آئینی معاملات پر حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان بڑھتی خلیج کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 24, 2024

Getty Images

پاکستان کی سیاست میں حالیہ مہینوں کے دوران کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنھیں دیکھ کر سیاسی و قانونی مبصرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بظاہر ملک کے بڑے ادارے بشمول پارلیمان اور سپریم کورٹ نہ صرف ایک عدم استحکام کی کیفیت کی جانب بڑھ رہے ہیں بلکہ مبینہ طور پر اندرونی تقسیم کا بھی شکار ہیں۔

گذشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان کے پارلیمان میں عدلیہ اور اس کے حالیہ فیصلوں سے متعلق تنقیدی تقاریر کی جا رہی ہیں اور اس ضمن میں آئینی ترامیم پیش کرنے اور انھیں منظور کروانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے ہی ادارے سے سوالات کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر سپریم کورٹ کے اکثریتی بینچ کا وضاحتی بیان ادارے کی ویب سائٹ پر کیسے جاری ہو گیا؟

یاد رہے کہ رواں ماہ سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینج نے مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کی درخواستوں پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ 12 جولائی کے فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے امیدوار آزاد نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے ہیں۔

اس معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار کو لکھے گئے ایک خط میں پوچھا ہے کہ الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے وضاحت کے لیے درخواست کب دائر کی تھی اور یہ درخواستیں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں کیوں نہیں بھیجی گئیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید سوال کیا کہ اوریجنل فائل اور فیصلہ رجسٹرار آفس میں جمع کروائے بغیر فیصلہ کیسے اور کس کے کہنے پر اپ لوڈ کیا گیا؟

ابھی شاید چیف جسٹس کو اپنے سوالات کے جوابات بھی نہیں ملے تھے کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ روز (22 ستمبر) مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دیا۔

مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلے میں کیا کہا گیا؟Getty Imagesتفصیلی فیصلے میں تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا گیا ہے

70 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن رواں برس فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تحریک انصاف کی جانب سے پہلے درخواست دائر کیوں نہ کرائی گئی اور یہ کہ عدالت کی جانب سے درخواست سے بغیر ہی ریلیف کیوں دے دیا گیا۔ فیصلے کے مطابق انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول کیسز سے مختلف ہوتا ہے اور یہ کہ سپریم کورٹ نے عوام کے ووٹ کے حق کے تحفظ کا آئینی فریضہ سرانجام دیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے تفصیلی فیصلے میں ججز نے لکھا کہ انھوں نے یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟

فیصلے کے مطابق اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ تھا کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انھیں ووٹ دیا۔

تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے، الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔

’کمیشن کو جمہوری اصولوں اور انتخابی عمل کی سالمیت کو برقرار رکھنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انتخابات صحیح معنوں میں عوام کی مرضی کی عکاسی کریں، اس طرح قوم کے جمہوری تانے بانے کو محفوظ رکھا جائے۔ بدقسمتی سے اس معاملے کے حالات بتاتے ہیں کہ الیکشن کمیشن 2024 کے عام انتخابات میں یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔‘

تفصیلی فیصلے میں آٹھ ججز نے دو ججز کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا۔ دو ججز کے تحفظات کے حوالے سے فیصلے میں بتایا گیا کہ جس انداز میں دو ججز نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں۔ تفصیلی فیصلے کے مطابق جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے۔

کیا حکومت اور سپریم کورٹ تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں؟Getty Images’اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیلیں عدالت کے سامنے زیرِ التوا ہیں، لیکن آپ (سپریم کورٹ) کہہ رہے کہ ہمارے فیصلے پر ابھی عمل کریں‘

اگر سیاسی معاملات پر نظر ڈالی جائے تو حالیہ بیانات سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اداروں کے درمیان جاری مبینہ رسہ کشی سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے حوالے کیے گئے فیصلے کے بعد شدت اختیار کر گئی ہے۔

پنجاب، سندھ اور قومی اسمبلیوں کے سپیکر صاحبان نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر درخواست کر چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو نہ دی جائیں۔

حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشتستوں کے حوالے سے اپنے فیصلے کے ذریعے ’خود الجھایا ہے۔‘ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مخصوص نشستوں کے تفصیلی بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے ’مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو نہیں دی جا سکتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس پر ایک اور قانونی معاملہ چلے گا۔‘

اس معاملے پر بات کرتے ہوئے ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ تفصیلی فیصلے کے ذریعے ’ایک ایسی پارٹی (پی ٹی آئی) کو ریلیف دیا گیا جو نہ مخصوص نشستوں کا تقاضہ لے کر الیکشن کمیشن گئی، نہ سپریم کورٹ گئی اور نہ ہی کسی ہائی کورٹ۔ ‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کیس میں فریق سُنی اتحاد کونسل تھی اور الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ پہلے ہی قرار دے چکے ہیں کہ سُنی اتحاد کونسل کو یہ مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ ’اس فیصلے کے خلاف ہماری اور پیپلز پارٹی کی نظرِ ثانی کی اپیلیں عدالت کے سامنے زیرِ التوا ہیں، لیکن آپ (سپریم کورٹ) کہہ رہے کہ ہمارے فیصلے پر ابھی عمل کریں۔‘

ن لیگ اس معاملے کو بھی پارلیمنٹ میں لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عرفان صدیقی کے مطابق ’پارلیمنٹ اس معاملے کو دیکھے گی، ہم یہ نہیں کر سکتے کہ صرف ایک بات اس لیے مان لیں کہ آٹھ ججوں نے کہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اب یہ معاملہ پارلیمنٹ دیکھے گی کہ کہیں یہ آئین و قانون کے منافی تو نہیں اور پھر فیصلہ کرے گی۔‘

