یورپ کے دفاعی اخراجات میں اضافہ لیکن سپاہیوں کی کمی کا سامنا: رپورٹ

اردو نیوز  |  Nov 08, 2024

ایک برطانوی سکیورٹی تھنک ٹینک نے خبردار کیا ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے یورپ نے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے، لیکن فوجی افرادی قوت سمیت اس کی دفاعی صلاحیتیں اب بھی ناکافی ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سکیورٹی سٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کی رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ یورپ کی سکیورٹی کو متاثر کر سکتے ہیں اور جنگ سے تباہ حال یوکرین کی مدد روک سکتے ہیں۔  

آئی آئی ایس ایس نے اپنی تازہ ترین رپورٹ چیکیا میں ’پراگ ڈیفنس سمٹ‘ کے موقعے پر شائع کی ہے جہاں سیاستدان، فوجی حکام اور دیگر ماہرین اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ وہ یورپ کی دفاعی پوزیشن کو بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کر سکیں۔

آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے نے یورپ کی دفاع کی صلاحیت میں متعدد کمزوریوں کو ظاہر کیا۔  

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 2024 میں نیٹو کے یورپی اراکین کے دفاعی اخراجات 2014 کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد زیادہ ہو گئے ہیں جب روس نے کریمیا کو ضم کر لیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق یورپ نے فوجی شعبوں کے لیے امریکہ پر انحصار کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سرد جنگ کے خاتمے اور اس کے بعد کے سیاسی فیصلوں کے نتیجے میں یورپ کے ہتھیاروں کے ذخیرے میں شدید کمی واقع ہوئی۔ اسی طرح یورپ میں دفاعی صنعت بھی سکڑ گئی۔‘

لیکن 2022 سے فضائی دفاع اور توپ خانے سمیت بعض شعبوں میں پیداوار میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے کیونکہ اسلحہ ساز یوکرین کی ضروریات  کو پورا کر رہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں یورپی ممالک مقامی کمپنیوں سے زیادہ ہتھیار خرید رہے ہیں کیونکہ براعظم کے نیٹو ممبران نے فروری 2022 سے یورپی سسٹمز پر اپنے اخراجات کا نصف سے زیادہ استعمال کیا ہے جبکہ 34 فیصد امریکی سسمٹز پر خرچ کیا گیا۔

آئی آئی ایس ایس کے مطابق جب ہتھیاروں اور گولہ بارود کی پیداوار بڑھ رہی ہے، یورپ بھر کے ممالک کو فوجی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔

’اہم یورپی ممالک کی مسلح افواج میں سپاہیوں کی تعداد کم رہی ہے، متعدد ملکوں کے فوجی اہلکاروں میں کمی کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ فوج میں بھرتی کے لیے نوجوانوں کو راغب نہیں کیا جا سکا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More