’میری ام٘ی نے کہا کہ انھوں نے اپنی زندگی جی لی ہے، اب میری باری ہے۔ اس بات سے میرا دل بہت ٹوٹا، لیکن اور کوئی راستہ نہیں تھا۔‘
یہ الفاظ غزہ سے ایک سکالرشپ پروگرام کے تحت پاکستان میں اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے آنے والی ندا صفی کے ہیں جو کچھ ماہ پہلے تک غزہ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہوتے حالات میں زندگی گزار رہی تھیں۔
ندا کے ہمراہ ان کی سہیلی لاما بھی ہیں جو صرف کچھ عرصہ پہلے تک غزہ کے کالج میں ان کے ساتھ کلاس کے ذہین ترین طالبات میں شامل تھی لیکن پھر جنگ نے ان کا سب کچھ تباہ کر دیا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے جولائی میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) 100 سے زیادہ فلسطینی طلبہ کو سکالرشپ فراہم کرے گی تاکہ وہ پاکستان میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے دوران یہ اقدام ’ڈاکٹرز آف رحمان، گلوبل ریلیف ٹرسٹ‘ اور غیر سرکاری تنظیم ’الخدمت فاؤنڈیشن‘ کے اشتراک سے کیا گیا ہے۔
23 اکتوبر کو پاکستانی میڈیکل یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ان فلسطینی طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’غزہ کے ذہین طلبہ سے خطاب کرنا اعزاز کی بات ہے۔ پاکستان ان کا دوسرا گھر ہے، کھلے دل سے ان کو خوش آمدید کہتے ہیں۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف کا اس موقع پر مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان آپ کی میزبانی کرے گا۔ میرا یقین کریں یہ احسان نہیں ہے، یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے ہمیں بہت پہلے ادا کر دینا چاہیے تھا۔‘
خیال رہے کہ غزہ جنگ کا آغاز کے بعد سے اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 43 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں طلبہ، بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔
’والدہ نے کہا کہ انھوں نے اپنی زندگی جی لی ہے، اب میری باری ہے‘
ندا صفی جن کی والدہ اور نانی ابھی تک غزہ میں ہیں کہتی ہیں کہ ان کو ’ہر وقت یہی خوف رہتا ہے کہ امی بموں اور فاقہ کشی میں کیسے گزارا کر رہی ہوں گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں بس یہی سوچتی ہوں کہ مجھے اپنی ام٘ی کو وہاں سے نکالنا چاہیے تھا، لیکن ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔ وہاں سے باہر نکلنے کا فی کس خرچہ 5000 ڈالرز تھا۔
’میری ام٘ی نے کہا کہ انھوں نے اپنی زندگی جی لی ہے، اب میری باری ہے۔ اس بات سے میرا دل بہت ٹوٹا، لیکن اور کوئی راستہ نہیں تھا۔‘
ندا کہتی ہیں کہ وہ پاکستان میں محفوظ محسوس کرتی ہیں لیکن انھیں یہ سوچ ہر لمحہ بے چین کیے رکھتی ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی والدہ اور نانی کو کھو سکتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ان کو کوئی نقصان پہنچے تو مجھے ہفتوں تک پتا بھی نہیں چلے گا کیونکہ میرا ان سے آسانی سے رابطہ ممکن نہیں ہے۔‘
ندا کہتی ہیں کہ ان کا گھر جنگ کے دوسرے ہفتے ہی اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن گیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے زندگی ایک سے دوسرے کیمپ میں گزاری، ان کا پورا دن خوراک ڈھونڈنے، پینے کا صاف پانی اور فون چارج کے جگہ ڈھونڈنے میں لگ جاتا تھا۔
ندا کا دعویٰ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتیں، اسرائیلی ڈرون ان کا پیچھا کرتے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم یا ڈرون سے مرتے، یا بھوک سے، ہمارے پاس اور کچھ کھونے کو نہیں تھا۔‘
’میرا زندہ رہنا بھی معجزہ ہے‘
ندا کے لیے پاکستان جیسی نئی جگہ میں خوش رہنے کی وجہ سہیلی لاما کے ساتھ دوبارہ ملاپ ہے۔
لاما اپنے زندہ رہنے کو بھی معجزہ سمجھتی ہیں کیونکہ ان کے گھر پر جنگ کے آغاز پر ہی بمباری ہوئی تھی۔ گذشتہ برس دسمبر میں وہ اور ان کا خاندان مصر جانے میں کامیاب ہو گیا تھا، یہاں تک کہ ان کو کینیڈا کا ویزا بھی مل گیا تھا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ڈاکٹر بننے کا خواب پاکستان میں ہی پورا کر سکتی تھیں کیونکہ کوئی دوسرا ملک پاکستان کی طرح مکمل مالی اعانت کا موقع فراہم نہیں کر رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’یہاں سرکاری افسران سے لے کر یونیورسٹی کے عملے تک ہر کوئی ہماری دیکھ بھال کر رہا ہے۔‘
تعلیم کے لیے پاکستان آنے والے اکثر طلبہ کے لیے اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر پاکستان آنا خاصا مشکل تھا لیکن ان کو یہ فیصلہ فوری طور پر لینا پڑا کیونکہ غزہ کی سرحدیں مکمل طور پر بند ہونے والے تھے۔
