بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہروں میں 83 افراد ہلاک: طلبہ کا احتجاج شیخ حسینہ واجد کے خلاف سول نافرمانی تحریک میں کیسے بدلا

بی بی سی اردو  |  Aug 05, 2024

Getty Images

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والی طلبہ تحریک شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف تحریک میں بدل چکی ہے اور پرتشدد مظاہروں میں اتوار کے دن 83 افراد کی ہلاکت کے بعد وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے۔

جولائی میں شروع ہونے والی اس تحریک میں اب تک مجموعی طور پر 280 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

ایسے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ ولکر ترک نے بنگلہ دیش کی حکومت اور سکیورٹی فورسز پر زور دیا ہے کہ وہ ’تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حیران کن تشدد کا خاتمہ کریں۔‘

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سوموار کے دن بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں بڑے مظاہرے متوقع ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ’مزید تباہی اور جانی نقصان‘ کے اندیشے کا اظہار کیا گیا ہے۔

ولکر ترک نے کہا ہے کہ ’حکومت احتجاج میں پرامن شرکا کو نشانہ بنانا چھوڑ دے اور مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔‘

تاہم وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ اجلاس کے بعد بیان دیا کہ ’مظاہرین طلبہ نہیں، بلکہ دہشت گرد ہیں جو ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

اتوار کے دن ملک کے وزیر قانون انیس الحق نے بی بی سی نیوز کے ایک پروگرام میں کہا کہ حکام تحمل سے کام لے رہے ہیں۔ ’اگر ہم تحمل نہ دکھا رہے ہوتے تو خون ریزی ہوتی۔ ہماری برداشت کی بھی حد ہے۔‘

’میدان جنگ‘

اتوار کی صورت حال پر ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پورا شہر ’میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔‘ وہ دارلحکومت ڈھاکہ کی بات کر رہے تھے جہاں ان کے مطابق کئی ہزار مظاہرین کے ہجوم نے ایک ہسپتال کے باہر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگا دی۔

اتوار کو مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے سے کرفیو کا اعلان کیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق کرفیو غیر معینہ مدت تک نافذ رہے گا۔

اس سے قبل سنیچر کے روز طلبہ تحریک کے رہنماؤں میں شامل ناہید اسلام نے ڈھاکہ میں ہزاروں کے اجتماع میں خطاب کے دوران کہا کہ ’شیخ حسینہ کو صرف استعفیٰ ہی نہیں دینا چاہیے بلکہ ان پر قتل و غارت، لوٹ مار اور بدعنوانی کا مقدمہ ہونا چاہیے۔‘

دارالحکومت ڈھاکہ میں اس وقت موبائل فونز پر انٹرنیٹ کی سہولت معطل کر دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی بعض کمپنیوں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے احکامات موصول ہونے پر انھوں نے سروسز معطل کی ہیں۔

یاد رہے کہ انٹرنیٹ کی فور جی اور تھری جی سروسز کے بغیر لوگ اپنے موبائل پر انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے رابطہ نہیں کر سکتے۔

بنگلہ دیش میں مظاہرین نے اتوار سے شروع ہونے والی ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا اور شہریوں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس یا کوئی بل ادا نہ کریں۔ طلبہ کی جانب سے تمام فیکٹریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

ملک کی موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر سابق آرمی چیفس اور آرمی افسران نے ملک کی مسلح افواج سے عام طلبہ کے ہجوم کا سامنا نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

سابق فوجی افسران نے اتوار کی سہ پہر ڈھاکہ میں ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جس کا مقصد ملک کی موجودہ صورتحال میں بحران کو حل کرنے کے حوالے سے تجاویز دینا تھا۔ ایک تحریری بیان میں سابق آرمی چیف اقبال کریم نے کہا کہ ’فوری طور پر مسلح افواج کو واپس آرمی کیمپ میں لانا اور انھیں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ضروری ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بحران کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے پہل کریں۔ محب وطن مسلح افواج کو طلبہ کے ہجوم کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔‘

Getty Imagesطلبہ کا احتجاج، نو نکاتی مطالبات کیا تھے؟

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریبا نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔

سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے جنھیں بنگلہ دیش میں ’آزادی کی جنگ کا ہیرو‘ مانا جاتا ہے تاہم طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ نظام متعصبانہ ہے اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملنی چاہیے۔

احتجاج میں شریک طلبہ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ انھیں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے اس بیان نے طیش دلایا جس میں ان طلبا کے مطابق وزیر اعظم نے کوٹہ نظام کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والے ’رضاکاروں‘ سے تشبیہ دی۔ بنگلہ دیش میں یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جنھوں نے مبینہ طور پر 1971 کی جنگ میں پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔

ایسے میں ملک کے دارالحکومت ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران اس نظام کے مخالفین اور برسراقتدار عوامی لیگ کے طلبہ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن کے دوران لاٹھیوں اور اینٹوں کا استعمال ہوا، پولیس کی جانب سے آنسو گیس برسائی گئی اور ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔

مظاہرین نے حکومت کو نو نکاتی مطالبات کی فہرست دی اور پھر عدلیہ کی مداخلت سے بظاہر انتظامیہ نے یہ مطالبات تسلیم بھی کر لیے مگر پھر بھی احتجاج اور مظاہروں کا یہ سلسلہ رک نہ سکا۔

BBC

پرتشدد مظاہروں کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم میں تبدیلی کا حکم دیا ہے جس کے مطابق ’1971 کی جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کے اہلِ خانہ کو ملازمتوں کا اب صرف پانچ فیصد حصہ ملے گا‘ تاہم مظاہرین نے مارے جانے والے طلبہ کو انصاف ملنے تک ملک گیر مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والی وکیل رضوانہ مسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت نے مطالبات تسلیم نہیں کیے اور اس کے بجائے احتجاج کرنے والوں کے خلاف ہی کارروائیاں شروع کر دیں اور یوں ہر روز چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا، جن میں متعدد لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے۔

