Getty Images
ہفتوں سے بنگلہ دیش میں جاری پُرتشدد مظاہروں کے بعد شیخ حسینہ نے پانچ اگست کو بطور ملک کی وزیراعظم استعفیٰ دے دیا تھا اور وہ اس کے فوراً بعد انڈیا روانہ ہو گئی تھیں۔
انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر پہلے ہی دو ٹوک انداز میں واضح کر چکے ہیں کہ انڈیا شیخ حسینہ کی آخری منزل نہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم نے استعفیٰ دینے کے بعد مختصر دورانیے کے لیے انڈیا کا دورہ کرنے کی اجازت مانگی تھی۔
شیخ حسینہ کے صاحبزادے سجیب واجد جوئے کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان کی والدہ نے کسی بھی ملک سے سیاسی پناہ کی درخواست نہیں کی۔
ایسی صورتحال میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ انڈیا کے بعد شیخ حسینہ کی منزل کون سا ملک ہو گا اور کیا برطانیہ، امریکہ یا کوئی دوسرا مغربی ملک انھیں سیاسی پناہ دے گا؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ دیگر ممالک اس معاملے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
’ماں کو گلے نہیں لگا سکتی‘: سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ کی انڈیا میں بیٹی سے ملاقات کیوں نہیں ہو سکی؟’فوجی اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلائیں گے‘: عوام کی نفرت، بے بس سکیورٹی اہلکار اور اقتدار کے آخری لمحات میں حسینہ واجد کی ضدمودی کی حمایت یافتہ شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ: ’افغانستان میں جو امریکہ کے ساتھ ہوا وہی ڈھاکہ میں انڈیا کے ساتھ ہوا‘’مغربی ممالک میں پناہ ملنا مشکل ہے‘
انٹرنیشنل کرائسز گروپ سے منسلک محقق ٹام کینے نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ کسی مغربی ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنا شیخ حسینہ کے لیے مشکل ہ وگا، شاید ایسا ممکن ہی نہ ہو۔
بنگلہ دیش میں حکومت ختم ہونے سے قبل آخری اطلاعات کے مطابق آخری وقت تک شیخ حسینہ نے پولیس اور فوج کو ہدایات دی تھیں کہ وہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کریں۔
ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشین سینٹر سے بطور ڈائریکٹر منسلک مائیکل کوگلمین بھی سمجھتے ہیں کہ شیخ حسینہ کے لیے کسی مغربی ملک میں پناہ حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔
ملک میں شیخ حسینہ کی حکومت کے آخری دنوں میں پیش آنے والے واقعات پر متعدد مغربی ممالک بھی حیران اور پریشان تھے۔
مائیکل کوگلمینن کا مزید کہنا تھا کہ ’جس طرح سے سکیورٹی فورسز نے پُرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا اور جیسے شیخ حسینہ کی حکومت نے ان کے خلاف ظلم کا طریقہ اپنایا، اس پر مغربی ممالک کو شددید تحفظات ہیں۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ حسینہ کے خاندان کے متعدد اراکین مغربی ممالک میں مقیم ہیں۔ انسانی حقوق کی متعدد بین الاقوامی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے بھی طلبہ کے خلاف طاقت کے استعمال کے معاملے کو اُٹھایا۔ لیکن پھر بھی شیخ حسینہ کو طاقت کے استعمال سے نہیں روکا جا سکا۔‘
ٹوم کینے کہتے ہیں کہ ’اقتدار میں رہنے کے لیے شیخ حسینہ مزید لوگوں کو قتل کرنا چاہتی تھیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر عالمی ادارہ برائے انصاف بنگلہ دیش میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات کی تحقیقات کرتی ہے تو صورتحال تبدیل ہو جائے اور اس کے بعد شاید شیخ حسینہ برطانیہ میں بھی محفوظ نہ ہوں۔
Getty Imagesشیخ حسینہ اس وقت انڈیا میں موجود ہیں
لیکن ماضی میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جب آمروں کو یورپی ممالک اور امریکہ نے پناہ دی ہو۔
سعودی عرب نے بھی مسلم ممالک میں معذول ہونے والے متعدد آمروں کو ماضی میں ملک میں پناہ دی ہے۔
مغربی ممالک شیخ حسینہ کو کیوں پناہ دینے سے گریزاں؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کی ابتدا کے بعد یورپ اور امریکہ کی جانب سے آمروں کو سیاسی پناہ دینے کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے محقق ٹوم کینے کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں رونما ہونے والے واقعات سب نے دیکھ لیے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا پر متعدد تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں۔ 20 یا 30 سال قبل یہ واقعات اتنی تیزی سے دنیا بھر میں لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔‘
’جس بڑے پیمانے پر وہاں ہلاکتیں ہوئی ہیں اس سے شیخ حسینہ کی ساکھ پر منفی اثر پڑا ہے۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ اور یورپ نے اپنے دوستوں کو پناہ دی تھی، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ شیخ حسینہ کی ذمہ داری لیں گے۔‘
ٹوم کینے کے مطابق ماضی میں وہ متعدد مغربی ممالک کی پسندیدہ شخصیات کی فہرست میں شامل رہی ہیں لیکن وہ کبھی دوست کی حیثیت نہیں حاصل کر سکیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ لاکھوں بنگلہ دیشی یورپ اور امریکہ میں رہتے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد نے نہ صرف طلبہ کے احتجاج کی حمایت کی تھی بلکہ شیخ حسینہ کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
