امریکی جج نے استغاثہ کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ’انتخابی بغاوت‘ کے مقدمے کو خارج کرنے کی درخواست منظور کر لی کیونکہ محکمہ انصاف کی پالیسی کے تحت عہدے پر فائز کسی صدر کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جج تانیا چٹکن نے وکیل جیک سمتھ کی جانب سے نومنتخب صدر کے خلاف مقدمے کو ’بغیر کسی تعصب‘ کے خارج کرنے کی درخواست سے اتفاق کیا۔ یہ مقدمہ اب چار سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے پر ہی ممکنہ طور پر بحال کیا جا سکتا ہے۔جج چٹکن نے کہا کہ ’اس موقع پر کسی تعصب کے بغیر مقدمے کا اخراج یہاں مناسب ہے۔ کیونکہ عہدے پر متمکن صدر کو حاصل استثنیٰ عارضی ہوتا ہے، جب وہ عہدہ چھوڑتے ہیں تو استثنیٰ ختم ہو جاتا ہے۔‘78 سالہ ٹرمپ پر جو بائیڈن سے ہارے ہوئے 2020 کے انتخابات کے نتائج کو الٹنے کی سازش کرنے اور وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد بڑی تعداد میں انتہائی خفیہ دستاویزات کو ہٹانے کا الزام تھا لیکن یہ مقدمات کبھی زیر سماعت نہیں آئے۔5 نومبر کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کو شکست دے دی تھی جس کے بعد وکیل نے انتخابی مداخلت کیس اور دستاویزات کے کیس کو رواں ماہ روک دینے کے لیے کہا تھا۔وکیل جیک سمتھ نے محکمۂ انصاف کی دیرینہ پالیسی کا حوالہ دیا کہ کبھی کسی عہدے پر موجود صدر پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی اور نہ ہی اس پر مقدمہ چلایا گیا۔عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمہ چلانے کی حکومت کی پوزیشن تبدیل نہہیں ہوئی، مگر حالات بدل گئے ہیں۔‘وکیل جیک سمتھ نے درخواست میں کہا کہ ’محکمہ انصاف کا طویل عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ امریکہ کا آئین وفاقی فرد جرم اور اس کے نتیجے میں ایک موجودہ صدر پر فوجداری مقدمہ چلانے سے روکتا ہے۔‘درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’اس کے نتیجے میں مدعا علیہ کے صدارتی حلف سے پہلے اس استغاثہ کو خارج کر دیا جانا چاہیے۔‘نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ مقدمات ’خالی اور کسی قانون کے بغیر ہیں، اور انہیں کبھی نہیں لایا جانا چاہیے تھا۔‘سنہ 2020 میں صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پیانہوں نے کہا کہ ڈیموکریٹ پارٹی نے اپنے سیاسی مخالف کے خلاف لڑائی میں ٹیکس دہندگان کے 100 ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان کیا۔ ہمارے ملک میں اس سے پہلے کبھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘ڈونلڈ ٹرمپ پر امریکہ کو دھوکہ دینے کی سازش اور سرکاری کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی سازش کے الزامات عائد کیے گئے تھے اور اُن کو کانگریس کے اجلاس میں بائیڈن کی جیت کی تصدیق کے لیے بلایا گیا تھا، جس پر 6 جنوری 2021 کو اُن کے حامیوں کے ایک ہجوم نے پرتشدد حملہ کیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ وہ 2020 کا الیکشن جیتنے کے اپنے جھوٹے دعووں سے امریکی ووٹروں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