بیٹی کے قتل کے جرم میں 21 برس سے قید شخص، جس کی سزائے موت ڈیڑھ گھنٹے پہلے روک دی گئی

بی بی سی اردو  |  Oct 18, 2024

امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے جج نے ایک ایسے شخص کی سزائے موت کو صرف دو گھنٹے پہلے روک دیا جنھیں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ’شیکن بیبی سنڈروم‘ کے تحت اپنی ہی بیٹی کے قتل کے جرم میں سزائے موت کا سامنا تھا۔

رابرٹ رابرسن کو سنہ 2003 میں اپنی بیٹی نکی کرٹس کے قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ نکی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کی موت تشدد کے باعث پہنچنے والے زخموں کے باعث ہوئی۔

دو برس کی نکی 31 جنوری 2002 کو اپنے والد کے بازوؤں میں ہسپتال بے ہوشی کی حالت میں پہنچی تھیں اور اسی حالت میں ہی دم توڑ گئی۔

ڈاکٹروں کے مطابق نکی کی موت کی وجہ دماغ کی ایک سنگین چوٹ ’شیکن بے بی سنڈروم‘ (Shaken baby syndrome) بنی، جو دو سال سے کم عمر کے بچے کو زبردستی بہت زیادہ ہلانے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس سے دماغ کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔

جیوری کو یقین ہو گیا کہ رابرسن ہی اس کے ذمہ دار تھے کیونکہ نکی کی موت کی تحقیقات کرنے والے برائن وارٹن نے مقدمے کی سماعت کے دوران بتایا تھا کہ رابرٹ رابرسن نے اپنی بیٹی کی موت پر کوئی خاص ردعمل یا جذبات کا اظہار نہیں کیا۔

رابرسن اور ان کے وکلا کی جانب سے ہمیشہ سے یہی مؤقف اختیار کیا گیا کہ نکی کی موت نمونیا کے باعث ہوئی۔

امریکی میڈیا کے مطابق جج کی جانب سے ان کی سزائے موت کو روکنے کے بعد رابرسن نے حیرانی کا اظہار کیا اور اپنے حمایتیوں کا شکریہ ادا کیا۔

خیال رہے کہ رابرسن کو جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق چھ بجے سزائے موت دی جانی تھی لیکن صرف ڈیڑھ گھنٹہ قبل ٹریوس کاؤنٹی کے ایک جج نے عارضی طور پر سٹے دے دیا تاکہ اگلے ہفتے رابرسن عدالت کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروا سکیں۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب ٹیکساس کی پارلیمان نے بدھ کو رابرسن کی عدالت میں پیشی کے حوالے سے ایک درخواست دائر کی تھی اور اس امید کا اظہار کیا تھا کہ حکام کو انھیں 21 اکتوبر کو ایک عدالتی سماعت میں بھیجنا پڑے گا۔

ایک تنظیم جس میں ٹیکساس کے 86 ارکانِ پارلیمان، درجنوں طبی سائنسی ماہرین، وکلا، مصنف جان گرشم اور ایسے رپبلکنز بھی شامل ہیں، جو سزائے موت کے حق میں ہیں، انھوں نے بھی رابرسن کو معاف کرنے کی درخواست کی۔

اس تنظیم کا ماننا ہے کہ یہ سزا سائنس کے فرسودہ عقائد کی بنیاد پر دی گئی اور حکام کو ’شیکن بیبی سنڈروم‘ کے حوالے سے کچھ خاص تفصیلات موجود نہیں تھی۔

مصنف جان گرشم نے ستمبر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’رابرٹ کے کیس میں کوئی جرم ہوا ہی نہیں تھا لیکن پھر بھی ہم اسی بنا پر ٹیکساس میں ایک شخص کو قتل کرنے جا رہے ہیں۔‘

