Getty Images
شام میں بشارالاسد کی حکومت کے اچانک خاتمے کا ناصرف خطے کے ممالک بلکہ بین الاقوامی منظر نامے پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔
اس سے دو بین الاقوامی قوتوں، یعنی ایران اور روس جن کی حمایت اور مدد سے بشارالاسد پچھلے کئی سال سے اپنے ملک میں بغاوت کو دبانے میں کامیاب رہے تھے، کے خطے میں زوال کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔
بشارالاسد کے ملک سے فرار اور شام میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد بھی تجزیہ کار اسد حکومت کے زوال کے پیچھے کارفرما وجوہات اور اس کے نتیجے میں خطے پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کچھ ماہرین اس کو سمجھنے کے لیے ’بٹر فلائی ایفیکٹ‘ تھیوری کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس نظریے میں بتایا جاتا ہے کہ کیسے دنیا میں رونما ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس کو سمجھانے کے لیے تتلی کے پھڑپھڑانے کی مثال دی جاتی ہے کہ کیسے ایک تتلی کا اپنے پنکھ ہلانا کہیں دور دراز علاقے میں طوفان کا سبب بن سکتا ہے۔
سات اکتوبر: حماس کے اسرائیل پر حملے کے اثرات
سیاسی تجزیہ کار اور سابق اسرائیلی سفارتکار میئر کوہن ’بٹر فلائی ایفیکٹ‘ تھیوری کا سہارا لیتے ہوئے شام میں بشارالاسد حکومت کے زوال کو حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے سے جوڑتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایرانی حمایت سے یحییٰ سنوار کی قیادت میں کیے جانے والے حملے کا مقصد لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ مل کر اسرائیل کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا لیکن ایران خود ہی اس چال کا شکار ہو گیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایران کے ’مزاحمت کے محور‘ کا زوال، جس میں حزب اللہ اور حماس شامل ہیں، کسی لڑھکتے برف کے گولے کی مانند ہے جو اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو تباہ کر دیتا ہے اور شام میں اسد حکومت کا خاتمہ اِسی کا نتیجہ ہے۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’یہ صورتحال بالآخر ایرانی حکومت کے خاتمے کا باعث بنے گی۔‘
میئر کوہن کا ماننا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل، امریکہ اور عرب ممالک کو خطے کے مستقبل کے بارے میں مشترکہ وژن ترتیب دینا ہو گا۔
اُن کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات کا ایران پر گہرا اثر پڑے گا۔ میئر کے مطابق ایران میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے اس جانب اشارہ ہیں۔
دوسری جانب فلسطین کے مغربی کنارے میں بھی محمود عباس کی حکومت کو ہٹانے کے لیے مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔
میئر کوہن کہتے ہیں کہ ’خطرہ ہے کہ مصر میں اخوان المسلمین موجودہ واقعات کا فائدہ اٹھانے کے کوشش کرے، ساتھ اُردن میں بھی حکومت کو خطرہ لاحق ہے۔‘
Getty Imagesگہرے نفسیاتی اثرات
مصنفہ عالیہ ابراہیمی واشنگٹن کی اٹلانٹک کونسل سے بطور محقق منسلک ہیں اور مشرق وسطیٰ کی سیاست پر تجزیہ کرتی ہیں۔
