’انڈیا آوٹ‘ کا نعرہ دینے والے مالدیپ کے صدر محمد معیزو اب انڈیا کیوں جا رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Oct 06, 2024

’انڈیا آوٹ‘ کا نعرہ دینے والے مالدیپ کے صدر محمد معیزو آج پانچ دن کے لیے دورہ انڈیا پر پہنچ رہے ہیں۔ اس دوران وہ معاشی بحران کا شکار جزیرہ نما ملک مالدیپ کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ممکنہ طور پر انڈیا سے بیل آوٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

دلی کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے وعدے اور ’انڈیا آؤٹ‘ کی پالیسی پر گذشتہ سال صدر بننے والے معیزو اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار انڈیا کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔

ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالدیپ اپنے بڑے پڑوسی کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

مالدیپ کے زرمبادلہ کے ذخائر ستمبر میں تقریباً 440 ملین امریکی ڈالر تھے جو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہوتے۔

پچھلے مہینے عالمی ایجنسی موڈی نے بھی کہا تھا کہ ’پہلے سے ہی اس ملک کو خطرات لاحق تھے لیکن اب وہ مزید بڑھ گئے ہیں۔‘

اگر انڈیا اس ملک کو بیل آؤٹ دیتا ہے تو مالدیپ کے غیر ملکی ذخائر کو تقویت مل سکتی ہے۔

انڈیا کا دورہ کرنے سے پہلے معیزو نے ترکی اور چین جانے کا انتخاب کیا۔ جنوری کے آخر میں ان کے چین کے دورے کو دہلی کے لیے ایک اعلیٰ سطحی سفارتی تحقیر کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ مالدیپ کے سابق رہنماؤں نے منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے دہلی کا ہی رخ کیا تھا۔

مالدیپ کے تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں لیکچرار عظیم ظاہر کہتے ہیں کہ ’صدر معیزو کا دورہ کئی معنوں میں بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ ان میں سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ دورہ اس بات کا احساس ہے کہ مالدیپ کا انڈیا پر کتنا انحصار ہے۔‘

مالدیپ تقریباً 1,200 جزائر پر مشتمل ہے اور بحر ہند کے وسط میں واقع ہے۔ مالدیپ کی آبادی انڈیا کی 1.4 ارب آبادی کے مقابلے میں صرف 520,000 ہے۔

ایک چھوٹے اور جزیرے والے ملک کے طور پر مالدیپ اپنی خوراک، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور صحت کی دیکھ بھال کے لیے اپنے بڑے پڑوسی انڈیا پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔

انڈیا اور مالدیپ نے سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ اس دورے کے دوران مالدیپ کے لیے مالیاتی پیکج ایجنڈے میں شامل ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اعلی سطحی گفتگو کا حصہ ہوگا۔

Getty Imagesاس سے قبل معیزو وزیر اعظم مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے انڈیا گئے تھےدورے کا مقصد مالدیپ کو معاشی بحران سے نکالنا

مالدیپ کے ایک سینیئر ایڈیٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’معیزو کے دورے کی اہم ترجیحات میں گرانٹ ان ایڈ اور قرضوں کی ادائیگیوں کی تنظیم نو کی صورت میں مالی مدد کو محفوظ بنانا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’معیزو مالدیپ کے مرکزی بینک کی طرف سے 400 ملین ڈالر کی کرنسی کے تبادلے کا معاہدہ بھی چاہتے ہیں۔‘

ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے مالدیپ کی مالیاتی صورتحال پر مزید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’(غیر ملکی) ذخائر 2025 میں تقریباً 600 ملین ڈالر اور 2026 میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائيگیوں کے حساب سے نمایاں طور پر کم ہیں۔‘

مالدیپ کا عوامی قرض تقریباً 8 ارب ڈالر ہے، جس میں تقریباً 1.4 ارب ڈالر چین اور انڈیا کے واجب الادا ہیں۔

مالدیپ کے ایڈیٹر نے کہا کہ ’معیزو کے متعدد مواقع پر یہ کہنے کے باوجود کہ چین نے قرضوں کی ادائیگی کو پانچ سال کے لیے موخر کرنے کے لیے گرین سگنل دیا بیجنگ کی جانب سے مالی امداد آنے والی نہیں۔‘

کسی دوسرے ملک کو مدد کے لیے نہ آتا دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ معیزو اب کشیدہ تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے انڈیا کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔

عظیم ظاہر کہتے ہیں کہ ’یہ معیزو کی حکومت کے سینیئر عہدیداروں کی جانب سے لہجے اور منفی بیان بازی کو دوبارہ ترتیب دینے کے بارے میں ہے جس نے انڈین سیاحوں کی آمد کو کافی حد تک متاثر کیا۔‘

سوا پانچ لاکھ آبادی والا چھوٹا سا ملک مالدیپ انڈیا کو چیلنج کیوں کر رہا ہے؟ ’انڈین فوجی 15 مارچ تک جزیرے سے نکل جائیں‘’اسلام مالدیپ کی بقا کا ضامن‘: کیا صدر معیزو کا ملک کے اسلامی تشخص کے بارے میں بیان انڈیا کی جانب کوئی اشارہ ہے؟لکشدیپ: کیا انڈیا کا ’مالدیپ‘ بڑے پیمانے پر سیاحوں کی مہمان نوازی کر سکے گا؟پڑوس میں بدلتی حکومتیں جو انڈیا کی خارجہ پالیسی کے لیے چیلنجز پیدا کر رہی ہیںReutersمعیزو چینی صدر کے ساتھ مودی کو ’مسخرہ، دہشتگرد اور اسرائیل کی کٹھ پتلی‘ کہا گیا