کوئٹہ میں فلسطینی طلبا کی تشویش: ’یہاں پاکستانی بھائی مدد کر رہے ہیں لیکن وہاں ہمارے پیاروں کے سروں پر ہر وقت موت کا سایہ ہے‘فائزہ شاہین: پاکستانی نژاد سیاستدان جنھیں ’یہودی مخالف‘ مواد لائیک کرنے پر پارٹی ٹکٹ سے محروم کر دیا گیاآسٹریلیا کی وہ سینیٹر جنھوں نے اپنی ہی حکومت اور پارٹی کے موقف کو ٹھکرا کر فلسطین کو تسلیم کرنے کی حمایت کیاسرائیلی شیکل، امریکی ڈالر اور اردنی دینار: نقدی کے بحران کے شکار غزہ کے باسی لین دین کیسے کر رہے ہیں؟’ایک اچھا ڈاکٹر بننے کے بعد اپنے پیاروں کے پاس واپس جاؤں گا‘
غزہ سے آئے طالب علم محمد اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں جس کی وجہ سے ان کے کندھوں پر بہت ساری ذمہ داریاں تھیں لیکن جب انھوں نے سنا کہ سرحد پار کرنا مشکل ہونے والا ہے، تو وہ اس موقعکو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔
محمد جنگ کے دوران بھی ہسپتالوں اور طبی کیمپوں میں کام کر رہے تھے اور اپنا زیادہ تر وقت ایسے زخمی بچوں کا علاج کرنے میں صرف کرتے تھے جنھوں نے جنگ میں اپنے بازو، ٹانگ یا جسم کے دیگر اعضا کھو دیے تھے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم غزہ میں اچھی زندگی گزار رہے تھے۔ وہاں کے سمندر، ساحل اور باغات انتہائی خوبصورت تھے، لیکن یہ سب اب تباہ ہو گیا ہے۔ کوئی ہسپتال بھی نہیں بچا۔‘
پاکستان میں اپنے وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’پاکستان اچھا ہے، اور لوگ بہت مہربان ہیں۔ ہم سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں، جب ان کو پتا لگتا ہے کہ ہم فلسطینی ہیں، تو وہ ہم سے پیسے نہیں لیتے۔ یہ ہمارے لیے تھوڑا شرمندگی کا بھی باعث ہوتا ہے لیکن اچھا بھی لگتا ہے-‘
انھوں نے کہا کہ ’بعض اوقات اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ یہاں جب انھیں بھوک لگتی ہے تو کھانا مل جاتا ہے۔‘
’جنگ سے پہلے والے گھر جیسی بات اب کہیں نہیں ہے‘
اسی طرح ایک طالبہ یارا سلیم نے بتایا کہ وہ اپنی فیملی کو پیچھے نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں، لیکن ان کے والد نے اصرار کیا کہ ان کو اپنی برسوں کی محنت پوری کرنی چاہیے۔ ’ہم عام لوگ ہیں اور ہمیں بھی حق ہے کہ ہم اپنی زندگی عام لوگوں کی طرح گزاریں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اپنے گھر والوں سے اتنا دور رہنا کیسا لگتا ہے، تو یارا نے آہ بھری اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس کے بعد انھوں نے یہ کہنے کی ہمت کی کہ ’میرا خاندان غزہ اور مصر میں بٹا ہوا ہے۔ ان سے رابطے میں رہنا ویسے ہی مشکل ہے اور اگر ہو بھی جائے تو ان کے پاس کہنے کو زیادہکچھ نہیں ہے کیونکہ وہاں حالات اتنے خراب ہیں کہ وہ ہمیں پریشان نہیں کرنا چاہتے۔۔۔ یقیناً یہاں سب کچھ بہتر ہے لیکن جنگ سے پہلے والے گھر جیسی بات اب کہیں نہیں ہے، لیکن میں پاکستانیوں کی بہت شکر گزار ہوں۔ ہر کوئی بہت مدد کر رہا ہے اور ہماری زندگی کو آسان بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
یارا کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا تعلیمی نظام ان کے لیے تھوڑا مختلف ہے کیونکہ فلسطین میں میڈیکل کی ڈگری چھ سالہ پروگرام ہے جبکہ یہاں پر پانچ سال کا ہے۔‘
اس لیے ان کی یونیورسٹی کی انتظامیہ فلسطینی طالب علموں کے لیے خصوصی نصاب سازی کر کے انھیں سہولت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
اگرچہ فلسطین میں اسرائیلی حملے اب بھی جاری ہیں، پھر بھی زیادہ تر طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرکے اپنے ملک واپس جانے اور وہاں کام کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی (آر ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آر ایم یو غزہ میں الاظہر یونیورسٹی کے ڈین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ سارے فلسطینی طلبہ وقت پر ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلیں اور غزہ واپس جا کر ایک بار پھر اپنے ملک کا طبی نظام قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔‘
کوئٹہ میں فلسطینی طلبا کی تشویش: ’یہاں پاکستانی بھائی مدد کر رہے ہیں لیکن وہاں ہمارے پیاروں کے سروں پر ہر وقت موت کا سایہ ہے‘اسرائیل کی قید سے رہا ہونے والے فلسطینی: ’قید تنہائی میں رکھا گیا ۔۔۔ خدا پر ایمان ہو تو سب کچھ آسان ہو جاتا ہے‘مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ چھڑ جانے کے کتنے امکانات ہیں؟دریائے نیل سے نہرِ فرات تک پھیلے ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ ہے یا کوئی ٹھوس منصوبہفائزہ شاہین: پاکستانی نژاد سیاستدان جنھیں ’یہودی مخالف‘ مواد لائیک کرنے پر پارٹی ٹکٹ سے محروم کر دیا گیاآسٹریلیا کی وہ سینیٹر جنھوں نے اپنی ہی حکومت اور پارٹی کے موقف کو ٹھکرا کر فلسطین کو تسلیم کرنے کی حمایت کی