وہ میئر کی اس رائے سے متفق ہیں کہ 7 اکتوبر کے حملے، اسد حکومت کے خاتمے کی وجوہات میں سے ایک ہیں لیکن وہ اُن نفسیاتی اور فوجی اثرات کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں جو شامی اپوزیشن کے عروج کا باعث بنے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملوں اور اسد حکومت کے زوال کے درمیان ایک واضح تعلق دیکھ سکتے ہیں۔‘ تاہم عالیہ ابراہیمی کی نظر میں دیگر عوامل جنھوں نے بشارالاسد کے زوال میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ان میں شام کی معیشت کی تباہی، روس کا یوکرین پر حملہ، ترکی کا اسد حکومت کو لے کر صبر کا ختم ہونا اور سات اکتوبر حملے کے بعد ایران کی طاقت میں کمی شامل ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’ایک ایسے وقت میں جب اسد کے مخالفین پہلے سے زیادہ متحد، منظم اور پُرعزم دکھائی دے رہے تھے تو اسرائیل کی حزب اللہ اور شام میں موجود ایران کے پاسداران انقلاب کے خلاف کارروائیوں نے شامی صدر کو مزید کمزور کر دیا تھا۔‘
عالیہ ابراہیمی کے مطابق سات اکتوبر کو شروع ہونے والے ’بٹر فلائی ایفیکٹ‘ نے غیر ارادی واقعات کے ایک سلسلے کو جنم دیا تاہم ان کی نظر میں نفسیاتی اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
’حماس نے ثابت کیا کہ غالب قوتوں کی بھی کئی کمزوریاں ہوتی ہیں اور طاقت کا توازن کسی بھی وقت پلٹ سکتا ہے۔ شامی باغی شاید اسی سے متاثر تھے اور ایسا خطے کے دوسرے حصوں میں بھی ہو سکتا ہے۔‘
مشرق وسطیٰ: ایک پیچیدہ خطہ
سیاسی تجزیہ کار یوو اسٹرن بھی اسد حکومت کے خاتمے اور سات اکتوبر کے حملوں کے درمیان موجود تعلق کو تسلیم کرتے ہیں تاہم وہ اس کو ثابت کرنے کے لیے ’بٹر فلائی ایفیکٹ‘ تھیوری کے استعمال کے حق میں نہیں۔
اُن کے خیال میں اس سے شام اور خطے میں رونما ہونے والے واقعات کے درمیان تعلق صحیح تناظر میں پیش نہیں ہوتا۔
اسٹرن کے مطابق خطے کے ایک حصے میں پیش آنے والا کوئی بھی واقعہ کسی نہ کسی انداز میں خطے کے دیگر حصوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
’شام میں ہونے والے واقعات کو اسرائیل، لبنان، فلسطین اور دیگر علاقوں میں ہونے والے واقعات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ خطے میں ملوث تمام قوتوں بشمول ایران، ترکی، امریکہ، اسرائیل، روس اور عرب ممالک کے درمیان چند مشترکہ عوامل پائے جاتے ہیں۔
اسٹرن کا کہنا ہے کہ ان تمام ممالک کا خطے میں ہر جگہ کردار پایا جاتا ہے، جو اس خطے کو بہت پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بٹر فلائی ایفیکٹ کا استعمال وہاں کیا جاتا ہے جہاں واقعات کے درمیان کوئی واضح تعلق موجود نہ ہو۔
اسٹرن کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے واقعات کے درمیان براہ راست تعلق پایا جاتا ہے اور ان کا اثر خطہ عرب کے تمام پڑوسی ممالک پر پڑتا ہے۔
روسی اڈہ، ڈرون حملے اور فرار: بشار الاسد شام سے ماسکو کیسے پہنچےبشار الاسد کے زوال کے بعد نتن یاہو کا گولان پر نئی آبادکاری کا منصوبہ لیکن اسرائیل کے لیے یہ پہاڑیاں اتنی اہم کیوں ہیں؟خانہ جنگی، متحد حکومت یا طاقت کے ذریعے کنٹرول: باغی گروہ کے قبضے کے بعد اب شام کا مستقبل کیا ہو گابشار الاسد کی اہلیہ جو دشمنوں میں ’موت کی دیوی‘ اور حامیوں میں ’دمشق کا پھول‘ کے نام سے مشہور ہوئیں بتدریج خاتمہ
ابو دیاب ایک لبنانی محقق ہیں، جو بین الاقوامی تعلقات اور جیو پولیٹکس کے ماہر ہیں۔ وہ سات اکتوبر کے واقعات کے اثرات اور اس کے نتائج میں اسد حکومت کے خاتمے کو نظر انداز نہیں کرتے۔
تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ اسد حکومت کا خاتمہ اچانک ہی نہیں ہوا بلکہ یہ اس بڑھتی ہوئی عوامی بغاوت کا نتیجہ تھا جس کا آغاز سنہ 2011 میں ہوا تھا اور بعدازاں جس نے پیچیدہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی تھی۔
