اسرائیلی فوج اس وقت غزہ میں جنوبی سرحد کے ساتھ ایک اہم راستے پر تارکول کی سڑک بنانے میں مصروف ہے۔
اس سڑک کی تعمیر کو بعض مبصرین اس بات کا اشارہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل یہاں سے مستقبل قریب میں اپنی افواج پوری طرح سے بلانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ وہ راستہ ہے جس کی تعمیر اسرائیل اور حماس کے درمیان نئی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی پر ہونے والے مذاکرات میں رخنہ ڈال رہی ہے۔ اس کی وجہ سے معاہدے پھنسا ہوا ہے۔
بی بی سی ویریفائی نے سیٹیلائٹ امیجری، تصاویر اور ویڈیوز کا تجزیہ کیا ہے جن سے یہ واضح ہے کہ اسرائیل غزہ ایک تنگ پٹی سے ملحقہ علاقے پر تارکول کی سڑک بنانے کا کام کر رہا ہے۔
یہ تنگ پٹی مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد کے ساتھ گزرتی ہے اور عسکری حکمت عملی کے لحاظ سے بہت اہم ہے اور اسے اسرائیلی فوج میں ’فلاڈیلفیا کوریڈور‘ کے کوڈ نام سے جانا جاتا ہے۔
26 اگست سے پانچ ستمبر تک وقفے وقفے سے لی گئی سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ سرحد پر نصب خاردار تاروں کے ساتھ ساحل کے اندر 6.4 کلومیٹر تک ایک نئی سڑک بچھائی جا چکی ہے۔
BBCسیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویر میں وقت کے ساتھ سڑک کی تعمیر میں اضافہ
چار ستمبر کو پوسٹ کی گئی ایک آن لائن ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سرحدی باڑ سے متصل پٹی کے ساتھ تعمیراتی کام جاری ہے۔
بھاری مشینوں کی مدد سے اس علاقے میں اتنی چوڑی تارکول کی سڑک بنائی جا رہی ہے جس پر باآسانی دو بڑی گاڑیاں گزر سکتی ہیں۔
ہم نے نیچے نظر آنے والی دو تصاویر کا موازنہ بھی کیا ہے۔ ان میں سے ایک تارکول کی سڑک بنانے سے پہلے کی ہے اور دوسری تازہ ہے جس میں تارکول کی سڑک بنی نظر آئی ہے۔
بی بی سی ویریفائی نے اس مقام کی تصدیق کی ہے اور اس میں وہی پٹی دکھائی دیتی ہے جو سرحدی باڑ سے ملحقہ ہے۔
اس راہداری پر رفح کراسنگ بھی ہے جو غزہ پٹی کو مصر سے ملاتی ہے۔ یہ غزہ کی واحد کراسنگ ہے جس پر اسرائیل کا براہ راست کنٹرول نہیں ہے۔ یہ مصر سے اہم رسد کے لیے واحد زمینی راستہ بھی ہے۔
یہ 12.6 کلومیٹر طویل سرحد مصری سرحد کے ساتھ کریم شالوم سے بحیرۂ روم تک جاتی ہے۔ اسرائیلی فوج اسے فلاڈیلفیا روٹ یا محور کا نام دیتی ہے جبکہ فلسطینی اسے صلاح الدین محور کہتے ہیں۔
کنگز کالج لندن کے سکول آف سکیورٹی سٹڈیز کے سینیئر لیکچرر آندریاس کریگ کہتے ہیں کہ ’یہ وہ جگہ ہے جہاں کوئی واضح حدبندی نہیں کی گئی ہے۔دراصل یہ ایک تصوراتی راہداری ہے جسے سرحد سے ملحقہ علاقے کی طور پر سمجھا اور بیان کیا جاتا ہے۔‘
اس سے قبل اسرائیل سنہ 2005 میں اس علاقے سے پیچھے ہٹی تھی۔ اس وقت نہ صرف اپنی افواج کو واپس بلایا تھا بلکہ وہاں آباد ہونے والوں کو بھی واپس بلا لیا تھا۔
اسرائیلی وفد کا دوحہ میں رات ’طیارے میں گزارنے کا خیال‘ اور وہ فون کال جس نے ایران کا ’متوقع حملہ‘ رکوا دیااسرائیل کا مسجد اقصیٰ کے صحن میں یہودی عبادت گاہ بنانے کا ارادہ: کیا مذہبی جنگ بھڑک سکتی ہے؟عرب ملک اُردن نے اسرائیل پر داغے گئے ڈرون کیوں مار گرائے اور یہ ملک تاریخی اعتبار سے کہاں کھڑا ہے؟خواتین پر مشتمل اسرائیل کا وہ فوجی یونٹ جو جانتا تھا کہ حماس ’بڑا حملہ‘ کرنے کے قریب ہےBBCاسرائیلی فوج اسے فلاڈیلفیا روٹ یا محور کا نام دیتی ہے جبکہ فلسطینی اسے صلاح الدین محور کہتے ہیں
