کچھ لوگ خود لذتی اور آن لائن سیکس کے ذریعے مشکل احساسات سے فرار کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Nov 09, 2024

Getty Images

پیرو سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ ژیاکومو رونکایولو بطور مصنف خود میں خامیاں نکالتے رہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات گردش کرتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے انھیں اپنی قابلیت پر شک رہتا ہے۔

تاہم اس احساس کمتری کے باوجود انھوں نے چار سال لگا کر ایک ناول لکھا جس کا موضوع ان کی اپنی سوچ کے اردگرد ہی گھومتا ہے۔ ناول کی کہانی شدید احساسِ ندامت، غیر معمولی جنسی رویے، جنسی خواہش کی حد، پورنوگرافی کی لت اور ان تمام چیزوں میں ٹیکنالوجی کے کردار پر مبنی ہے۔

ہسپانوی زبان میں لکھے ناول (The Fantastic Dream of Annihilating This) کے مرکزی کردار خائمے نامی نوجوان کو ورچوئل سیکس کی لت لگ جاتی ہے۔

ورچوئل سیکس سے مراد انٹرنیٹ پر بذریعہ ویڈیو خود لذتی ہے۔ یہ کسی بھی طرح کی ویڈیوز ہو سکتی ہیں جنھیں دیکھ کر آپ میں سیکس کرنے کی خواہش جاگ اٹھے۔

تاہم ورچوئل سیکس میں صرف انٹرنیٹ پر پڑی دیگر ویڈیوز ہی نہیں بلکہ براہ راست کسی انٹرنیٹ صارف کے ساتھ خود لذتی کرنا بھی شامل ہے۔

ناول میں خائمے اپنی گرل فرینڈ کی کم عمر کزن کی گھر پر بنی ہوئی ایک ویڈیو دیکھتے ہیں جس میں وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ جکوزی (سوئمنگ پول کی طرح کا ایک ٹب جو اکثر گھر سے باہر رکھا ہوتا ہے) میں نہا رہی ہوتی ہیں۔

گھر پر بنی جکوزی میں نہاتی ہوئی ان کم عمر لڑکیوں کی ویڈیو دیکھ کر انھیں کم عمر لڑکیوں کی پورن ویڈیوز دیکھنے کی لت لگ جاتی ہے۔ انھیں اپنی اس ’دلچسپی‘ سے کافی احساس ندامت محسوس ہوتا رہتا ہے۔

کچھ دن بعد ان کی گرل فرینڈ کی کم عمر کزن غائب ہو جاتی ہے۔ لڑکی کی گمشدگی کے بعد خائمے کی اس سے رغبت جنون کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ان کا احساس ندامت مزید گہرا ہو جاتا ہے۔

مصنف ژیاکومو رونکایولو کہتے ہیں کے ناول لکھتے وقت انھیں اپنے بارے میں کئی انکشافات ہوئے جن کے باعث انھیں اپنے اندر بھرے احساس جرم اور اپنی حد کے بارے میں علم ہوا۔

ژیاکومو رونکایولو نے اپنا ادبی کریئر 24 برس کی عمر میں شروع کیا تھا۔ ان کا پہلا ناول ’اموک‘ سنہ 2018 میں شائع ہوا تھا۔ لاطینی امریکہ کے سب سے باوقار انعامات میں سے ایک ’کلرین ناول پرائز‘ کے لیے انھیں بطور فائنلسٹ بھی منتخب کیا گیا تھا۔

یہ کتاب لکھنے کا خیال کیسے آیا؟

ژیاکومو رونکایولو کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ جب میں بلوغت کی عمر میں داخل ہو گیا تھا تب مجھے ’سیریئل ایکسپیریمنٹس لین‘ نامی جاپانی اینیمیٹڈ فلمیں دیکھنے کا بے حد شوق ہو گیا تھا۔

اس سیریز میں 90 کی دہائی دکھائی گئی، جب انٹرنیٹ اور چیٹ رومز نئے نئے عام ہوئے تھے۔