ٹوم کینے کے مطابق ان تمام عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے مغربی حکومتیں شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دینے سے پہلے متعدد بار سوچیں گی۔
طاقت سے محرومی کے بعد آمر کہاں جاتے ہیں؟
جب آمر طاقت سے محروم ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے اپنے ملک میں رہنا بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد یا انھیں جیل جانے کا ڈر ہوتا ہے یا پھر جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اسی سبب طاقت کے ایوانوں سے نکلنے کے بعد زیادہ تر آمر ملک سے فرار ہونے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ لوگوں کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہوتے ہیں۔
سپین کی یونیورسٹی آف بارسلونا کے پروفیسر عبدالسکریبا فوک اور امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیل کرامرچ نے فوجی آمروں کی جلا وطنی پر مفصل تحقیق کر رکھی ہے۔
اکثر فوجی آمروں کی جلا وطنی تنازعات کے خاتمے کا سبب بھی بنتی ہے۔
مثال کے طور پر سنہ 1979 میں یوگینڈا کے باغی اور تنزانیہ کی فوج کمپالا کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔ اس صورتحال میں یوگینڈا کے فوجی آمر پہلے لیبیا فرار ہوئے اور پھر بعد میں انھوں نے سعودی عرب میں پناہ لے لی۔
اس کے علاوہ سنہ 1986 میں فلپائن کے فوجی آمر مارکوس فرڈیننڈ عوام کی بغاوت کے سبب ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور امریکہ کی مدد سے فرار ہو گئے۔
اس کے علاوہ ہیٹی کے فوجی آمر جین کلوڈ ڈوویلیئر بھی اقتدار سے محروم ہونے کے بعد فرانس فرار ہو گئے تھے۔
Getty Imagesیوگنڈا کے سابق فوجی صدر عیدی امین
ان تمام مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فوجی آمروں کے فرار ہونے کے بعد ان ممالک میں نہ صرف انتخابات منعقد ہوئے بلکہ اختیارات کا انتقال بھی پُرامن طریقے سے مکمل ہوا۔
لیکن اگر یہ آمر انتخابات میں حصہ لیتے تو صورتحال کافی مشکل ہو سکتی تھی۔
اس طرح سنہ 2011 میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے کچھ ممالک میں ’عرب سپرنگ‘ آئی یعنی کے عوام نے اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کردی۔ ان واقعات کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہاں دہائیوں سے ایک ہی حکمران اقتدار میں تھے وہ بھی بغیر کسی انتخابی عمل کے۔
آمروں کا مقدر
’عرب سپرنگ‘ کے ذریعے سب سے پہلی تبدیلی تیونس میں آئی جہاں بن علی حاکم تھی۔ تقریباً 23 برس اقتدار میں رہنے کے بعد وہ عوامی غصے کے بعد سعودی عرب چلے گئے اور بعد میں وہیں وفات پا گئے۔
مصر کے صدر حُسنی مبارک کو بھی اس طرح کی صوتحال کا کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ تقریباً تین دہائیوں تک اقتدار میں رہے لیکن عوامی بغاوت شروع ہونے کے صرف 18 روز بعد انھیں اپنی کُرسی چھوڑنی پڑی۔
انھوں نے مصر میں اقتدار فوج کو سونپ دیا تھا لیکن انھیں ملک سے فرار ہونے کا موقع نہیں مل سکا اور پھر انھیں 2012 میں عمر قید کی سزا سُنائی گئی۔
صرف چھ مہینے بعد ان کی سزا معطل کر دی گئی تھی اور ان کے مقدمے پر دوبارہ سماعت کی گئی تھی۔ انھیں 2017 تک قاہرہ کے ایک عسکری ہسپتال میں قید رکھا گیا، تاہم بعد میں مصر کی سپریم کورٹ نے ان کو مقدمے سے بری کر دیا اور ان کی رہائی کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے۔
بعد میں وہ 91 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔
لیبیا میں طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے معمر قذافی بھی ’عرب سپرنگ‘ کے ذریعے اقتدار سے نکالے گئے۔ ملک میں جاری احتجاجی مظاہروں کو انھوں نے طاقت سے روکنے کی کوشش کی، جس کے سبب ملک میں خانہ جنگی پھیلی۔
جب معمر قذافی طاقت سے محرومی کی بعد فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے تو انھیں باغیوں نے پکڑ لیا اور وہ تشدد کے سبب مارے گئے۔
ان کے علاوہ سنہ 1979 میں ایران میں انقلاب کے نتیجے میں رضا شاہ پہلوی کو بھی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ بطور ایران کے حاکم ان کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے تھے لیکن پھر بھی انھیں مصر میں جلا وطنی کاٹنی پڑی۔
ایران میں لوگوں کے غم و غصے کو مدِنظر رکھتے ہوئے مغربی ممالک نے خود کو رضا شاہ پہلوی سے دور کر لیا۔
Getty Imagesمعمر قذافی طاقت سے محرومی کی بعد فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف ان سویلین رہنماؤں میں سے ایک تھے جو انتخابات جیت کر ملک کے وزیراعظم بنے تھے لیکن سنہ 1999 میں فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔
ملک میں نواز شریف کو پھانسی کے تختے تک لے جانے کی تیاری کی جا رہی تھی لیکن اس وقت کے امریکی صدر بِل کلنٹن اور سعودی عرب کے بادشاہ کی طرف سے آنے والے دباؤ کے سبب نواز شریف نے سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی اپنا لی تھی۔
’بنگلہ دیش دوسرا پاکستان بننے جا رہا ہے‘: شیخ حسینہ کے بیٹے نے یہ موازنہ کیوں کیا اور کیا یہ حقائق پر مبنی ہے؟’فوجی اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلائیں گے‘: عوام کی نفرت، بے بس سکیورٹی اہلکار اور اقتدار کے آخری لمحات میں حسینہ واجد کی ضد’یہ ہو گیا بنگلہ دیش کا نو مئی‘: ڈھاکہ کے وہ مناظر جنھوں نے لاہور کے جناح ہاؤس کی یاد تازہ کر دی