میر علی کے تجارتی مرکز میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کی جھڑپ سے تباہی: ’معلوم نہیں تھا منڈی میں قیامت آ جائے گی‘

بی بی سی اردو  |  Sep 25, 2024

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں مارٹر گولوں سے لگنے والی آگ کے باعث سبزی منڈی اور مویشی منڈی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

منگل کی صبح میر علی کے مرکزی بازار میں یہ جھڑپ اس وقت شروع ہوئی جب سکیورٹی فورسز معمول کے گشت پر تھیں۔

اس جھڑپ میں جہاں ایک جانب شدت پسندوں کے جانی نقصان کی اطلاعات ہیں وہیں سکیورٹی فورسز کے چار اہلکاروں کے زخمی ہونے کی خبریں بھی آئی ہیں تاہم سرکاری سطح پر اس کی اب تک تصدیق نہیں کی گئی۔

بی بی سی نے اس جھڑپ کے باعث ہونے والے جانی و مالی نقصان سے متعلق جاننے کے لیے پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کو لکھا تاہم اب تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

میر علی کے مقامی تاجروں نے دعویٰ کیا ہے کہ جھڑپ کے دوران نامعلوم سمت سے گرنے والے مارٹر گولوں کے باعث سبزی اور مویشی منڈی میں آگ بھڑک اٹھی اور اس سے درجنوں مویشی جل کر مارے گئے۔

تحصیل میر علی خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں اور شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ کو ملانے والی سڑک پر واقع ہے۔

مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انتظامیہ نقصانات کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کل کتنا نقصان ہوا۔ اس کے لیے سرکاری ٹیمیں کاروباری مرکز سے معلومات حاصل کریں گی۔‘

اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر میر علی کی ویڈیوز وائرل ہونا شروع ہوئیں جس میں ہلاک ہونے والے جانوروں اور سبزی منڈی میں ہونے والی تباہی کے مناظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔

میر علی میں کیا ہوا؟

شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے مقامی افراد کے مطابق منگل کی صبح شہر کے مرکزی بازار، سبزی منڈی اور مویشی منڈی میں کاروبار جاری تھا کہ سیکورٹی فورسز گشت پر وہاں آئے تو ایک خوف پھیل گیا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اگرچہ سکیورٹی فورسز کا یوں گشت پر آنا معمول کی بات ہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ’تجارتی مراکز میں موجود کچھ افراد کو وہاں سے جانے کا کہا گیا اور چند خود ہی وہاں سے چلے گئے جبکہ کچھ وہاں موجود رہے۔ جس کے بعد ایسی خبریں سامنے آئیں کہ شدت پسند بھی اس علاقے کی طرف آ رہے ہیں جس پر مقامی افراد خوفزدہ ہو گئے۔اور اسی اثنا میں فائرنگ اور مارٹر گولوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔‘

میر علی سے تعلق رکھنے والے ملک امین الدین مسکی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’منگل کی صبح سبزی اور مویشی منڈی میں معمول کے مطابق کام جاری تھا کہ اس دوران سکیورٹی فورسز کے اہلکار گشت کرتے بازار میں آئے اور پھر کہا گیا کہ شدت پسند بھی وہاں پہنچ گئے ہیں اور پھر فائرنگ شروع ہو گئی۔‘

ملک امین الدین نے بتایا کہ ’اتنے میں منڈی میں نامعلوم سمت سے مارٹر گولے گرنا شروع ہوئے اور چونکہ سبزی اور مویشی منڈی میں لکڑی اور بھوسہ ہوتا ہے تو فوری طور پر وہاں آگ بھڑک اٹھی اور یہ آگ ایسی پھیلی کہ سب کچھ تباہ کر دیا۔‘

ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات: چند کنال زمین کے تنازعات جو سینکڑوں جانیں لے چکے ہیں’پہلے ہی سوکھی روٹی پر گزارا تھا اب وہ امداد بھی بند کر دی گئی‘طالبان اور حکومتِ پاکستان کے درمیان ’جنگ بندی‘ کے باوجود جھڑپیں اور ہلاکتیں کیوں؟شمالی وزیرستان کا محمد وسیم جسے دہشتگردی بھی کرکٹ کھیلنے سے روک نہ سکیاس جھڑپ میں کتنا نقصان ہوا؟

مقامی افراد کے مطابق سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپ میر علی کے گنجان آباد بازار، سبزی اور مویشی منڈی کے قریب ہوئی۔

انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ’اس جھڑپ کے نتیجے میں مقامی تاجروں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا اور بیشتر کے کاروبار مکمل تباہ ہو گئے ہیں۔‘

میر علی کے ایک انتظامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میر علی بازار اور منڈی میں تاجروں کا کافی نقصان ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس جھڑپ میں بڑی تعداد میں مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ کپڑے کی دکانیں، جنرل سٹورز، سبزی اور پھلوں کی دکانیں، ٹمبر کے گودام وغیرہ مکمل طور پر جل کر تباہ ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا انتظامیہ نقصانات کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کل کتنا نقصان ہوا۔