سیریز میں ایک کردار اپنے سکول میں خود کشی کر لیتی ہے تاہم اسی شام یہی مردہ لڑکی چیٹ رومز کے ذریعے اپنی دوست سے رابطہ قائم کر لیتی ہے۔

مجھے یہ خیال بہت دلچسپ لگا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے زندہ لوگوں کی دنیا اور مر جانے والوں کی دنیا میں رابطہ قائم ہو سکتا ہے۔

اس سیریز میں جو تجسس پایا جاتا ہے اسی طرح ناول کی کہانی بھی سنسنی خیز ہو جاتی ہے۔

کم عمر لڑکی کی گمشدگی ایک بہت بڑا معمہ بن جاتا ہے۔ پولیس کی تفتیش میں تیزی سے انکشافات ہونے لگتے ہیں۔

ناول کا مرکزی کردار خائمے بھی ایک طرح کا جاسوس بن جاتا ہے جس کی اس لڑکی میں دلچسپی جنون اختیار کر چکی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے خائمے پر بھی شک ہو جاتا ہے کہ کہیں وہ بھی اُس لڑکی کی گمشدگی میں تو ملوث نہیں۔

Getty Imagesاحساس ندامت کے کس پہلو نے آپ کی توجہ حاصل کی؟

میرے خیال میں ہم یہ سوچنے کے عادی ہیں کہ احساس ندامتصرف کسی خاص عمل کے نتیجے میں محسوس ہوتا ہے، یعنی میں نے کسی کو مارا ہو اور اس لیے میں خود کو مجرم محسوس کرتا ہوں۔

لیکن میرے نزدیک ہم سب میں کسی نہ کسی سطح پر یہ احساس جرم موجود ہوتا ہے۔ یہ احساس ہمارے وجود کا حصہ ہے چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں، چاہے ہم اچھے ہیں یا برے۔ ہم اسے محسوس کرنے پر مجبور ہیں۔

میں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکی کی گمشدگی کے معاملے میں مرکزی کردار کا جرم قدرے مبہم ہے۔

اس نے لڑکی کو چھوا نہیں ہوتا بلکہ اس کی ویڈیو دیکھتے ہوئے خود لذتی کی ہوتی ہے اور اس کے باوجود کہ وہ اُس لڑکی کی گمشدگی کا ذمہ دار نہیں، وہ احساس جرم میں مبتلا رہتا ہے جیسے اس نے کچھ غلط کیا ہو۔

اس بات کا فیصلہ قارئین خود کر سکتے ہیں کہ اس نے کتنا غلط کام کیا۔ مجھے یہ ابہام دلچسپ لگتا ہے۔

سیکس کے نئے معنی تلاش کرنے والی خواتین جو پوشیدہ خواہشات کے بارے میں لکھ رہی ہیں’ہم فلم میں پورن کو الگ انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے جس میں خواتین مظلوم نہ لگیں‘جنوبی کوریا کے ’پہلے اور سب سے بڑے‘ سیکس فیسٹیول کی منسوخی: ’یہ میلہ خواتین کے لیے نہیں کیونکہ ٹکٹ خریدنے والے زیادہ تر مرد ہیں‘اچھی سیکس لائف کا راز: جنسی تعلق کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟مرکزی کردار کو پورن کی لت کہاں سے لگتی ہے؟

خائمے کی طرح بہت سے لوگ کو معلوم نہیں ہوتا کہ ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے احساسات کو کیسے سنبھالا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر مفت میں پورن ویڈیوز دیکھنے کی مکمل آزادی سے کیسے نمٹا جائے جنھیں دیکھتے دیکھتے آپ ان کے عادی ہو جاتے ہیں۔

شاید اسی حقیقت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ 20 سال پہلے انٹرنیٹ نے دنیا کے تمام نوعمر لوگوں کو ایک کلک کے ساتھ ہر اس چیز تک رسائی کی اجازت دے دی تھی جو پہلے ممنوع تھی یا اس تک رسائی مشکل تھی۔