رابرسن کے وکلا بھی کہہ چکے ہیں کہ ان میں آٹزم کی تشخیص نکی کی موت سے پہلے نہیں ہوئی تھی اور اسی وجہ سے پولیس اور میڈیکل سٹاف کے سامنے انھوں نے اپنے جذبات نہیں دکھائے تھے۔

نکی کی موت کے وقت رابرسن کی عمر 35 سال تھی۔ وہ سنگل پیرنٹ تھے اور دو ماہ قبل ہی انھوں نے نکی کی کسٹڈی حاصل کی تھی۔

نکی کی موت کے ایک سال بعد 21 فروری 2003 کو ٹیکساس میں رابرسن کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

سنہ 2018 میں 15 سال جیل میں گزارنے کے بعد رابرسن میں آٹزم کی تشخیص ہوئی۔

یہ بھی پڑھیےسزائے موت کے قیدی محمد انور جو تختہ دار تک پہنچنے کے بعد رہا ہوئے’میں ہر وقت اضطراب میں مبتلا رہتا ہوں‘: وہ قیدی جنھیں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت دی جائے گیسعودی عرب میں خفیہ سزائے موت: ’دفنانے کے لیے لاش ہے، نہ فاتحہ کے لیے قبر‘’اگر میں ہی رونے لگا تو باپ بیٹی کے درمیان ہوئے وعدے پورے نہ ہو سکیں گے‘کیس میں تین غلطیاں

معافی کی درخواست میں اس کیس میں ان تین غلطیوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو رابرٹ کے وکلا کے مطابق ان کی بے گناہی ثابت کریں گی۔

پہلی غلطی یہ کہ ڈاکٹروں نے ’ڈبل نمونیا‘ کی علامات پر غور کیے بغیر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نکی کی موت ’شیکن بے بی سنڈروم‘ سے ہوئی کیونکہ بے ہوش ہونے سے پہلے نکی کو 40 ڈگری بخار تھا۔

معافی کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اب ہم جانتے ہیں کہ نکی کے پھیپھڑے شدید متاثر ہوئے تھے اور بے ہوش ہونے سے پہلے وہ کئی دن سے آکسیجن کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔‘

ایک نئے پوسٹ مارٹم میں پھیپھڑوں کے ٹشوز کے جمع کرنے سے یہ بات سامنے آئی کہ نکی دو قسم کے نمونیا (انٹرسٹیشل وائرل اور سیکنڈری ایکیوٹ بیکٹیریل) میں مبتلا تھی، جس سے اس کے پھیپھڑے پھٹ گئے تھے۔

درخواست کے مطابق ڈاکٹروں نے اس وقت اس بات پر غور نہیں کیا کہ نکی کی میڈیکل ہسٹری میں ’انفیکشنز شامل ہیں اور کئی اینٹی بائیوٹکس سے ان کا علاج نہیں کیا جا سکا۔

اس کیس میں رابرٹ کے وکیل کا دوسرا الزام یہ ہے کہ حکام نے ’ڈاکٹروں کے مفروضوں کو درست تسلیم کیا اور اس معاملے کی مزید تفتیش نہیں کی۔‘

رابرٹ کے وکیل کے مطابق نکی جب ہسپتال میں مر رہی تھیں تو رابرٹ کو ان سے ملنے نہیں دیا گیا اور پھر انھیں حراست میں لے لیا گیا۔

دستاویز میں سائنسی شواہد کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نکی میں موجود علامات دیگر وجوہات سے بھی منسوب ہو سکتی ہیں، جیسے کہ نمونیا جس سے دماغ میں آکسیجن کی ترسیل رک جاتی ہے اور اس سے موت واقع ہو سکتی ہے۔

جیل میں رابرسن کی قید کے دوران ’شیکن بے بی سنڈروم‘ نے اپنی وہ سائنسی ساکھ بھی کھو دی ہے، جس کی وجہ سے اسے مجرمانہ مقدمات میں ٹھوس ثبوت سمجھا جاتا تھا۔

