طلبہ کےاحتجاج سے مجبور ہو کر مستعفی ہونے اور بھارت فرار ہونے والی سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد آخری لمحات تک اقتدار چھوڑنے کو تیار نہ تھیں۔
بنگلہ دیشی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقتدار چھوڑنے سے کچھ پہلے حسینہ واجد نے مظاہرین کے خلاف کارروائیوں پر آئی جی پولیس کو سراہا تھا۔
حکومت کا پاکستانی شہریوں کو لبنان چھوڑنے کا مشورہ
حسینہ واجد نے کہا کہ پولیس بہت اچھا کام کر رہی ہے، جواب میں آئی جی بولے لیکن حالات اب اس جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں پولیس حکومت کے سخت مؤقف پر کھڑی نہیں رہ سکے گی لیکن حسینہ واجد یہ ماننے کو تیار نہ تھیں۔
اخبار کے مطابق سینئر حکام نے حسینہ کے اقتدار چھوڑنے سے انکار پر ان کی بہن شیخ ریحانہ کو الگ کمرے میں لے جا کر کہا کہ جا کر حسینہ واجد کو سمجھائیں کہ حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں لیکن شیخ ریحانہ کی بات بھی حسینہ واجد نے رد کردی۔
شیخ حسینہ واجد کے شوہر نے کراچی کے اٹامک انرجی ریسرچ سینٹرمیں ملازمت کی
اس موقع پر حکام نے حسینہ واجد کے بیٹے صجیب واجد جوائے کو فون کیا جو اس وقت ملک سے باہر تھے، واجد جوائے نے اس کے بعد ماں کو فون کرکے مستعفی ہونے پر راضی کیا جس پر حسینہ واجد نے شرط رکھی کہ وہ تقریر ریکارڈ کروانا چاہتی ہیں۔
لیکن اسی وقت ایک بڑے مجمع کے وزیراعظم ہاؤس کی طرف مارچ کی اطلاعات آنا شروع ہوگئیں، خفیہ اداروں نے اندازہ لگایا کہ یہ مجمع 45 منٹ میں وزیراعظم ہاؤس پہنچ جائے گا، اس لیے شیخ حسینہ کو تقریر ریکارڈ نہیں کرنے دی گئی۔
حسینہ واجد کا وہ’’ ایک لفظ ‘‘جس نے اسے تخت سے بے تخت کردیا
دوپہر اڑھائی بجے استعفے کی کارروائی مکمل ہوئی اور حسینہ واجد اپنی بہن ریحانہ کے ساتھ فوجی ہیلی کاپٹر میں بھارت چلی گئیں۔یاد رہے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد 20سال 234دن ملک کی وزیراعظم رہیں۔