ن لیگ دوسری جانب آئینی ترمیم کے ذریعے ایک آئینی عدالت قائم کرنا چاہتی ہے اور ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام اس آئینی ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آئے اور عدالتی اصلاحات سے متعلق بِل پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہو سکا۔

الیکشن کمیشن کا مؤقف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے پارٹی انتخابات کا معاملہ ابھی تک الیکشن کمیشن میں زیرِ التوا ہے تو ایسے حالات میں کیسے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں؟

پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار اجمل جامی کہتے ہیں کہ ’اتنے بڑے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جانا چاہیے تھا لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن آج بھی اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔‘

اجمل جامی کے مطابق انھیں یہ معاملہ تصادم کی طرف جاتا ہوا نظر آ رہا ہے ’کیونکہ حکومت کے چاہنے والے یہ کہتے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ کو ہم تالا لگا دیں۔ ‘

انھوں نے کہا کہ ’یاد رکھیں کہ اگر کوئی سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ مانے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یوسف رضا گیلانی کو بطور وزیر اعظم گھر جانا پڑا تھا۔‘

ملک میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے تمام اداروں کا اپنی حدود میں رہنا ضروری ہے۔

انھوں نے کسی بھی ادارے کا نام لیے بغیر بی بی سی کو بتایا کہ ’ملک کا ایک طاقتور ادارہ تمام اداروں کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتا ہے اور ان اداروں سے اپنی مرضی کے فیصلے لینا چاہتا ہے۔‘

’اگر اداروں میں اس طرح کا تصادم جاری رہا تو اگلے چند ہفتوں میں ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہونے کا اس لیے خطرہ ہے کیونکہ ہر ادارہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کام کر رہا ہے وہ ملک کے آئین و قانون کے عین مطابق ہے۔‘

آئینی ترمیم: کیا پیپلز پارٹی ’ججوں کی عمر کی حد‘ پر مسلم لیگ ن کے ساتھ ایک صفحے پر ہے؟آئینی ترامیم: کیا حکومت کی کنپٹی پر کسی نے سائلنسر گن تانی ہوئی تھی؟پاکستان کے آئین میں مجوزہ ترامیم ’آئینی پیکج‘ میں کیا ہے اور اس پر مخالفت کیوں؟عمران خان، فوج اور کنٹینرز: اقتدار کی جاری جنگ کا پاکستان کے لیے کیا مطلب ہے؟

دوسری جانب آئینی و قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ حجوں کو یہ تاثر رد کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کا جھکاؤ کسی سیاسی جماعت کی طرف ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) فیصل عرب مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر سپریم کورٹ سے جاری وضاحت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے 15 سالہ کیریئر میں ایسا واقعہ نہیں دیکھا جس میں عدالت نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کرنے سے پہلے وضاحتی بیان جاری کیا ہو۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ججز کی جانب سے یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ اُن کا جھکاؤ کسی سیاسی جماعت کی طرف ہے بلکہ انھیں اپنے فیصلوں سے بولنا چاہیے۔‘

Getty Imagesکیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد رکوا سکتی ہے؟

ماہرِ قانون بیرسٹر صلاح الدین کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے باوجود بھی سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کو واپس نہیں لیا جا سکتا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر سپریم کورٹ نے کسی قانون کی تشریح کی ہو، تو پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس قانون میں ترمیم کر سکے۔ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن تشریح کرتے وقت عدالتِ عظمیٰ کو ٹھوس وجوہات دینی ہوں گی کہ کس طرح پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا قانون آئین کے خلاف ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں کو مخصوص نشستوں سے متعلق وضاحتی بیان جاری کرنے کے بجائے تفصیلی فیصلہ جاری کرنا چاہیے تھا۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’جب بھی کوئی عدالت کسی بھی معاملے میں مختصر فیصلہ سُناتی ہے تو اس پر عملدرآمد کرنا اداروں کا فرض ہوتا ہے۔‘

’اداروں میں برتری کی جنگ جاری ہے‘

پاکستان کے سیاسی منظرنامے اور پارلیمان پر نظر رکھنے والے تجریہ کار کہتے ہیں ملک میں حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات دیکھ کر انھیں اداروں کے درمیان ایک کشمکش کا تاثر مل رہا ہے۔

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’ملک میں اداروں کے درمیان برتری کی ایک جنگ جاری ہے اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہر ادارہ آئین میں موجود لچک کو اپنے حق میں کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب ملک کا آئین ہی ٹوٹ جائے گا۔‘

’جب تمام ادارے اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے دوسرے اداروں کے حقوق سلب کر لیتے ہیں تو ایسے حالات میں جمہوریت ایک ثانوی چیز بن جاتی ہے۔‘

ان کے خیال میں سپریم کورٹ میں ’اندرونی جنگ زوروں پر ہے جہاں سب سے سینیئر جج ملک کا چیف جسٹس بننا چاہتا ہے، جبکہ دوسری طرف موجود چیف جسٹس اپنی ایکسٹینشن کے بارے میں بھی غور کرسکتے ہیں، اسی سبب حکومت آئینی ترمیم لانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

الیکشن ایکٹ میں ترامیم قومی اسمبلی سے منظور: پاکستان تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھو سکتی ہے؟پاکستانی پارلیمان چوہوں سے پریشان: ’چوہے اتنے موٹے تازے ہیں کہ شاید بلیاں بھی ان سے ڈر جائیں‘پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی اہل: کیا عمران خان کی جماعت سب سے بڑی پارلیمانی قوت بن سکتی ہے؟مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت: ’سپریم کورٹ کا فیصلہ انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق تھا، اسے بلے کے نشان سے کنفیوز نہ کیا جائے‘اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ سیاسی نہیں نفسیاتی ہے: وسعت اللہ خان کا کالم
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More