تیسری غلطی یہ کہ طبی عملے اور پولیس نے رابرسن کے ردعمل کی غلط انداز میں تشریح کی۔

’انھوں نے رابرٹ کے غیر اعصابی رویے، جو آٹزم کی وجہ سے ہے، کو نکی کی موت پر جذبات کی کمی کے طور پر دیکھا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔‘

معافی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’نکی کی موت کوئی جرم نہیں تھا۔ والدین اکثر پیچیدہ طبی مسائل کی وضاحت نہیں کر سکتے جو کبھی کبھی تربیت یافتہ طبی پیشہ ور افراد بھی نہیں سمجھ سکتے۔‘

’دل اور روح پر بوجھ‘

رابرسن کے خلاف گواہی دینے والے برائن وارٹن نے دو دہائیوں بعد تسلیم کیا کہ پوری کارروائی بے بنیاد تھی۔

گذشتہ برس برطانوی اخبار ’دا گارڈیئن‘ کو ایک انٹرویو میں برائن وارٹن نے بتایا کہ ’کوئی کرائم سین یا فرانزک ثبوت نہیں تھا۔ صرف تین الفاظ تھے’شیکن بے بی سنڈروم‘۔

وارٹن جنھوں نے بعد میں اپنا پولیس کیرئیر چھوڑ دیا، اب ایک چرچ میں کام کرتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف رابرسن کی معافی کی درخواست پر دستخط کیے بلکہ معافی مانگنے کے لیے جیل میں رابرسن سے ملاقات بھی کی۔

امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی دستاویزی فلم کے ایک سین میں آپ وہ لمحہ دیکھ سکتے ہیں جب وارٹن جیل میں رابرسن کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں اور شیشے کے آر پار بات کرنے کے لیے فون استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔

وہ رابرسن کو کہتے ہیں کہ ’مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ یہاں ہیں۔ آپ ابھی تک یہیں ہیں۔ یہ ہماری غلطی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم نے غلطی کی۔‘

برسوں بعد رابرسن کے وکیل، وارٹن کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور انھیں بتاتے ہیں کہ رابرسن میں آٹزم کی تشخیص ہوئی ہے، جس سے رابرٹ کو اندازہ ہوتا ہے کہ نکی کی موت کے وقت ان کا رویہ جذبات سے خالی کیوں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کیس میرے دل اور روح پر بوجھ بن گیا۔‘

فلم کے سین میں وارٹن سے بات کرتے وقت قیدی ہکلاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’میں اسے واپس لانے کے لیے کچھ بھی کروں گا۔‘

اس گفتگو کے اختتام پر وارٹن، رابرسن سے یہ پوچھنے کی ہمت کرتے ہیں کہ وہ اپنی سزا کے ذمہ داران افراد سے کیا کہنا چاہیں گے؟

’میں بتانا چاہوں گا کہ میں آپ سب کو معاف کرتا ہوں۔ میں صرف امید اور دعا کرتا ہوں کہ ہم مل کر چیزیں ٹھیک کر سکیں۔‘

سعودی عرب میں بیٹے کو سزائے موت سے بچانے کے لیے ’خون بہا‘ کی رقم جمع کرتی ماں کی کہانیسزائے موت کے قیدی محمد انور جو تختہ دار تک پہنچنے کے بعد رہا ہوئے’میں ہر وقت اضطراب میں مبتلا رہتا ہوں‘: وہ قیدی جنھیں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت دی جائے گیسعودی عرب میں خفیہ سزائے موت: ’دفنانے کے لیے لاش ہے، نہ فاتحہ کے لیے قبر‘وہ ماں جس نے ’مورفین دے کر اپنے سات سالہ بیٹے کی زندگی ختم کی‘’اگر میں ہی رونے لگا تو باپ بیٹی کے درمیان ہوئے وعدے پورے نہ ہو سکیں گے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More