لیکن اسرائیلی فوج رواں سال سات مئی کو ایک بار پھر ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ فلاڈیلفیا راہداری میں داخل ہو گئی۔ اور پھر داخلے کے چند ماہ بعد سڑک کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا ہے۔
فلاڈیلفیا کوریڈور میں داخل ہوتے ہی اسرائیلی فوج نے رفح کراسنگ پر قبضہ کر لیا اور پھر راہداری کے دونوں طرف شمال مغرب کی طرف بڑھ کر رفح شہر میں داخل ہونا شروع کر دیا۔
گذشتہ چار ماہ میں اسرائیلی فوج راہداری کے قریب سینکڑوں مکانات کو مسمار کر چکی ہے۔ اسرائیلی فوج نے یہاں فضائی اور توپ خانے سے حملہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے علاقے میں بارودی مواد اور بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے مکانات کو مسمار کرنا شروع کر دیا۔
بحیرۂ روم کے ساتھ سرحد کے خاتمے پر موجود القریہ السویدیہ نامی گاؤں کا مکمل خاتمہ کر دیا گا ہے اور اب وہ علاقہ اسرائیلی اڈے کے طور پر کام کر رہا ہے۔
نیچے دی گئی دو تصاویر اس بات کے شواہد ہیں کہ بستی کو کس طرح سے زمین بوس کیا گیا ہے۔
BBC8 مئی اور 22 اگست کی تصاویر جس میں پورے قصبے کو زمین بوس کر دیا گياامن مذاکرات کے لیے راہداری کی اہمیت
ڈاکٹر کریگ کا کہنا ہے کہ 'سڑک کی تعمیر کی وجہ سے مذاکرات کاروں اور ثالثوں پر جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کے معاہدے کے متعلق دباؤ بڑھ گیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی اس سے یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ناگزیر ہے اور اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ ’سڑک کی تعمیر سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی مستقبل قریب میں غزہ کی پٹی سے اپنی فوج مکمل طور پر پیچھے ہٹانا نہیں چاہتی ہے۔'
انھوں نے رواں سال کے شروع میں شمالی غزہ میں اسرائیلی فوج کی طرف سے تعمیر کردہ ایک سڑک کا حوالہ دیا جسے نیٹزاریم کوریڈور کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ نیٹزاریم کوریڈور میں کی گئی سرمایہ کاری کو دیکھیں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ اسرائیلی فوج جلدی وہاں سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔ انھوں نے یہاں ٹھوس رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹاورز اور دیواروں کے ساتھ فوجی اڈے بھی بنائے گئے ہیں۔ اگر یہاں سے واپسی کا ارادہ ہوتا تو اتنے وسیع انتظامات نہ ہوتے۔'
BBCاس بستی میں اب اسرائيلی اڈہ بنایا جا رہا ہے
اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے فلاڈیلفیا کوریڈور کو حماس کی 'لائف لائن' قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہاں اسرائیل کی فوجی موجودگی کسی بھی معاہدے کی ایک اہم شرط ہونی چاہیے۔
انھوں نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا: 'اگر آپ حماس کی فوج اور حکمرانی کی صلاحیتوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، تو آپ اسے دوبارہ مسلح کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ لہذا آپ کو اس راہداری کو کنٹرول کرنا ہوگا۔'
اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حالوی نے 14 اگست کو کہا: 'فلاڈیلفیا اہم ہے کیونکہ یہ ہماری پوزیشن کو مضبوط کرتا ہے۔ سیاسی سطح پر جو کچھ بھی طے کیا جاتا ہے اس کے لیے ہم تمام طرح کی صورت حال کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔'
مصر کے ریٹائرڈ میجر جنرل اور عسکری حکمت عملی کے مبصر ڈاکٹر سمیر فراج کہتے ہیں کہ اسرائیل کا مقصد 'نفسیاتی جنگ چھیڑنا ہے۔ میڈیا میں جنگ کے لیے یہ سڑک راستہ ہموار کرتی ہے۔ اس کے ذریعے اسرائیل مختلف جماعتوں کو پیغام دے رہا ہے کہ وہ یہاں سے نہیں جانے والے۔'
بی بی سی نے اسرائیلی فوج سے پوچھا کہ وہ یہاں نئی سڑک کیوں بنا رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
اسرائیل سرنگوں کو مسمار کرنے پر اٹل
نتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس نے راہداری کے نیچے سرنگوں کا استعمال سات اکتوبر سے پہلے مصر سے ہتھیار اور لوگوں کو لانے کے لیے کیا تھا۔
ان کا خیال ہے کہ یہاں اسرائیلی افواج کی تعیناتی حماس کو دوبارہ مسلح ہونے سے روک دے گی۔ اس طرح وہ دوبارہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں بن سکیں گے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یاو گيلانٹ نے گذشتہ ماہ اس راہداری کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت انھوں نے کہا کہ ہم نے فلاڈیلفیا کوریڈور پر 150 سرنگوں کو تباہ کر دیا ہے۔
بی بی سی نے اسرائیلی فوج کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیوز میں فلاڈیلفیا کوریڈور میں دھماکوں سے اڑائے جانے والے مقامات کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں سے ایک میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ زیر زمین انفراسٹرکچر تباہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم بی بی سی اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ اصل میں کیا تباہ ہوا ہے اور کہاں تباہ ہوا ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے شیئر کی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں ہمیں ایک سرنگ نظر آئی ہے۔ جبکہ سیٹیلائٹ تصاویر میں سرحد کے ساتھ اور دیگر علاقوں میں زمین پر کھدائی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔
(لامیس الطالیبی اور جوشوا چیٹہم کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ)
خواتین پر مشتمل اسرائیل کا وہ فوجی یونٹ جو جانتا تھا کہ حماس ’بڑا حملہ‘ کرنے کے قریب ہےامریکہ کو غزہ میں جنگ بندی کی توقع: ’اگر حماس نے مجوزہ منصوبہ تسلیم کیا تو اسرائیل بھی مان جائے گا‘اہلیہ سمیت اسلام قبول کرنے والے امریکی مصنف شان کنگ کون ہیں؟اسرائیلی وفد کا دوحہ میں رات ’طیارے میں گزارنے کا خیال‘ اور وہ فون کال جس نے ایران کا ’متوقع حملہ‘ رکوا دیااسرائیل کا مسجد اقصیٰ کے صحن میں یہودی عبادت گاہ بنانے کا ارادہ: کیا مذہبی جنگ بھڑک سکتی ہے؟عرب ملک اُردن نے اسرائیل پر داغے گئے ڈرون کیوں مار گرائے اور یہ ملک تاریخی اعتبار سے کہاں کھڑا ہے؟