یقیناً اسی وجہ سے پورنوگرافی کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔

آپ ورچوئل قربت کو کیسے دیکھتے ہیں؟

میرے خیال میں یہ مثبت یا منفی دونوں ہو سکتی ہے تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اسے (آن لائن سیکس کو)کیسے استعمال کرتے ہیں۔

میرے خیال میں (آن لائن) جنسی رغبت جیسے ایک بالغ شخص کا پورن ویڈیو دیکھنا یا ویب کیم کے ذریعے اپنی نمائش کرنے کو معیوب سمجھ کر اس حوالے سے تحقیق کرنا ضروری نہیں۔

تاہم اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، جیسے بچوں کی پورنو گرافی یا دیگر جرائم۔

انٹرنیٹ ایک بہترین جگہ ہے جہاں ہم اپنی فینٹسیز کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ ہم انھیں معیوب نہ سمجھیں کیونکہ ان کی وجہ سے ہم میں سے کئی لوگ حقیقی زندگی میں کام کرنے کے قابل رہتے ہیں۔

تاہم مرکزی کردار چیزوں کو ہاتھ سے نکلنے دیتا ہے۔۔۔ وہ اپنی گرل فرینڈ سے چھپ چھپ کر پورن ویڈیوز دیکھتا ہے جو اس کے برابر میں ہی سو رہی ہوتی ہے۔

اس کا ایسا کرنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی گرل فرینڈ اسے خود لذتی کرتے ہوئے دیکھے۔

یہ خود کو تباہ کرنے کی خواہش کا ایک حصہ ہے۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمارے ذہن اس قسم کی سوچ میں مبتلا ہو گئے ہیں اور ہم ٹیکنالوجی کی ہی وجہ سے ایسی لت کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن ایسا نہیں۔

خائمے کی طرح کئی لوگ ہیں جو خود پر قابو کھو دیتے ہیں اور غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

میرے خیال میں انٹرنیٹ کی وجہ سے کوئی انسان غیر معمولی جنسی رویوں میں ملوث نہیں ہوتا۔ وہ پہلے ہی سے ایسے کاموں کی طرف رغبت رکھتا ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت ایسے لوگوں کے اندر موجود یہ خواہشات سامنے آ جاتی ہیں اور ہمیں ان کی سوچ دکھائی دینے لگتی ہیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی بہت وسیع اور آزاد طریقے سے ہوئی۔ اس کی مفت رسائی سے ہم جیسے لوگوں کو بہت فائدہ ہوا ہے جو جنوبی ممالک میں رہتے ہیں۔

پیرو جیسے ممالک میں انٹرنیٹ کی وجہ سے کئی چیزیں ممکن ہو سکی ہیں بھلے وہ اچھی ہوں یا بری۔

یہاں انٹرنیٹ کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں جیسے شمال کے دیگر ممالک میں ہے۔ وہاں آپ کچھ مخصوص چیزوں کو انٹرنیٹ پر نہیں ڈھونڈ سکتے کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو پولیس آپ کے پاس پہنچ جائے گی اور آپ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔

انٹرنیٹ نے ہمارے اندر کافی تبدیلیاں پیدا کی ہیں تاہم ان تبدیلیوں کا پیمانہ کیا ہے، یہ ہمیں ابھی تک معلوم نہیں۔ اس معاملے میں کسی نتیجے پر پہنچنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ آنے والی نسلوں پر انٹرنیٹ کا اثر واضح ہو گا۔

ایسا کرنے کی خواہش کیوں پیدا ہوتی ہے؟

میرے خیال میں اس کا تعلق احساس جرم سے ہے۔ وہ ایک ایسا کردار ہے جو جنسی احساس ندامت سمیت ہر قسم کے احساس ندامت کے ساتھ جی رہا ہوتا ہے۔

اس کا تعلق اس کے خاندانی رشتوں سے بھی ہے۔ وہ اپنے خاندان سے خود کو دور کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی والدہ اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں لیکن وہ انھیں نظر انداز کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی سے نفرت کرتا ہے۔