’میرے بازار کا کیا گناہ تھا‘

ملک امین الدین کا کہنا تھا کہ بچپن سے لے کر آج تک اس طرح کی تباہی انھوں نے نہیں دیکھی۔ وہ مویشی منڈی میں جانوروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ٹھیک ہے وزیرستان کے لوگ قصور وار ہوں گے لیکن ان مال مویشی کا کیا قصور تھا، گائے بھینس اور چھوٹے مویشی اس فائرنگ اور گولوں سے ہلاک ہو گئے۔ لوگوں کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا، میرے بازار کا کیا گناہ تھا۔‘

ملک امین الدین نے بتایا کہ کچھ کپڑے کے تاجر گذشتہ دنوں ہی لاکھوں روپے کا مال خرید کر لائے تھے جو سب کچھ جل گیا۔

تاجروں نے بتایا کہ میر علی کا یہ کاروباری مرکز جس میں مختلف سامان کی ہول سیل کی منڈیاں اور تجارت کے مرکز ہیں، شہر میں بڑی شاہراہ کے ساتھ واقع ہے اور یہ مرکز کوئی تین سال پہلے باقاعدہ طریقے سے قائم کیا گیا تھا۔

’معلوم نہیں تھا منڈی میں قیامت آ جائے گی‘

مختیار خان پھلوں اور سبزیوں کے آڑھتی ہیں۔ وہ صبح سویرے بنوں سے سبزیوں اور پھلوں کے ٹرک لائے تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ باقی سبزیوں اور پھلوں کے علاوہ 150 پیٹیاں انگور کی تھیں اور تھوک کے کاروبار میں ایک پیٹی کی قیمت 3000 روپے تک ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’جب اچانک سکیورٹی فورسز کے اہلکار بازار اور پھر منڈی کی طرف آئے تو امید یہ تھی کہ تھوڑی دیر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو ہم واپس بازار چلے جائیں گے مگر معلوم نہیں تھا کہ منڈی میں قیامت آجائے گی۔‘

مختیار کہتے ہیں کہ ان کے کنبے میں 12 افراد ہیں، ایک بھائی کسی کمپنی میں ملازم ہیں لیکن گھر کا سارا انحصار ان کے اس کاروبار سے تھا۔

’اب سوچ میں ہوں جو مال لایا وہ تو جل گیا، نیا کام کیسے شروع کریں گے۔‘

مویشی منڈی کے ایک تاجر شیراز نے بتایا کہ اس منڈی میں لگ بھگ 50 افراد کے پاس بڑے مویشی جیسے گائے، بھینس وغیرہ تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ صبح کے وقت سیکورٹی فورسز کے اہلکار آئے تو یہ کہاں گیا کہ علاقہ خالی کر دیں جس وجہ سے کچھ لوگ اپنا مال لے گئے لیکن بیشتر نے اپنا مال ادھر ہی چھوڑ دیا کہ شاید اہلکار کوئی سرچ آپریشن کریں گے اور پھر چلے جائیں گے لیکن حالات میں کشیدگی آ گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مویشی منڈی میں لوگوں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا کیونکہ اس منڈی میں قیمتی جانور لائے جاتے ہیں اور کمزور جانور یہاں کوئی نہیں خریدتا۔

قبائلی جرگے کی نقصان پورا نہ کرنے پر احتجاج کی دھمکی

اکثر تاجروں کو یہ امید ہے کہ حکومت ان کی مدد ضرور کرے گی اور ان کے نقصان کا ازالہ کر دیا جائے گا۔

اس بارے میں شمالی وزیرستان کے انجمن تاجران کے صدر سراج الدین نے بی بی سی کو بتایا کہوہ میر علی کے تاجروں کے ساتھ ہیں لیکن انھیں نقصان کے ازالے کی کوئی زیادہ توقع نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران جو ان کے کاروبار تباہ ہوئے جو املاک کو نقصان پہنچا تھا وہ اب تک مکمل لوگوں کو نہیں مل سکا تو اب اس نقصان کو حکومت کیسے پورا کرے گی۔

اس واقعہ کے بعد اس علاقے کی بڑی قبائلی قوم اتمانزئی کے عمائدین کا جرگہ منعقد ہوا، جس میں کہا گیا کہ تمام تاجروں کے نقصان پورا کیا جائے۔

اس جرگے کے ایک رکن ملک نثار علی خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس جرگے میں ملک نصراللہ خان، مولانا بیت اللہ خان ملک جان محمد اور دیگر موجود تھے اور اب ایک احتجاجی کیمپ میر علی کے مرکزی چوک میں لگا دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا یہ کیمپ 30 ستمبر تک جاری رہے گا جس کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد میر علی میں تمام شاہراہیں سکول کالج اور کاروباری مراکز بند کر دیے جائیں گے اور ایک احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔

ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات: چند کنال زمین کے تنازعات جو سینکڑوں جانیں لے چکے ہیںشمالی وزیرستان کا محمد وسیم جسے دہشتگردی بھی کرکٹ کھیلنے سے روک نہ سکیپاکستان میں شدت پسند تنظیموں کی نئی حکمت عملی کتنی خطرناک ہے اور کیا طالبان سے ’دوبارہ مذاکرات‘ میں مولانا فضل الرحمان کی ممکنہ موجودگی مسئلے کو حل کر پائے گی؟پاکستان میں شدت پسندوں کے حالیہ حملوں سے ٹی ٹی پی نے لاتعلقی کیوں ظاہر کی؟کرّم میں جھڑپوں کے بعد حالات بدستور کشیدہ، فوج اور ایف سی تعینات
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More