ان کے مطابق اتوار کو صورتحال زیادہ اس وجہ سے خراب ہوئی کہ حکومتی جماعت عوامی لیگ نے اپنی طلبہ تنظیم ’بنگلہ دیش چھاترو لیگ‘ کو میدان میں اتارا اور پھر پرتشدد مظاہروں میں متعدد لوگ ہلاک ہو گئے۔

رضوانہ کے مطابق ’پہلے تو طلبہ کے نو مطالبات تھے مگر اس وقت عوام ایک ہی مطالبے پر باہر نکلے ہیں کہ اب وزیراعظم شیخ حسینہ واجد استعفیٰ دیں۔‘

ان کے مطابق اس وقت صرف ایک ہی جماعت ملک میں فعال ہے اور وہ حکومتی جماعت عوامی لیگ ہے۔ ان کے مطابق متعدد سیاسی رہنما پہلے ہی ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں۔

Getty Images

ڈھاکہ میں مقیم صحافی ندیمہ جہان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب سے کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو حکومت نے ان مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کی پالیسی اختیار کی۔‘

ان کے مطابق جب بظاہر یہ مطالبات تسلیم کرنے کے بارے میں خبریں سامنے آئیں تو اس کے بعد بھی کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرا جب حکومت اور سکیورٹی اہلکاروں نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کی ہو۔

ندیمہ کے مطابق ’ہر روز ہلاکتوں کی خبروں اور گرفتاریوں کے سلسلے نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔‘ ان کے مطابق اس وقت تک تقریباً 10 ہزار لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

رضوانہ کے مطابق ’جب لوگوں نے دیکھا کہ گولیاں برس رہی ہیں اور وہ مر رہے ہیں تو وہ حکومت کے خلاف ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے یہ سوال کیا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ہماری زندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق ’اب لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ مطالبات تسلیم ہوں یا نہ ہوں یہ بعد کی بات ہے مگر پہلے وزیراعظم کو گھر جانا ہوگا۔‘

Getty Images’یہ لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا‘: بنگلہ دیش میں عوام کو حسینہ واجد کی حکومت پر اتنا غصہ کیوں ہے؟بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے: ان والدین کا دکھ جنھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کھو دیبنگلہ دیش میں پرتشدد احتجاج کے دوران دل دہلا دینے والی ویڈیوز کی حقیقت کیا؟

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے علاوہ گذشتہ 15 سالوں کے دوران ملک میں جمہوری سرگرمیوں کے لیے آزادی بھی کم ہو گئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گذشتہ 15 سالوں میں 80 سے زائد افراد جن میں سے اکثریت حکومتی ناقدین ہیں، لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کے اہل خانہ کو ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

رضوانہ کے مطابق ’حکومت اس سارے معاملے کو سیاسی رنگ دینا چاہتی ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ یہ طلبہ کے کوٹہ سسٹم سے زیادہ حکومت کے خلاف ایک سازش تھی۔‘

ان کے مطابق اس کے بعد جماعت اسلامی اور اس کے طلبہ ونگ کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ رضوانہ کے مطابق ’حکومت نے اس بات کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا کہ یہ سیاسی نہیں بلکہ طلبہ کے حقیقی مطالبات تھے۔‘

رضوانہ کے مطابق ’اس وقت بنگلہ دیش میں کوئی جماعت بھی اپوزیشن نہیں کر پا رہی ہے اور نہ کوئی سیاسی جماعت حکومت کے آگے کھڑی ہو سکتی ہے۔‘ رضوانہ کے مطابق اب صورتحال عوام بمقابلہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد ہے۔

Reuters

رضوانہ کے مطابق حالات مزید کشیدگی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں حکومت نے ایک پرامن احتجاج کو پرتشدد کارروائیوں سے ملک کے کونے کونے تک پھیلا دیا۔

ان کے مطابق مظاہرین کی طرف سے کرفیو کے باوجود پیر کو ڈھاکہ میں لانگ مارچ کی بھی کال دی گئی ہے۔ رضوانہ کے مطابق ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ شیخ حسینہ واجد نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت سے مشاورت شروع کر دی ہے۔

ملک میں ایسے خدشات پائے جاتے ہیں کہ حسینہ واجد بہت حد تک آمرانہ طرزِ حکومت کو اپنا رہی ہیں اور حکومت پر اختلاف رائے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے لیکن حکومتی وزرا ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

رضوانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت ہنگامے چل رہے ہیں۔ انٹرنیٹ بند اور فون سروس بند ہے۔ ایئرپورٹ بند کر دیے گئے ہیں۔ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔‘

رضوانہ کے مطابق ایک ٹی وی چینل جو مظاہرین اور طلبہ کی کوریج کر رہا تھا، اب اس کی نشریات بھی بند کر دی گئیں ہیں اور اب وہ ٹی وی چینل صرف پرانی نشریات ہی بار بار چلا رہا ہے۔

بنگلہ دیش میں پرتشدد احتجاج کے دوران دل دہلا دینے والی ویڈیوز کی حقیقت کیا؟بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے: ان والدین کا دکھ جنھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کھو دیبنگلہ دیش میں کرفیو: فوج بلانے کے انتہائی اقدام کی ضرورت کیوں پڑی؟’یہ لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا‘: بنگلہ دیش میں عوام کو حسینہ واجد کی حکومت پر اتنا غصہ کیوں ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More