روس نے یوکرین کے ’میزائل حملوں‘ سے بچنے کے لیے اپنے جنگی طیارے کہاں چھپا لیے

بی بی سی اردو  |  Sep 22, 2024

Getty Images

روس نے اس بات کا انتظار ہی نہیں کیا کہ یوکرین کے اتحادی کب اسے روس کے خلاف میزائل استعمال کرنے کی اجازت دیں اور پھر وہ روس میں اہداف کو نشانہ بنا سکے۔ روس نے حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی اپنی جنگی طیاروں کو چھپا دیا۔

روس کا اپنی جہازوں کی منتقلی کا یہ عمل کئی ماہ سے جاری ہے۔

اس کے علاوہ حالیہ عرصے میں روس نے بحیرہ اسود میں اپنے بحری بیڑے یعنی جنگی بحری جہازوں کو سیواستوپول سے نووروسیسک منتقل کیا تھا، اب ایک ہفتے میں دوسری بار وہ اپنے ایک اور اڈے کو کہیں دور منتقل کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ یوکرین پر روس کے خلاف یہ میزائل جنھیں سٹارم شیڈو یا سکیلپ کہا جاتا ہے، استعمال کرنے پر مغربی ممالک کی طرف سے پابندی عائد ہے اور یوں یہ پابندی روس کے خلاف کسی بھی ایسے حملے میں رکاوٹ کا کام کرتی ہے۔

تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ ایسا بہت حد تک ممکن ہے کہ امریکہ اور برطانیہ یوکرین پر عائد وہ پابندی ہٹا دیں جس کے تحت وہ روس پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے حملے نہیں کر سکتا۔

یوکرین کے پاس ان میزائلوں کی کثیر تعداد موجود ہے، تاہم ملک پر پابندی ہے کہ وہ روس کے خلاف ان کا استعمال نہیں کر سکتا چاہے روس کے طیارے یوکرین کی اپنی سرحدی حدود میں ہی کیوں نہ گردش کر رہے ہوں۔

یوکرین کے دارالحکومت کیئو کی جانب سے کئی ہفتوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ اسے اپنی سرحدی حدود میں یہ میزائل استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ مگر مغربی ممالک جنگ کو مزید بڑے پیمانے پر پھیلنے سے روکنے کے لیے یوکرین کو یہ اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

بی بی سی کے فوجی نامہ نگار پاولو اکسیونوف اس بارے میں لکھتے ہیں کہ اس خطرے کا وجود ہی روس کو جنگی ہوا بازی کی شدت کو کم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ چونکہ یہ خطرہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے اس لیے روسی افواج اس کے مطابق تیاری کر رہی ہیں اور اپنی نئی مؤثر جنگی حکمت عملی پر کام کر رہی ہیں۔

Getty Imagesروس نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟

اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے صحافی فرید ذکریا کے ساتھ ایک انٹرویو میں پاولو اکسیونوف نے کہا ہے کہ یوکرین کو روس کے خلاف طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب روس نے بھی اپنے جنگی جہاز محاذ سے دور کر دیے ہیں۔ ان کے مطابق روس ان جہازوں کو کئی سو کلومیٹر دور لے جا رہا ہے۔

اگر یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے الفاظ کا جائزہ لیا جائے تو اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ’ایئرفیلڈز‘ یعنی فضائی اڈے بہت اہم اہداف ہیں جنھیں یوکرین ہدف بنانے جا رہا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ روس کے ایس یو-34 جنگی جہازوں نے یوکرینی فوجیوں پر بم برسائے جس سے یوکرین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔

یوکرین کے انٹیلیجنس جمع کرنے والے ادارے اوسینٹ کے ایک تفتیش کار نے ایکس پر اپنی عرفیت تاتارگامی سے لکھا کہ روس جون سے اپنے جنگی جہازوں اور بیڑوں کو فرنٹ لائن زون سے ہٹا کر دور دراز منتقل کر رہا ہے۔

ابابیل اور شاہین تھری: کیا امریکی پابندیاں پاکستان کےمیزائل پروگرام کو متاثر کر سکتی ہیں؟یوکرین کے خلاف نیا ہتھیار: دشمن کے ڈرون کو جال میں پھنسانے والا روسی ڈرونایرانی حملے کو روکنے والا اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟سٹارم شیڈو نامی میزائل کیا ہے اور یوکرین کے لیے اہم کیوں ہے؟

اوسینٹ کے تفتیش کار کا کہنا ہے کہ جولائی کے وسط سے جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹرز اور ان کی مرمت کرنے والا پورا انفراسٹرکچر ہی دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

