اسرائیل کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں لاپتہ ہونے والے ایک ربی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے ان کے قاتلوں کو پکڑنے اور انتقام لینے کا وعدہ کیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کا کہنا ہے کہ قدامت پسند یہودی تنظیم حباد سے تعلق رکھنے والے زوی کوگان جمعرات سے لاپتہ تھے جس پر اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی موساد اور متحدہ عرب امارات کے حکام کی تحقیقات جاری تھیں۔
اسرائیلی حکام کے مطابق اتوار کو کوگان کی لاش ملی ہے۔ ان کی کار ان کے گھر سے آدھے گھنٹے کی مصافت پر موجود تھی۔
حباد ایک مذہبی تنظیم ہے جو یہودیوں کے مختلف فرقوں اور سیکولر یہودیوں کے بیچ تعاون پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں حباد کی شاخ ہزاروں یہودی سیاحوں اور مقامی لوگوں کے لیے کام کرتی ہے۔
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر: سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
حباد کے مطابق 28 سالہ ربی کوگان متحدہ عرب امارات میں یہودیوں کی فلاح و بہبود کے لیے تنظیم کے دیگر سفیروں کے ساتھ کام کرتے تھے۔ وہ دبئی میں ایک کوشر مارکیٹ بھی چلاتے تھے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے دفتر اور اسرائیلی صدر نے زوی کوگان کے قتل کو ’یہود مخالف دہشتگردی کا واقعہ‘ قرار دیا ہے۔
نتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ ’اسرائیلی ریاست اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔‘
ماہم امجد: جنھوں نے لنکڈاِن سے اپنے والد کے قتل کے ملزم کا دبئی میں سراغ لگایاعرب کہاں ہیں؟ فلسطین کے مسلم ہمسائے ماضی کی طرح اس کی حمایت کیوں نہیں کر رہےعلاقائی اثرو رسوخ سے تیل کی پیدوار تک۔۔۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تنازعات میں جیت کس کی ہو گی؟شیخہ مہرہ: انسٹاگرام پر شوہر کو طلاق دینے والی دبئی کی شہزادی نے پرفیوم لائن ’ڈائیورس‘ لانچ کر دی
بیان کے مطابق اسرائیلی حکام کوگان کے لاپتہ ہونے کے بعد سے ان کے خاندان سے رابطے میں رہے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ کوگان دہری شہریت کے حامل تھے، ان کے پاس اسرائیل کے علاوہ مالدووا کی شہریت تھی۔
متحدہ عرب امارات کی سرکاری نیوز ایجنسی نے کہا تھا کہ وزارت داخلہ لاپتہ کوگان کو ڈھونڈ رہی ہیں اور ان کی گمشدگی پر تحقیقات جاری ہے۔
اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سفری ہدایات میں درج ہے کہ شہری صرف ’ضروری کام‘ کے سلسلے میں متحدہ عرب امارات جائیں کیونکہ وہاں ’دہشتگرد سرگرمیاں‘ ہوتی ہیں۔
اسرائیلی شہریوں کو بتایا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا ’دورہ کرنے والے اسرائیلیوں یا وہاں رہنے والوں کو خطرہ ہے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق متحدہ عرب امارات میں 2020 کے بعد سے یہودی برادری میں اضافہ دیکھا گیا ہے مگر حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے عوامی مقامات پر انھیں کم ہی دیکھا جاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ امریکی ثالثی میں سفارتی تعلقات قائم کیے تھے، جنھیں ابراہیم آکارڈز بھی کہا جاتا ہے۔ غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے دوران بھی دونوں ممالک کے بیچ تعلقات برقرار ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں یہودی برداری نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد دبئی میں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر غیر رسمی یہودی عبادت گاہوں کو بند کر دیا گیا تھا۔
ابو ظہبی میں حکومت سے منظور شدہ ایک یہودی عبادت گاہ قائم ہے جو اب بھی کھلی رہتی ہے۔ تاہم ملک کے سب سے کمرشل شہر دبئی میں کوئی منظور شدہ عبادت گاہ نہیں ہے۔
روتھ کمرفورڈ کی اضافی رپورٹنگ
ماہم امجد: جنھوں نے لنکڈاِن سے اپنے والد کے قتل کے ملزم کا دبئی میں سراغ لگایاشیخہ مہرہ: انسٹاگرام پر شوہر کو طلاق دینے والی دبئی کی شہزادی نے پرفیوم لائن ’ڈائیورس‘ لانچ کر دی’نیا مشرق وسطیٰ‘: اسرائیل کے متنازع نقشوں اور خطے کی نئی ترتیب کا مقصد کیا ہے؟متحدہ عرب امارات کی گولڈن ویزا سکیم کیا ہے اور یہ ویزا کن افراد کو دیا جاتا ہے؟’سولو ٹریول‘: وہ پانچ ممالک جہاں خواتین بلا خوف و خطر تنہا گھوم پھر سکتی ہیں