انڈیا کا مالدیپ پر ایک طویل عرصے سے خاصا اثر و رسوخ رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایسے سٹریٹیجک مقامات ہیں جن سے بحرِ ہند تک رسائی ممکن ہے لیکن معیزو نے چین کے قریب جا کر اسے تبدیل کرنا چاہا تھا۔

جنوری میں معیزو انتظامیہ نے انڈیا کو مالدیپ میں مقیم تقریباً 80 فوجیوں کو واپس بلانے کا الٹی میٹم دیا۔ دہلی نے کہا کہ وہ وہاں دو ریسکیو اور جاسوسی ہیلی کاپٹر اور ایک ڈورنیئر طیارے کی دیکھ بھال کے لیے تعینات ہیں جو برسوں پہلے انڈیا نے انھیں دیے تھے۔

آخر میں دونوں ممالک نے طیاروں کو چلانے کے لیے فوجیوں کی جگہ انڈیا کے سویلین تکنیکی عملے کو وہاں رکھے جانے پر اتفاق کیا۔

چارج سنبھالنے کے ایک ماہ بعد معیزو کی انتظامیہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ انڈیا کے ساتھ ہائیڈرو گرافک سروے کے معاہدے کی تجدید نہیں کرے گی جس پر پچھلی حکومت نے مالدیپ کے علاقائی پانیوں میں سمندری تہہ کا نقشہ بنانے کے لیے دستخط کیے تھے۔

پھر ایک تنازع اس وقت شروع ہو گیا جب معیزو کے تین نائب وزرا نے مودی کے بارے میں متنازعہ تبصرے کیے اور انھیں ’مسخرہ، دہشت گرد اور اسرائیل کی کٹھ پتلی‘ قرار دیا۔

ان ریمارکس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور انڈین سوشل میڈیا پر مالدیپ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

مالدیپ نے کہا کہ یہ تبصرے ذاتی تھے اور حکومت کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتے اور اس کے بعد تینوں وزرا کو کابینہ سے معطل بھی کر دیا گیا۔

انڈین سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے ردعمل پر معیزو نے اس وقت کہا کہ ’ہم چھوٹے ہوسکتے ہیں لیکن اس سے آپ کو ہم پر دھونس جمانے کا لائسنس نہیں ملتا۔‘

اس کے باوجود رواں سال نریندر مودی کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ان کی حلف برداری کی تقریب میں معیزو کی شرکت کے بعد دو طرفہ تعلقات میں پگھلاؤ آیا۔

اگست میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کے دورہ مالدیپ نے بھی دو طرفہ تعلقات کو دوبارہ شروع کیا۔

جے شنکر نے اپنے دورے کے دوران کہا کہ مالدیپ ہماری ’سب سے پہلے پڑوسی‘ کی پالیسی کے سنگ بنیادوں میں سے ایک ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں اپنے وزیر اعظم نریندر مودی کے الفاظ میں مختصراً یہ کہوں گا کہ انڈیا کے لیے پڑوس میں موجود مالدیپ ایک ترجیح ہے۔‘

انڈیا کے لیے، خطے میں یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے کیونکہ حال ہی میں بنگلہ دیش میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی انڈیا نواز حکومت کا خاتمہ ہوا جبکہ انڈیا کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے کے پی شرما اولی ایک بار پھر ملک کےوزیر اعظم بنے۔

معیزو کو احساس ہوا ہے کہ کہ انڈیا کی مخالفت کوئی آپشن نہیں۔ پچھلے سال مالدیپ جانے والے انڈین سیاحوں کی تعداد میں 50,000 کی کمی ہوئی، جس کے نتیجے میں ملک کو تقریباً 150 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔

معیزو کو معلوم ہے کہ اگر مالدیپ کو انڈیا سے مالی مدد نہ ملی تو مالدیپ ’گمشدہ جنت‘ بن سکتا ہے اور اسی لیے ان کا انڈیا کا حالیہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

پڑوس میں بدلتی حکومتیں جو انڈیا کی خارجہ پالیسی کے لیے چیلنجز پیدا کر رہی ہیںمالدیپ کے بعد بنگلہ دیش میں بھی ’انڈیا آؤٹ‘ کا نعرہ: کیا بنگلہ دیش مالدیپ کے نقش قدم پر چلنے میں کامیاب ہو پائے گا؟حسینہ واجد کا انڈیا میں قیام خطے میں دہلی کے لیے کیا مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟انڈیا کے اُن پڑوسی ممالک سے تعلقات کیوں بگڑ رہے ہیں جنھیں ماضی میں اس کا حلیف سمجھا جاتا تھا؟’اسلام مالدیپ کی بقا کا ضامن‘: کیا صدر معیزو کا ملک کے اسلامی تشخص کے بارے میں بیان انڈیا کی جانب کوئی اشارہ ہے؟’سیاحوں کی جنت‘ میں اسرائیلی شہریوں کے داخلے پر پابندی کیوں لگی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More