اس کا صاف الفاظ میں مطلب تو یہی ہے کہ اگر امریکی صدر جو بائیڈن 13 ستمبر کو سٹارم شیڈو یا سکیلپ میزائل استعمال کرنے کی اجازت دے بھی دیتے تو یہ فیصلہ روس کے فوجی اڈوں کے لیے زیادہ تباہ کن نہیں ثابت ہوتا کیونکہ پہلے ہی روس نے اپنے جہاز اس میزائل کی پہنچ سے دور مقامات پر منتقل کر دیے ہیں۔

یوکرین کو ان میزائلوں کے استعمال کے لیے اجازت حاصل کرنے کا عمل چونکہ طویل ہے اس لیے روس کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اس عرصے میں اپنے اثاثوں کی حفاظت یقینی بنا سکے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ روس کے جنگی طیارے اس وقت محفوظ مقامات پر ہیں اور وہ یوکرین کے ان میزائلوں کی رینج سے بہت دور ہیں مگر مستقبل میں میزائلوں کی رینج میں اضافے کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

Getty Imagesنووروسیسک: بحری مشقیں یا انخلا

14 ستمبر کو اونسیٹ کے ایک محقق نے اپنی عرفیت ایچ آئی سکٹن سے ایکس پر ’تسیمیسکا بے‘ کی ایک پارکنگ کی جگہ کے سیٹلائٹ امیجز شئیر کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان تصاویر سے ایسا لگتا ہے کہ روسی بحری بیڑے وہاں سے اب کہیں اور منتقل کر دیے گئے ہیں۔

تفتیش کار کے مطابق یہ یوکرین کی طرف سے ممکنہ میزائل حملے کے خطرے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

وہاں حقیقت میں ایسا خطرہ موجود تھا کہ یوکرین کو روس پر ان میزائلوں سے حملے کی اجازت مل جاتی اور اس بات کے بھی امکان تھے کہ افواج کو دور تک مار کرنے والے میزائل حاصل ہو جاتے۔

اگر ایسا ہوجائے تو پھر یوکرینی افواج کو زیر قبضہ علاقے میں 500 کلومیٹر تک ان میزائلوں کو ’لانچ‘ کرنے کی اجازت ہو گی۔ کریمیا کے ساحلوں کے قریب سے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر مار کرنے والے میزائلوں کو بہت خطرناک انداز میں ’لانچ‘ کرنا ہو گا۔

دستیاب معلومات سے یہی پتا چلتا ہے کہ یوکرین کے پاس اس وقت طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی انھیں روس میں اہداف کو نشانہ بنانے کی اجازت ہے۔

بی بی سی نے سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کا بغور جائزہ لیا اور یہ معلوم کیا کہ نوروسیسک بحری بیڑے میں مسلسل جہازوں کی جگہ تبدیل کی جاتی ہے۔

15 اگست کو یہ اڈہ بحری جہازوں سے بھرا ہوا تھا اور پھر ایک ہفتے بعد 23 اگست کو یہ خالی پڑا تھا۔

سیٹلائٹ سے یہاں کی تصویر کشی 11 ستمبر کو کی گئی تھی۔ مگر پھر اس کے اگلے ہی دن پارکنگ کی جگہ خالی نظر آ رہی تھی۔ اس کے بعد 16 ستمبر کو یہ بحری جہاز پھر اس بیڑے پر نظر آئے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ بحری بیڑے نے بحری مشقوں میں حصہ لیا اور اسی لیے وہ بیس پر موجود نہیں تھے۔

ایک اور روسی ماہر کا کہنا ہے کہ بحیرہ اسود کے بحری بیڑے میں روس کے جہاز مسلسل ادھر ادھر جا رہے ہیں۔ جو کہ ایک جنگی چال بھی ہے اور یہ جہاز بحیرہ اسود میں مختلف بندرگاہوں اور خلیج پر جاتے نظر آئے ہیں۔ یہ نہ صرف روس کے ساحل بلکہ کریمیا کے ساحل پر بھی جاتے نظر آئے ہیں۔

سٹارم شیڈو نامی میزائل کیا ہے اور یوکرین کے لیے اہم کیوں ہے؟یوکرین کا روسی علاقے پر قبضہ: ’دلیرانہ چال‘ جو ماسکو سے مذاکرات میں مددگار ثابت ہو سکتی ہےابابیل اور شاہین تھری: کیا امریکی پابندیاں پاکستان کےمیزائل پروگرام کو متاثر کر سکتی ہیں؟یوکرین کو ملنے والے ایف 16 لڑاکا طیارے کیسے روس کے خلاف جنگ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیںایرانی حملے کو روکنے والا اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟پیغام رسانی کے لیے ’ٹیلی گرام‘ پر انحصار روسی فوج کو کتنا مہنگا پڑا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More