ایمازون کی غیر قانونی کانیں جہاں سیکس کے بدلے سونا ملتا ہے

بی بی سی اردو  |  Dec 05, 2024

BBCنتالیا کوالکانتی نے جنسی تعلقات کے ذریعے کمائے گئے پیسوں سے اپنا گھر بنایا

ڈیئین لیٹ 17 برس کی تھیں جب ان کے شوہر دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے اوران کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ شوہر کی آخری رسومات کے لیے ادائیگی کر پاتیں۔

برازیل کی شمالی پارا ریاست میں ان کا آبائی شہر ایٹائی ٹبوبا ملک میں سونے کی غیر قانونی کان کنی کرنے والوں کا مرکز ہے۔۔۔ ڈیئین کی ایک دوست نے انھیں ایمازون کی گہری کانوں میں جانے والے کان کنوں کے ساتھ سیکس کر کے پیسے اکٹھا کرنے کا مشورہ دیا۔

وہ کہتی ہیں کہ کانوں میں جانا قسمت کا کھیل ہے۔

’وہاں خواتین کی شدید تذلیل کی جاتی ہے۔ شاید وہاں موجود مرد آپ کے منھ پر تھپڑ مار دیں یا چیخنے لگیں۔‘

انھوں نے بتایا ’میں بیڈ روم میں سو رہی تھی کہ اچانک ایک آدمی نے کھڑکی سے چھلانگ لگا کر میرے سر پر بندوق تان دی۔‘

ڈیئین کہتی ہیں کہ اگر وہ پیسے دے رہے ہیں تو عورت کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔

انھوں نے اس غیر قانونی کانوں میں جا کر اپنے شوہر کی آخری رسومات کے لیے پیسے اکٹھے کیے ۔ وہ 18 سال کی تھیں جب ان کا پہلا بچہ پیدا ہوا۔ پچھلے 16 سالوں سے ایٹائی ٹبوبا کی بہت سی خواتین کی طرح وہ بھی وقتاً فوقتاً ان کانوں میں باورچی، دھوبی، بار گرل اور ایک سیکس ورکر کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔

اب سات افراد کے خاندان کی کفالت ڈیئین کی ذمہ داری ہے۔

BBCڈیئین لیٹ 17 برس کی تھیں جب ان کے شوہر دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے اوران کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ شوہر کی آخری رسومات کے لیے ادائیگی کر پاتیں

نتالیا کوالکانتی 24 سال کی عمر میں ایک ریموٹ سائٹ پر واقع کان کنوں کی بستی میں سیکس ورکر بنیں۔ وہ کہتی ہیں ’میں یہ نہیں کہہ رہی کہ یہاں کی ساری خواتین یہی کام کرتی ہیں لیکن زیادہ تر کا گزر بسر سیکس ورکر کے طور پر ہی ہوتا ہے لہذا یہاں یہ ایک عام سی بات ہے۔‘

چار سال بعد انھوں نے شراب خانے کے مالک سے شادی کر لی اور قحبہ خانے کی میڈیم بن گئیں۔ حال ہی میں شہر میں رہنے والی اپنی بھانجیوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے انھوں نے یہ نوکری چھوڑی ہے۔

بارانی جنگلوں میں بسی کان کنوں کی بستیوں میں زندگی آسان نہیں ہے۔۔۔ یہاں مٹی سے اٹے گندے راستے ہیں، ایک سیلون بار کے علاوہ بس ایک چرچہے۔

لیکن کان کن یہاں سے بہت دور لکڑی اور بانس سے بنی ان جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جن کے اردگرد ہر وقت چیتے اور سانپ گھومتے رہتے ہیں اور جنریٹر بند ہونے کے بعد مکمل اندھیرا چھا جاتا ہے۔ جو خواتین باورچی کے طور پر کام کرتی ہیں انھیں مردوں کے ساتھ ان کیمپوں میں رہنا پڑتا ہے۔

نتالیہ کہتی ہیں کہ کان کن صرف اس وقت گاؤں میں نظرآتے ہیں جب انھیں کان سے سونا ملے اور ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے پیسہ ہو۔ خواتین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات انھیں سیکس سے قبل نہانے کے لیے قائل کرنا پڑتا ہے۔

