’میرا بیٹا اپنے کھلونوں سے زیادہ بم کی آواز کو پہچانتا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Oct 17, 2024

BBC

جب گذشتہ برس اکتوبر کے دوران غزہ میں جنگ کا آغاز ہوا تو دو فلسطینی شہریوں نے بی بی سی ورلڈ سروس کے لیے اپنی روزمرہ زندگی کو فلمانا بھی شروع کر دیا۔

ان میں سے ایک اصیل جنوب کی طرف نقل مکانی کر گئے جبکہ خالد نے غزہ کے شمالی حصے میں ہی رہنے پر اکتفا کیا۔

اس عرصے میں انھوں نے غزہ میں دھماکوں، شہریوں کی متعدد بار نقل مکانی، اموات اور جو کچھ بچوں پر گزری، ان سب واقعات کو انھوں نے فلمبند کیا۔

خالد

شمالی غزہ میں بم سے تباہ حال ایک مکان کے فرش پر چھ برس کے حمود اور چار برس کی حیلوم ’ڈاکٹر ڈاکٹر‘ کھیل رہے ہیں۔

آمنے سامنے کھڑے وہ دونوں ایک چھوٹی سی گڑیا کو اٹھاتے ہیں اور اس کے جسم میں خیالی ٹانکے لگاتے ہیں۔

حمود کہتے ہیں کہ ’یہ زخمی ہے۔ اس پر بہت سا ملبہ گرا ہے۔‘

یہ ایک ایسا منظر ہے جس کا مظاہر وہ اور ان کے دیگر بہن بھائی گذشتہ برس غزہ میں متعدد بار کر چکے ہیں۔

غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اکتوبر 2023 کی جنگ میں ہر مارے جانے والے تین افراد میں ایک بچہ شامل ہوتا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد کیا جس میں تقریباً 1200 لوگ مارے گئے۔

دور کھڑے والد خالد بے چینی سے اپنے بچوں کو یہ کھیل کھیلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

خالد کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ کھیل نہیں ہے جسے بچوں کو کھیلنا چاہیے۔ جب میں انھیں اس کھیل میں مشغول دیکھتا ہوں تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔‘

جنگ کے چند ماہ بعد ہی دسمبر سے غزہ کے ہسپتالوں میں سرجری کرنا بند کر دی گئی۔ خالد نے جنوب سے انخلا کرنے سے متعلق اسرائیلی ہدایات پر عمل نہیں کیا اور انھوں نے اپنے پڑوس جبالیہ میں ہی رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ یہاں اپنی کمیونٹی کو میڈیکل سروسز دے سکیں۔

خالد کوئی ڈاکٹر نہیں مگر وہ ایک تربیت یافتہ ’ماہر نفسیات‘ ہیں اور ادویات کی ایک کمپنی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے پڑوس میں یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ میں ڈاکٹر تو نہیں مگر ایک ماہر نفسیات ہوں۔ مگر میں نے انھیں یہ بتایا ہے کہ میں ضرورت پڑنے پر مشکل وقت میں مرہم پٹی کر سکتا ہوں اور خاص طور پر بچوں کے زخموں پر ٹانکے بھی لگا سکتا ہوں۔‘

ان کے مطابق ’اگر میں ایسا نہیں کرتا اور جن لوگوں کی دیکھ بھال کر رہا ہوں انھیں چھوڑ دیتا ہوں تو پھر ایسے میں قیمتی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ اس جگہ پر تو نہ ہسپتال کی سہولت دستیاب ہے اور نہ کلینک موجود ہیں۔‘

انھوں نے سرجری کی کچھ بنیادی صلاحیت اور ادویات کے محدود سٹاک کے ساتھ اپنے گھر میں ایک کلینک قائم کر رکھا ہے۔

ان دوائیوں میں سے کچھ کی معیاد اب ختم ہو چکی ہے۔ اس کلینک میں وہ خاص طور پر بچوں کے علاج پر پوری توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ ان کے بچے جو دیکھتے ہیں پھر وہ ایسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جنگ کے دوران دریافت کیے جانے والے ایک نئے کھیل میں اپنی بہنوں کے ساتھ مشغول حمود یہ کہتے ہیں کہ ’ایمبولینس، اسے ایمبولینس تک لے جائیں۔‘

خالد نے اپنے بیٹے کو چوٹ کی قسم کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہوئے سنا۔ ’کیا یہ میزائل کی چوٹ، شارپنل، یا عمارت کے گرنے کا نتیجہ ہے؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’حمود اب اپنے کھلونوں کی آواز سے زیادہ بم کی آواز سے پہچانتا ہے۔ حیلوم کو اپنی مختصر زندگی میں بہت کچھ سہنا پڑا ہے۔‘