اس نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہوتی ہے۔ خود کو الگ تھلگ رکھتا ہے۔

وہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس کے صرف تین دوست ہوتے ہیں، اس کی بہن، وہ شخص جس کے ساتھ وہ رہتا ہے اور اس کی گرل فرینڈ۔

وہ اپنی والدہ کو اپنے والد اور ان کی بیماری کے ساتھ تنہا چھوڑنے کے بعد بہت زیادہ احساس ندامت محسوس کرتا ہے۔

ان سب مسائل کی وجہ سے وہ خود کو آہستہ آہستہ تباہ کرنے کے راستے پر چل پڑتا ہے۔

یہی کچھ وجوہات ہوتی ہیں جن کی بنا پر وہ اپنی گرل فرینڈ کی کزن کی ویڈیو دیکھ کر خود لذتی کرتا ہے حالانکہ اس کی گرل فرینڈ اس کے برابر میں ہی موجود ہوتی ہے۔

اس میں ایک عجیب سا احساس ندامت پنپ رہا ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اس احساس کو کسی ٹھوس وجہ سے جوڑ کر اسے ایک نام دے سکے۔

اسی وجہ سے جب وہ اپنی گرل فرینڈ کی کزن کی ویڈیو دیکھ کر خود لذتی کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس لیے برا ہے کیوںکہ اس نے غیر معمولی جنسی رویہ اختیار کر لیا ہوتا ہے۔

اب اسے اپنے اس رویے کی بنا پر احساس ندامت محسوس ہوتا ہے۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ خائمے اپنے اندر کے خالی پن کو ورچوئل سیکس سے بھرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

ورچوئل سیکس کے ذریعے اسے اپنی زندگی کا مقصد مل رہا ہوتا ہے۔ خود کشی کے خیالات سے خود کو محفوظ رکھنا چاہ رہا ہوتا ہے۔

تاہم ورچوئل سیکس صرف وقتی طور پر اس کے کام آ سکتا ہے۔ کیا زندگی سے نمنٹنے کے لیے یہ طریقہ پائیدار بھی ہے؟

خائمے نے جو راہ اختیار کر لی ہوتی ہے اس کا ایک انجام ہے۔ ہاں یہ طریقہ پائیدار تو نہیں لیکن کئی سال تک اس کی مدد سے وہ اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔

خائمے کو اس کے مسائل حل کرنے کے لیے کسی ماہر نفسیات کے پاس بھیجنے میں مجھے دلچسپی نہیں تھی۔

میں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ جب کوئی انٹرنیٹ کے ذریعے خود لذتی اور آن لائن سیکس کے ذریعے اپنے مقدر سے فرار ہونا چاہتا ہے تو کیا ہوتا ہے اور جنسیت کے ذریعے وہ اپنے اندر آہستہ آہستہ کون سی نئی سرحدیں دریافت کرتا ہے۔

واضح طور پر جیسا کہ ناول میں بھی ہوتا ہے، یہ عارضی فرار کی ایک شکل ہے اور کچھ نہیں۔

دنیا کا پہلا ’سائبر قحبہ خانہ‘ اور اے آئی سیکس ڈول: مصنوعی ذہانت اور پورن انڈسٹری کا ملاپ جس نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیںسیکس کے دوران ’جنسی تسکین کے لیے گلا دبانے‘ جیسے خطرناک عمل کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟کچھ خواتین سیکس کے اختتامی مرحلے میں ہیجان شہوت حاصل کیوں نہیں کر پاتیں اور اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے؟’کپڑوں کے ساتھ شرم اتار پھینکو‘: زمانہ قدیم میں سیکس کے بارے میں خواتین کی سوچ کیا تھیکیا آن لائن سیکس حقیقی تعلقات کی کمی کو پورا کر سکتا ہے؟سیکس کے نئے معنی تلاش کرنے والی خواتین جو پوشیدہ خواہشات کے بارے میں لکھ رہی ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More