سٹنٹنگ: بچوں میں عمر کے لحاظ سے کم رہ جانے والے قد کی وجوہات جنھیں نظر انداز کیا گیا

بی بی سی اردو  |  Nov 17, 2024

Getty Imagesانڈیا میں بچے

ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انڈیا میں دہائیوں سے جاری ذات پات کے امتیاز کی وجہ سے بچے اپنی عمر کے حساب سے بڑھنے سے قاصر ہیں اور غذائی قلت کے سبب انڈیا میں سٹنٹنگ کی شرح سب صحارا افریقہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

جب بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے متوقع قد و قامت سے کم رہ جاتا ہے تو اسے سٹنٹڈ سمجھا جاتا ہے اور یہ غذائیت کے اہم فرق کی واضح علامت ہے۔

انڈیا اور صحارا ریگستان کے جنوب میں واقع خطہ یعنی ان دونوں خِطّوں میں کل ملا کر دنیا کی پانچ سال سے کم عمر کی 44 فیصد آبادی رہتی ہے۔ لیکن عالمی سطح پر انہی دونوں علاقوں میں دنیا بھر کے 70 فیصد سٹنٹڈ بچے رہتے ہیں، جو بچوں میں غذائی قلت کا ایک اہم اشاریہ ہے۔

اگرچہ ان دونوں خِطّوں میں حالیہ برسوں میں نمایاں پیش رفت اور بہتری دیکھی گئی تاہم انڈیا میں ایسے بچوں کی شرح 35.7 فیصد ہے جکہ سب صحارا یا جنوبی افریقہ کے 49 ممالک میں ان کی مجموعی اوسط 33.6 فیصد ہے۔

اشونی دیشپانڈے (دہلی کی اشوکا یونیورسٹی) اور راجیش رامچندرن (ملائیشیا کی موناش یونیورسٹی) کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ صرف قد کے فرق پر توجہ مرکوز کرنا، یا انڈین بچوں کا سب صحارا افریقہ کے بچوں سے چھوٹا رہ جانے کے معاملے پر زور دینے سے ایک اہم عنصر کو نظر انداز ہو جاتا ہے۔ اور یہ اہم عنصر انڈیا میں بچوں میں غذائی قلت میں سماجی شناخت، خاص طور پر ذات پات کا کردار ہے۔

بچے کی زندگی کے پہلے 1,000 دنوں کو اکثر ان کی نشو نما اور پروش کا 'سنہری دور' کہا جاتا ہے کیونکہ دو سال کی عمر تک بچوں میں دماغ کا تقریبا 80 فیصد حصہ نشوونما پا جاتا ہے، جو زندگی بھر کے لیے ان کی صلاحیت کی بنیاد رکھتا ہے۔

Getty Imagesکانگو جیسے بعض جنگ زدہ جنوبی افریقی ممالک میں سٹنٹنگ کے زیادہ واقعات ہیں

ان ابتدائی سالوں میں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی، اچھی غذائیت، ابتدائی تعلیم، اور محفوظ ماحول کسی بچے کے مستقبل کو گہرائی سے تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

انڈیا اور جنوبی افریقی ممالک دونوں جگہ تیزی سے بڑھتے ہوئے متوسط طبقے، نوجوان آبادی اور قابل عمل افرادی قوت ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ دیرینہ قدر مشترک رکھتے ہیں۔

سنہ 2021 میں، ورلڈ بینک نے رپورٹ کیا کہ ’سب صحارا افریقہ اور جنوبی ایشیا (بشمول انڈیا) میں دنیا کی 85 فیصد سے زیادہ غریب آبادی مقیم ہے اور اس کی وجہ سے ان خِطّوں میں ترقی کے لیے چیلنجز بھی ایک جیسے ہیں۔‘

سرکاری اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے نئی تحقیق کے مصنفین نے انڈیا اور سب صحارا افریقہ کے 19 ممالک کے نمونوں کے درمیان فرق کے تازہ ترین تخمینوں کو دیکھا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا کے پانچ سال سے کم عمر کے 13 کروڑ 70 لاکھ بچوں میں سے 35 فیصد بچوں کا وزن ان کی عمر کے لحاظ سے کم ہے۔ عالمی سطح پر، پانچ سال سے کم عمر کے 22 فیصد بچے سٹنٹ یعنی غذائی قلت کے سبب کم نشو نما کا شکار ہیں۔

پھر انھوں نے انڈیا میں چھ وسیع سماجی طور پر پسماندہ گروہوں کا جائزہ لیا۔ ان میں آدیواسی (دور دراز علاقوں میں رہنے والے قبائلی) اور دلت (جنھیں پہلے اچھوت کے نام سے جانا جاتا تھا) شامل ہیں۔ ان برادریوں میں پانچ سال سے کم عمر کی آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ ہیں۔

ماہرین اقتصادیات نے پایا کہ انڈیا میں اعلیٰ درجے کے اور غیر داغدار ذات میں شامل گروپس کے بچوں کی شرح 27 فیصد ہے جو کہ سب صحارا افریقی شرح سے واضح طور پر کم ہے۔

انھوں نے یہ بھی پایا کہ انڈیا میں اعلیٰ درجے کی ذات کے گروہوں کے بچوں کو پسماندہ گروہوں کے بچوں کے مقابلے میں سٹنٹنگ کے 20 فیصد کم امکان ہے جو ذات پات کے درجہ بندی کے سب سے نچلے درجے میں آتے ہیں۔