ان کے مطابق ’میں ان پر اس جنگ کے طویل مدتی نفسیاتی اثرات سے خوفزدہ ہوں۔‘

انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کا کہنا ہے کہ ’نقل مکانی، ذہنی صدمہ اور سکول نہ جانے کے اثرات غزہ کے بچوں پر زندگی بھر کے لیے گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔‘

شمالی غزہ میں پھنسے ہوئے خالد کے بچے نہ صرف نفسیاتی صدمے سے دوچار ہیں بلکہ انھیں بہت ہی شدید بھوک کا بھی سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے جون میں لگائے گئے ایک تخمینے کے مطابق ’غزہ میں 96 فیصد لوگ خوراک کی شدید قلت کا شکار ہیں۔‘

حمود نے مکان کی چھت پر ایک عارضی جھنڈا نصب کیا ہوا ہے جو کہ اس بات کا اشارہ ہے کہ جہاز سے ان کے اس گھر پر بھی کھانا پھینکا جائے۔ ایک زوردار دھماکے سے زمین کانپ کر رہ جاتی ہے۔

ایک اسرائیلی طیارے نے ابھی ابھی ان کے گھر کے قریب ایک عمارت پر ایک بم گرایا ہے اور اب چند گھروں کے فاصلے پر واقع اس عمارت سے دھواں صاف نظر آتا ہے۔

حمود نے مایوسی سے کہا کہ ’جو طیارے بم گراتے ہیں مجھے وہ بالکل پسند نہیں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ اس کے بجائے ہمارے لیے خوراک پھینکیں۔‘

BBCاصیل

غزہ کے جنوب میں رہائش پذیر 24 برس کی ایک ماں اصیل اس بات پر غور کر رہی ہیں کہ وہ اپنی نوزائیدہ بچی حیات کو کیسے دودھ پلا سکتی ہیں۔

اصیل کہتی ہیں کہ مارکیٹ میں کسی بھی قسم کی خوراک دستیاب نہیں ہے کہ ’وہ ٹھیک سے کھا کر بچی کو دودھ پلا سکوں۔ لہٰذا اب میں اسے ڈبے والا دودھ پلانے پر مجبور ہوں۔‘

اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ نے خبردار کیا ہے کہ اس ماہ میں غزہ میں 17000 حاملہ خواتین اب قحط کے دھانے پر ہیں۔

اصیل کے شوہر ابراہیم کا کہنا ہے کہ ’جنگ کے دوران ڈبے والا دودھ، ڈائپرز اور باقی جو کچھ بچوں کو ضرورت ہوتا ہے وہ ناقابل یقین حد تک بہت مہنگی ہو چکی ہیں۔‘

ان چیزوں کی تلاش خود سے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اصیل نے یہ تصور نہیں کیا تھا کہ وہ پہلے چند ماہ اپنی بچی کے ساتھ یوں گزاریں گی۔

اصیل، ان کے شوہر اور ان کے 14 ماہ کی بچی ’روز‘ کو اسرائیل کی طرف سے دیے جانے والے انخلا کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے جنگ کے پہلے ہفتوں میں اپنا گھر چھوڑ کر جنوب کی طرف جانا پڑا۔

اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ اکتوبر 2023 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ میں دس میں سے نو فلسطینی کم از کم ایک بار بے گھر ہو چکے ہیں۔

آٹھ ماہ کی حاملہ اصیل کو جنوب کی طرف جانے کے لیے کئی میل کا وہ راستہ طے کرنا پڑا جسے نقل مکانی کے لیے محفوظ قرار دیا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس دوران ہمارے پاس ضرورت کے مطابق پانی نہیں تھا اور میں انیمیا (یعنی خون کی کمی کی بیماری) کا بھی شکار تھی۔

’راستے میں جگہ جگہ لاشیں پڑی تھیں۔ میرے ذہن میں میرے بیٹی روز اور اس بچی کا خیال آ رہا تھا جو میرے پیٹ میں تھی۔‘