برازیل کے قانون کے تحت قحبہ خانہ چلانا جرم ہے تاہم نتالیہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس بزنس سے کوئی کمیشن نہیں کمایا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے صرف شراب خانے کے لیے عملے کو ملازمت پر رکھا اور سیکس کے لیے کمرے کرائے پر دیے۔

نوجوان عورتیں ان سے رابطہ کر کے کام مانگتی ہیں اور وہ کبھی کبھار انھیں قحبہ خانے تک سفر کرنے کے پیسے دیتی تھیں۔ یہ ایٹائی ٹبوبا سے سات گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

BBCبرازیل کی حکومت کا کہنا ہے کہ 80 ہزار سے آٹھ لاکھ مرد غیر قانونی کانوں میں کام کرتے ہیں

اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ دوسری خواتین کو کام دینے کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتی ہیں، نتالیہ نے جواب دیا: ’کبھی کبھار میں سوچتی ہوں کہ میں اس سب سے گزر چکی ہوں اور میں جانتی ہوں کہ یہ کیسا ہے لیکن پھر میں سوچتی ہوں کہ ان لڑکیوں کے خاندان کی کفالت ان کی ذمہ داری ہے اور انھیں اپنے بچے بھی پالنا پڑتے ہیں۔ بہت سی ایسی لڑکیاں جن کے ایک یا دو بچے ہوں، ہم انھیں کام دیتے ہیں۔‘

شادی سے پہلے بھی نتالیہ نے بہت پیسہ کمایا تھا۔

اب نتالیہ کا ایٹائی ٹبوبا میں اپنا گھر ہے، ایک موٹرسائیکل ہے اور بہت سارا سونا بھی ہے جو انھیں سیکس کے بدلے میں ملتا تھا۔۔۔ کبھی کبھار ایک ہی وقت میں دو یا تین گرام تک۔

وہ تعلیم حاصل کرنا اور وکیل یا آرکیٹکٹ بننا چاہتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ایٹائی ٹبوبا (جسے گولڈ نگیٹ سٹی بھی کہتے ہیں) کی کچھ خواتین نے اپنے کمائے ہوئے پیسوں سے خود کاروبار شروع کیا ہے۔

کراچی کے شیرشاہ بازار میں کمپیوٹر کے کچرے سے ’خالص سونے کی تلاش‘سیکس کے دوران ’جنسی تسکین کے لیے گلا دبانے‘ جیسے خطرناک عمل کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟سہمے ہوئے ’سیکس ورکرز‘ کی روداد: ’میرے آنے سے پہلے وہ نشہ کر رہا تھا، مجھے لگا اب بچنا ناممکن ہے‘استعمال شدہ لیپ ٹاپ اور پرانے موبائل فون میں چھپا سونا نکال کر زیورات کیسے بنائے جا رہے ہیں؟

لیکن ایک عورت کے لیے ان پرتشدد اور غیر قانونی طور پر بسی کان کنوں کی بستیوں میں جانا خطرناک ہے۔

اگرچہ ان کانوں سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات کے متعلق سب کو علم ہے لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس میں انسانوں کے لیے تشدد، جنسی استحصال اور سمگلنگ جیسے خطرے بھی شامل ہیں جن کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی جاتی۔

قیمتی دھاتوں کے ایک ڈیلر نے بی بی سی کو بتایا کہ عام طور پر ان کانوں سے نکلنے والے غیر قانونی سونے کوزیورات اور موبائل فونز یا دیگر الیکٹرانک سامان میں استعمال کرنے کے لیے برآمد کرنے سے قبل لائسنس یافتہ کمپنیوں کی پروڈکٹ کے طور پر ریبل کیا جاتا ہے۔

برازیل کے سونے کے تین سب سے بڑے گاہکوں میں کینیڈا، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ شامل ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف ایسکولہاس تھنک ٹینک کے مطابق یورپ کو جانے والی تمام برآمدات میں سے 90 فیصد سے زیادہ ان علاقوں سے جاتی ہے جہاں غیر قانونی کان کنی کی جاتی ہے۔

