ایک واقعہ کسی کی زندگی کو کتنا بدل سکتا ہے یہ کوئی سالم علی کی زندگی سے جان سکتا ہے جنہیں لوگوں نے ’برڈ مین‘ کے طور پر جانا اور وہ انڈیا کے اولین اورنتھولوجسٹ یعنی ماہر طیور کہلائے۔سالم علی انگریز کے عہد میں بامبے پریزیڈنسی میں 12 نومبر 1896 کو ایک سلیمانی بوہرا خاندان میں پیدا ہوئے۔ ابھی وہ ایک سال کے ہی تھے کہ ان کے والد معیز الدین عبدالعلی نے آنکھیں موندھ لیں اور جب وہ تین سال کے ہوئے تو ان کی والدہ زینت النسا بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ان دونوں کی وفات کے بعد ان کے ماموں امیر الدین طیب جی اور ان کی اہلیہ حمیدہ بیگم نے باقی بھائی بہنوں کے ساتھ سالم علی کی پرورش کی۔سالم علی جب دس سال کے ہوئے تو ان کے ایک چچا نے انھیں چڑیا مارنے والی ایک ايئر گن دلا دی اور یوں چڑیوں کا شکار ان کا شوق بن گیا۔
لیکن ایک دن ان کی ایئر گن کی زد میں ایک خوبصورت سی چڑیا آ گئی اور جب انہوں نے اس چڑیا کو اپنے چچا کو دکھایا تو انہوں نے نوخیز سالم علی کو بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی (بی این ایچ ایس) میں اس کی شناخت کے لیے بھیج دیا جس سے سالم علی کے رضاعی دادا منسلک تھے۔
یہاں ان کی ملاقات سوسائٹی کے اعزازی سیکریٹری ڈبلیو ایس میلارڈ سے ہوئی جنھوں نے اس چڑیا کی شناخت زرد گردن والی گوریا سے کی اور انھوں نے دس سال کے سالم علی کو وہاں کے میوزیم میں بھوسے سے بھری چڑیاں دکھائیں جس سے سالم علی کا شوق چڑیوں میں پیدا ہوا اور وہ تمام عمر چڑیوں کے پیچھے بھاگتے رہے۔ان کی تصینف ’دی فال آف اے سپیرو‘ یعنی ایک گوریا کا گرنا ان کی سوانح حیات ہے اور وہ اس واقعے کو ان کی زندگی کا رخ موڑنے والا واقعہ قرار دیتے ہیں۔انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کی چڑیوں کے متعلق وسیع تحقیق کی ہے اور ان کی تصانیف طیور کے مطالعے کے لیے انجیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔موٹر سائیکل کے عاشقسالم علی کو صرف چڑیوں کا شوق نہیں تھا بلکہ وہ موٹر سائیکل کے بھی بہت دلدادہ تھے۔ اگرچہ ان کو رفتار اور موٹر سائیکل سے کم عمری سے ہی لگاؤ تھا لیکن جب وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر خاندانی کاروبار کی نگرانی کے لیے میانمار چلے گئے تو انھوں نے وہاں جرمنی کی بنی اپنی پہلی موٹر سائيکل لی۔یہ این ایس یو کمپنی کی 5۔3 ایچ پی موٹر سائیکل تھی، جس پر وہ میانمار کے جنگلوں میں فراٹے بھرتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے جان مارسٹن لمیٹڈ کی سن بیم موٹر سائیکل لی جبکہ ان کے پاس ہارلی ڈیوڈسن کے تین ماڈلز تھے۔ اس کے علاوہ ہڈسن، سکاٹ، نیو ہڈسن اور زینتھ کمپنیوں کی موٹر سائیکلیں بھی ان کے پاس تھیں۔سالم علی کو ان کی خدمات کے لیے انڈیا کا دو اہم ترین شہری یا سول ایوارڈ پدم بھوشن اور پدم ویبھوشن سے نوازا گیا۔ (فوٹو: بشکریہ دی پرنٹ)ان کے موٹر سائیکل کے کریز کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ جب سویڈن کی اپسلا میں 1950 میں انٹرنیشنل اورنتھولوجیکل کانگریس کا اجلاس ہوا اور اس میں انہیں شرکت کی دعوت دی گئی تو انھوں نے بمبئی سے ایس ایس سٹراتھیڈن جہاز سے اپنی ’سن بیم‘ موٹر سائیکل منگوائی اور یورپ کے کئی ممالک سے گزرتے ہوئے اپسلا پہنچے تو ان کے بارے میں یہ خبر پھیل گئی کہ وہ بمبئی سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اپسلا پہنچے ہیں۔اس ایڈونچر میں فرانس میں انھیں تھوڑی چوٹ بھی آئی تھی اور جرمنی میں وہ کئی جگہ گرے بھی تھے لیکن اس کا انہیں افسوس نہیں تھا اور اگر انہیں افسوس تھا تو اس بات کا تھا کہ ان کے پاس بی ایم ڈبلیو کی موٹر بائیک کیوں نہ تھی۔سالم علی جب 13 سال کے ہوئے تو ان کے سر میں درد رہنے لگا اور ان کی تعلیم اس سے متاثر ہوئی۔ یہاں تک کہ انہیں ان کے ایک چچا کے پاس اس خیال کے تحت سندھ بھیج دیا گیا کہ وہاں کی خشک آب و ہوا شاید انہیں راس آجائے۔ بہر حال انہوں نے واپسی پر بامبے یونیورسٹی سے 17 سال کی عمر میں میٹریکولیشن کیا۔اس کے بعد وہ برما چلے گئے لیکن پھر وہاں سے آنے کے بعد انہوں نے تعلیم دوبارہ جاری رکھنے کی کوشش کی۔ اسی دوران انہوں نے 22 سال کی عمر میں ایک دور کی رشتہ دار تہمینہ سے شادی کر لی اور تہمینہ چڑیوں سے ان کی دلچسپی کے معاملے میں ان کی بہت مددگار ثابت ہوئیں اور دونوں نے مل کر ایک عرصے تک ہندوستان بھر کی چڑیوں کا مطالعہ کیا لیکن ان کی کم عمری کی موت نے سالم علی کو پھر چڑیوں کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا۔ان کے چڑیوں کے مطالعے میں بیا نامی چڑیے کا مطالعہ بہت دلچسپ ہے اور انہوں نے پہلی بار دنیا کو یہ بتایا کہ یہ چڑیا پولیگیمی یعنی ایک سے زیادہ زوجگی کی قائل ہے۔بیا کے بارے میں آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ چڑیا انتہائی عمدہ گھر بنانے کی ماہر کہلائی جاتی ہے اور یہ بہت اونچے درخت، عام طور پر تاڑ کے درخت کے چھجوں پر اپنے گھونسلے انتہائی نفاست سے بناتی ہے۔اس میں ایک دروازہ داخلے کے لیے تو دوسرا نکلنے کے لیے ہوتا ہے۔ اور یہ وہ حفاظتی انتظام کے لیے بناتی ہے تاکہ اگر سانپ اس کے گھونسلے میں ایک دروازے سے داخل ہو تو وہ دوسرے دروازے سے فرار ہو جائے۔اتنا ہی نہیں وہ تاڑ کے پتوں کے ساتھ اپنے گھونسلے کو اس مضبوطی کے ساتھ بنتی ہے کہ تیز سے تیز آندھیوں میں بھی اس کا گھونسلا محفوظ رہتا ہے۔سالم علی چڑیوں کے نام سے زیادہ اس کی انواع و اقسام پر فریفتہ تھے اور ان کی حرکات و سکنات پر ان سے زیادہ ماہر شاید کوئی دوسرا ماہر طیور نہیں تھا۔ (فوٹو: سیکون)اگر آپ کو کبھی اس کا گھونسلہ دیکھنے کا اتفاق ہو تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں ایک جگہ خاصی مٹی ہوتی ہے اور اس میں مردہ کیڑا ہوتا ہے۔ در اصل وہ گیلی مٹی میں جگنو کو پکڑ کر لاتی ہے اور اس میں اڑس دیتی ہے تاکہ اس سے اسے اور اس کے بچوں کو روشنی ملتی رہے۔سالم علی پہلے ماہر طیور ہیں جنھوں نے مغل بادشاہوں کو چڑیوں کو بچانے والا اور انھیں نیچرلسٹ قرار دیا۔ انھوں نے دنیا بھر کے ماہرین طیور کے ساتھ نہ صرف انڈیا بلکہ افغانستان اور یورپ میں کام کیا انھوں نے ان کے پاؤں یا پنکھ پر شناختی کارڈ لگانے کا ہنر سیکھا اور اس کے ساتھ چڑیے کی کھال اتارنے کا ہنر بھی سیکھا۔لیکن ان کے ساتھی ماہرین طیور کا کہنا ہے کہ سالم علی کو ان چیزوں سے زیادہ دلچسپی چڑیوں کی زندگی کا مطالعہ کرنے میں تھی۔سالم علی چڑیوں کے نام سے زیادہ اس کی انواع و اقسام پر فریفتہ تھے اور ان کی حرکات و سکنات پر ان سے زیادہ ماہر شاید کوئی دوسرا ماہر طیور نہیں تھا۔انہوں نے چڑیوں پر کئی کتابیں تحریر کی ہیں اور ان کی کتابیں بہت سے تعلیمی اداروں کے نصاب میں بھی شامل ہے اس کے علاوہ ان کے خاندان کے کئی افرد نے ان کی دیکھا دیکھی اس میدان کو اپنایا اور آج وہ بھی ان کے راستے پر گامزن ہیں۔سالم علی کو ان کی خدمات کے لیے انڈیا کا دو اہم ترین شہری یا سول ایوارڈ پدم بھوشن اور پدم ویبھوشن سے نوازا گیا جبکہ موت سے قبل انھیں راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں رکن پارلیمان بھی نامزد کیا گیا۔ اور ان کے نام پر کئی میوزیم ہیں۔20 جون 1987 کو ان کی موت کے بعد گوا کے پاس ان کے نام پر ایک برڈ سینکچوری قائم کی گئی۔ انہوں نے آزادی سے قبل متعدد شاہی ریاستوں کی درخواست پر وہاں کے پرندوں پر تحقیق کی ہے اور ان کی درجہ بندی کی ہے۔انہوں نے اپنے آخری ایام بمبئی سے دور بتائے لیکن 90 سال کی عمر میں بھی ان میں چڑیوں کے متعلق اسی دس سال کے بچے کا سا تجسس تھا جس نے گردن پر زرد ڈوری والی ایک گوریا کو مار گرایا تھا۔