اسرائیلی شیکل، امریکی ڈالر اور اردنی دینار: نقدی کے بحران کے شکار غزہ کے باسی لین دین کیسے کر رہے ہیں؟جنگ کے شعلوں میں گِھرے مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعے کا خاتمہ کیسے ممکن ہو گا؟غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات: معاہدے میں سب کا فائدہ لیکن ایسا ہونے کی امید اتنی کم کیوں؟لبنان میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال واکی ٹاکی اور پیجر دھماکوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ایک معاہدہ کیا۔ اصیل کے مطابق انھوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ’اگر انھیں دوران سفر کچھ ہو گیا تو پھر وہ اکیلے ہی سفر جاری رکھیں گی اور اپنی بیٹی روز اور پیٹ میں موجود بچے کا خیال رکھیں گی۔ اور اگر تھکاوٹ سے وہ بے ہوش ہو گئیں تو پھر ایسے میں وہ روز کے ساتھ آگے نکل جائیں گے اور مجھے ادھر ہی اسی حالت میں چھوڑ دیں گے۔‘

جب وہ بحفاظت جنوب میں واقع شہر دیر البلاح میں پہنچ گئے تو ان کے سامنے ایک اور مشکل کھڑی تھی۔ اس علاقے میں بمشکل ہی کوئی ایسی ہسپتال موجود تھی جہاں وہ اپنی بچی کو جنم دے سکیں۔ نصیرت میں واقع ال اودا ہسپتال وہ واحد جگہ تھی جہاں یہ سہولت دستیاب تھی۔

اصیل کی بیٹی حیات اس ہسپتال میں 13 دسمبر کو پیدا ہوئی۔ ان کے اس عربی نام کا مطلب زندگی بنتا ہے جو یہ سوچ کر رکھا گیا کہ جب جنگ ختم ہو جائے گی تو پھر وہ ایک پرسکون اور خوشیوں سے بھرپور زندگی گزار سکیں گے۔

بچی کی ماں کا کہنا ہے کہ یہ بالکل ایسا ہی لگا کہ جیسے تمام تر تباہی کے باوجود اس نے میرے اندر دوبارہ زندگی کی روح پھونک دی ہو۔ اس بچی نے مجھے یہ یاد دلایا کہ انتہائی مشکل صورتحال میں بھی زندگی کا سفر جاری و ساری رہتا ہے۔

فوٹوگرافر ابراہیم کو اپنی اہلیہ، اپنی بچی روز اور اپنی نوزائیدہ بچی حیات کو چھوڑ کر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر واپس روزگار کی تلاش میں نکل پڑے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جہاں وہ فریقین کی فائرنگ کی زد میں آ گئے اور بمشکل وہاں سے اپنی جان بچا کر نکل پائے۔ ان کے مطابق میں یہ سب انھیں بنیادی ضروریات زندگی پہنچانے کے لیے کر رہا ہوں، جس میں بچیوں کی نیپیز، ڈبے والا دودھ اور کپڑے شامل ہیں۔

ان کے مطابق مجھے ایسے لگتا ہے کہ پورے غزہ کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے۔ میں اپنی بچیوں کے لیے بہت پریشان ہوں اور مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں اپنی نوزائیدہ بچی کو یہ سب بنیادی ضروریات کی چیزیں دینے کے قابل نہیں ہوں۔ مئی میں ابراہیم اور اصیل ایک بار پھر دیرالبلاح میں اکھٹے ہوئے اور اپنے بچوں کو باہر سیر پر لے گئے۔

ابراہیم کا کہنا ہے کہ حیات کی زندگی میں ایک بھی ایسا دن نہیں آیا جب جنگ رک گئی ہو۔ وہ تباہی کے مناظر، بموں کی آوازوں اور ایسی خبروں کے دوران پیدا ہوئیں۔

چھ ماہ کی حیات گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر اپنی ماں کی گود میں ہیں۔ ان کی گاڑی تباہ شدہ عمارتوں کے قریب سے اور ایسی سڑکوں سے گزر رہی ہے جہاں ریت اور ملبے کے ڈھیر ہیں۔ ابراہیم کا کہنا ہے ’اس سب کے باوجود حیات مسکرا رہی ہیں۔‘

’غزہ میں اب ہر طرف قبریں ہی قبریں ہیں‘مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ چھڑ جانے کے کتنے امکانات ہیں؟امریکہ، چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر کھڑے مشرقِ وسطیٰ میں لڑائی رکوانے میں ناکام کیوں؟امریکہ، چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر کھڑے مشرقِ وسطیٰ میں لڑائی رکوانے میں ناکام کیوں؟کیا مبینہ نسل کشی پر اکسانے کے عمل کی روک تھام کے لیے اسرائیل کی کوششیں کافی ہیں؟اسرائیلی شیکل، امریکی ڈالر اور اردنی دینار: نقدی کے بحران کے شکار غزہ کے باسی لین دین کیسے کر رہے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More