BBCرائیل سانتوس کو کان کنوں کے ایک گاؤں میں مبینہ طور پر ایک مرد کے ساتھ سیکس کرنے سے انکار پر قتل کر دیا گیا تھا

ان گاؤں میں عورتوں کا قتل بھی ایک غیر معمولی بات نہیں ہے۔ 26 سالہ رائیلی سانتوس کی لاش پچھلے سال اس کویو کویو کان کے قریب اس کمرے سے ملی جہاں وہ رہائش پذیر تھیں۔ یہ ایٹائی ٹبوبا سے 11 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

ان کی بڑی بہن ریلینی کا کہنا ہے کہ ایک شخص نے انھیں سیکس کے بدلے رقم کی پیشکش کی تھی اور اس نے انکار کر دیا تھا۔ اس آدمی نے بعد میں رائیلی کو ڈھونڈ لیا اور مار مار کر ہلاک کر دیا۔

ریلینیکا کہنا ہے کہ روزانہ بہت سی خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں کانوں میں پیدا ہوئی، کانوں میں پلی بڑھی مگر اب مجھے کانوں میں رہنے سے ڈر لگتا ہے۔‘

رائیلی کے قتل کے الزاممیں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن ابھی تک مقدمہ نہیں چلایا جا سکا۔ وہ شخص اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کر رہا ہے۔

برازیل کی غیر قانونی سونے کی کانوں والی زمین 10 سال بعد یعنی 2023 میں دگنی سے بھی زیادہ ہو کر دو لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک پھیل گئی ہے۔ یہ گریٹر لندن سے بھی بڑا رقبہہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس علاقے میں کتنی خواتین کام کرتی ہیں یا یہاں کتنے غیر قانونی کان کن موجود ہیں۔

برازیل کی حکومت کا کہنا ہے کہ ان غیر قانونی کان کنوں کی تعداد 80 ہزار سے آٹھ لاکھکے درمیان ہے۔

صدر لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا کی حکومت نے غیر قانونی کانوں کو بند کرنے اور ڈیلروں کو سونا خریدنے سے روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں لیکن سونے کی بڑھتی قیمتیں بہت سے مردوں کو ان خطرناک کانوں میں جا کر اپنی قسمت آزمانے پر مجبور کرتی ہیں۔

کان کنی کے علاقوں میں اپنی صحت کو لاحق خطرات اور مشکلات کی وجہ سے ڈیئین یہاں کام بند کرنا چاہتی ہیں اور وہ اس کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہیں۔۔۔ انھیں امید ہے کہ یہ ان کا آخری سفر ہو گا۔ ان کا مقصد دو یا تین مہینوں میں اتنی پیسہ کمانا ہے کہ وہ واپس جا کر سنیک بار کھول سکیں۔

تاہم انھیں اس چیز کا احساس ہے کہ شاید وہ اس کاروبار میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جب وہ جنگل میں اکیلی چل رہی ہوتی ہیں اس وقت انھیں اپنے بچوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔

’جب تک ہمت ہے میں کوشش کرتی رہوں گی۔۔۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ایک دن میرے بچے کہیں گے: ہماری ماں نے بہت محنت کی۔۔۔ اس نے جو کچھ سہا ہمارے لیے سہا اور اس نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔‘

کراچی کے شیرشاہ بازار میں کمپیوٹر کے کچرے سے ’خالص سونے کی تلاش‘سیکس کے دوران ’جنسی تسکین کے لیے گلا دبانے‘ جیسے خطرناک عمل کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟پاکستانی ساحلوں پر ’امپورٹڈ‘ الیکٹرانک کچرا: ’جو آپ کے لیے کچرا ہے وہ میرے لیے بہت قیمتی ہے‘استعمال شدہ لیپ ٹاپ اور پرانے موبائل فون میں چھپا سونا نکال کر زیورات کیسے بنائے جا رہے ہیں؟سہمے ہوئے ’سیکس ورکرز‘ کی روداد: ’میرے آنے سے پہلے وہ نشہ کر رہا تھا، مجھے لگا اب بچنا ناممکن ہے‘روچ ڈیل گرومنگ: ’12 سال کی عمر سے میرا 100 سے زیادہ مرتبہ ریپ کیا گیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More