بچوں کی صحت بھی ماں سے جڑی ہےافغان بچوں میں غذائی قلت: ’پاکستان میں بھی زندگی مشکل تھی لیکن اگر وہاں ہوتے تو علاج کروا سکتے تھے ‘سٹنٹنگ: پاکستانی بچوں کو چاٹتی دیمکGetty Imagesانڈین میں راشن کے لیے خواتین کی قطار

یہ نتیجہ پیدائش میں ترتیب، صفائی کے طریقوں، ماں کے قد، بہن بھائیوں کی تعداد، تعلیم، خون کی کمی اور گھریلو سماجی و اقتصادی حیثیت جیسے عوامل کے حساب کو ذہن میں رکھنے کے بعد بھی اہم ہیں۔

یہ فرق انڈیا میں سات دہائیوں کی مثبت کارروائی کے باوجود ہے کیونکہ یہاں ذات پات کا نظام بہت گہرا پیوست ہے۔ ہندو مذہب میں لوگوں کو ان کی پیدائش کی بنیاد پر چار درجوں میں منقسم کیا گیا ہے اور ان پر سختی سے عمل در آمد کیا جاتا ہے۔

مصنفین کا کہنا ہے کہ ’یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ انڈیا میں بہتر طبقے کے بچوں کو زیادہ کیلوریز تک رسائی حاصل ہے اور انھیں بیماری (سے لڑنے کے لیے) بہتر سہولیات دستیاب ہیں۔‘

انڈیا میں بچوں میں سٹنٹنگ کی بلند شرح کی وجوہات نے گذشتہ برسوں میں ایک پیچیدہ بحث کو جنم دیا ہے۔

کچھ ماہرین اقتصادیات نے دلیل دی ہے کہ یہ فرق جینیاتی ہیں اور یہ کہ انڈین بچے جینیاتی طور پر کم قد کے ہوتے ہیں۔

دوسروں کا خیال ہے کہ نسل در نسل بہتر غذائیت نے تاریخی طور پر قد کے فرق کو جینیاتی سمجھا ہے۔

کچھ مطالعوں سے پتا چلا ہے کہ لڑکیاں اس معمالے میں لڑکوں سے بدتر ہیں جبکہ کچھ مطالعات اس کے برعکس نتیجہ اخذ کیا گيا ہے اور ان کے لیے مطالعہ کرنے والوں نے مختلف عالمی معیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ نتائج اخذ کیے ہیں۔

Getty Imagesانڈیا میں آدیواسیوں یعنی قبائلی برادریوں میں یہ شرح زیادہ ہے

بہرحال یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سماجی گروپوں میں سٹنٹنگ میں کمی آئی ہے۔

سنہ 2022 میں کیے جانے والے ایک علیحدہمطالعے سے پتا چلا ہے کہ صحت اور غذائیت کی سہولیات بہتر بنانے، گھریلو حالات زندگی اور زچگی کے عوامل میں بہتری کی وجہ سے چار انڈین ریاستوں میں سٹنٹنگ میں کمی آئی ہے۔

(1992-93 کے فیڈرل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، انڈیا کے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں سے نصف سے زیادہ سٹنٹڈ تھے)۔

پسماندہ گروہوں جیسے آدیواسیوں کے بچوں میں کم غذائیت کا زیادہ شکار ہونے کا امکان ہے۔

افریقہ میں بھی سٹنٹنگ کی شرح سنہ 2010 سے کم ہونے لگی ہے تاہم مجموعی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

لیکن انڈیا کے معاملے میں جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ غریب خاندانوں کے بچے، کم تعلیم یافتہ ماؤں کے بچے، یا پسماندہ گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچے خاص طور پر میں سٹنٹنگ کا شکار ہیں۔

مصنفین کا کہنا ہے کہ ’انڈین اور سب صحارا افریقی بچوں کے درمیان قد کے فرق پر بحث کے نتیجے میں سماجی شناخت کے کردار، بطور خاص ذات پات کی حیثیت کو نظر انداز کیا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا: ’یہ انڈیا میں بچوں میں غذائیت کی قلت کو سمجھنے کے لیے ایک اہم پہلو ہے۔‘

ان تجزیوں میں ڈیموگرافک اور ہیلتھ سروے کے ڈیٹا کا استعمال کیا گیا ہے۔ انڈیا کے معاملے میں سنہ 2019-21 کا تازہ ترین ڈیٹا شامل ہے جبکہ سب صحارا افریقی ممالک کے معاملے میں 19 ممالک میں ہونے والے سنہ 2015 کے بعد کے سروے کا ڈیٹا شامل ہے۔ ان ڈیٹا سیٹ میں انتھروپومیٹرک کا استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت انسانی جسم کی جسمانی جہتوں اور ساخت سے متعلق پیمائش آتی ہے۔ ان میں انڈیا میں پانچ سال سے کم عمر کے 195,024 بچوں اور سب صحارا افریقہ میں پانچ سال سے کم عمر کے 202,557 بچوں کے نتائج شامل ہیں۔

سٹنٹنگ: پاکستانی بچوں کو چاٹتی دیمکبچوں کی صحت بھی ماں سے جڑی ہےافغان بچوں میں غذائی قلت: ’پاکستان میں بھی زندگی مشکل تھی لیکن اگر وہاں ہوتے تو علاج کروا سکتے تھے ‘’لاشوں پر منڈلاتے گِدھوں کی کم ہوتی آبادی‘ کس طرح پانچ لاکھ انسانوں کی موت کا سبب بنیجالندھر کا سکول جہاں 120 جڑواں بچے پڑھتے ہیں: ’کلاس سے باہر جاتا ایک ہے، ڈانٹ دوسرے کو پڑتی ہے‘انڈیا کی دائیاں جنھوں نے لڑکیوں کو قتل کرنے کے بجائے انھیں بچانا شروع کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More