سے انھیں صحت کے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ منشیات کے عادی افراد کے ساتھ ہونے والے واقعات سے بہت ملتا جلتا ہے۔

نیوروامیجنگ تکنیک سے کھانے کی لت کے دوران دماغ میں تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا۔ مثال کے طور پر دماغ میں ایسی تبدیلیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو منشیات کی لت جیسی ہیں۔

خاص طور پر میسولیمبک ڈوپامینجک سسٹم دونوں صورتوں میں تبدیل ہوتا ہے۔

دماغ کے ان حصوں میں نیورو ٹرانسمیٹر ڈوپامائن کی سطح میں اتار چڑھاؤ کا تعلق کھانے یا منشیات کے استعمال سے ہے اور یہ اشیا اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

Getty Imagesمخالف دلائل

کھانے کی لت پر زیادہ تر تحقیق کے لیے تجربے چوہوں پر کیے گئے ہیں۔ ان مطالعات میں ایک خاص قسم کے کھانے کی دستیابی کو کافی محدود رکھا گیا۔

یہ ایک ایسی چیز ہے جو حقیقی زندگی میں نہیں ہوتی ہے۔ خوشحال معاشروں میں انسان کسی بھی وقت کسی بھی قسم کی خوراک تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

کھانے کی لت کو دیگر عارضوں سے الگ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، خاص طور پر کھانے کی خرابی سے جڑے عارضے۔مثال کے طور پر زیادہ کھانے کے مسئلہ کا شکار مریضوں اور کھانے کی لت میں مبتلا افراد نے وائی ایف اے ایس پر یکساں نمبر حاصل کیے ہیں۔

آخر میں اس بات پر کوئی اتفاق نہیں ہے کہ آیا مسئلہ ایک مخصوص غذا ہے یا خود کھانے کا عمل ہے جو خرابی کے تصور کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔

Getty Imagesچینی کی لت کے بارے میں کیا خیال ہے؟

آپ نے شاید ایک سے زیادہ بار سنا ہوگا کہ ہم چینی کے عادی ہیں۔ اس لحاظ سے اسے کھانے کی لت کی ایک ذیلی قسم سمجھا جاسکتا ہے۔ اس میں الٹرا پروسیسڈ فوڈز کا زیادہ استعمال شامل ہوگا جس میں شکر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جو اس کی جسم کو طاقت دینے کی خصوصیات کی وجہ سے نشہ آور ہوتی ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کم از کم انسانوں میں دماغکے لیے منشیات کے طور پر کام کرسکتا ہے۔

چینی یا میٹھے کے معاملے میں کچھ مطالعات نے چاکلیٹ یا فاسٹ فوڈ کی لت کے ممکنہ وجود کا بھی پتہ لگایا ہے لیکن اس سلسلے میں ابھی بہت سی تحقیق کی ضرورت ہے۔

اگرچہ یہ واضح محسوس ہوتا ہے کھانے کی وجہ سے کچھ تو ہو رہا ہے لیکن کھانے کے استعمال پر لاگو ہونے والی لت کے تصور میں اب بھی شبہات ہیں جن کی تحقیق کی ضرورت ہے۔ آج یہ ایک مبہم اصطلاح ہے کم از کم کلینیکل اعتبار سے۔

کچھ کھانوں کو دوسروں پر ترجیح دینا ایک ایسی چیز ہے جو تمام انسان کرتے ہیں اور عام الفاظ میں ہم نے یہ سب سیکھا ہے۔

ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کیوں کچھ کھانوں کا استعمال کچھ لوگوں کے لیے بہت پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ تبھی ہم ان مسائل کو روک سکتے ہیں اور ان میں مبتلا لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔

یہ تحریر دی کنورسیشن پر شائع ہوئی تھی جس کا یہاں ترجمہ کیا گیا ہے۔

کیا ہمیں دن میں تین بار کھانا کھانا چاہیے؟آپ کے کھانے کی پسند کا راز آپ کی ’زبان‘ کی بناوٹ میں چھپا ہےکیا آپ کی چاکلیٹ کھانے کی عادت ماحول اور لوگوں کو نقصان پہنچا رہی ہے؟کیا زیادہ کھانے سے پیٹ کا سائز بڑھ جاتا ہے؟ذہن صحتمند کھانے کی جانب راغب ہو سکتا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More