ابو دیاب کہتے ہیں کہ ادلب میں سنہ 2020 سے موجود فوجیں اس لمحے کے لیے تیاری کر رہی تھی اور پھر وہ داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ مل گئیں جس نے شامی حکومت کو مزید کمزور کیا۔
اس صورتحال کو بہتر کرنے کی بجائے اسد نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کا راستہ لیا اور منشیات کے کاروبار میں شامل ہونے سے شام کیپٹاگون بنانے والا بڑا ملک بن گیا۔
اگرچہ شامی فوجیوں کی تنخواہوں کو کم کر دیا گیا، وہاں لاپتہ افراد اور قیدیوں کی صورتحال مزید ابتر ہو گئی اور اس تمام صورتحال نے بھی شامی حکومت کے خاتمے میں کردار ادا کیا۔
Getty Imagesاسد کے حامیوں کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ
ابو دیاب کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ نے اُس وقت اسد حکومت کے مضبوطی سے قائم رہنے میں بلواسطہ کردار ادا کیا تھا جب بشار الاسد نے سنہ 2013 میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے اور اپنے جوہری پروگرام کے لیے ایران سے بات چیت کو ترجیح دی تھی۔
اسرائیل نے بھی اسد حکومت کو گولان کی پہاڑیوں کے حوالے سے 1974 کے علیحدگی کے معاہدے پر قائم رہنے کی وجہ سے دیگر ممالک کی نسبت کم خطرناک تصور کیا۔ اسرائیل نے اس علاقے میں سنی اکثریت کی بجائے اقلیتوں کے ساتھمعاہدے کو ترجیح دی۔
لیکن پھر روس کے یوکرین پر حملے اور ایرانی مدد میں کمی کی وجہ سے شام میں سکیورٹی کے حوالے سے ایک خلا پیدا ہوا۔
ابو دیاب کے مطابق اپنے اقتدار کی بقا کے لیے اسد حکومت کا علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف تنازعات میں کردار جاری رہا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سابق شامی صدر نے اسرائیل اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن لانے کی کوشش کی لیکن انھیں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جس میں وہ کوئی بھی فیصلہ نہ لے پائے۔‘
ایک اور لحاظ سے دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ میں تیزی سے ہونے والی پیشرفت سے علاقائی اور بین الاقوامی توازن کے علاوہ اسد کے حامیوں میں بھی بڑی تبدیلی سامنے آئی۔
روس اور ایران کی جانب سے اسد حکومت کے ساتھ قریبی تعاون کے باوجود ان دونوں کے درمیان اختلافات برقرار رہے۔
نئی امریکی انتظامیہ کے آنے کے بعد، جو یوکرین میں بحران کے خاتمے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے، روس کے لیے ایران کی اس علاقے میں ضرورت ختم ہو گئی اور اس سے اتحاد کو نئی شکل ملی اور اس صورتحال نے اسد حکومت کو ایک مشکل پوزیشن میں ڈال دیا۔
مختلف منظر نامے اور ترکی سب سے بڑا فاتح
آج جب اسد خاندان کے 55 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہو گیا ہے تو احمد الشرع ایک نئے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ ان کا یہ نیا روپ القاعدہ سے تعلق رکھنے والی ایک جہادی تحریک کے سربراہ سے مختلف ہے۔
احمد الشرع نے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے نئی شامی انتظامیہ کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ وہ سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہیں اور داخلی اور خارجی سطح پر یقین دہانیوں پر مبنی پیغامات دے رہے ہیں۔
دمشق میں عبوری حکومت کے اعلان کے ساتھ سفارتی سرگرمیاں اور ہمسایہ ممالک کے وفود کی میزبانی دیکھی جا رہی ہے۔
ایسے میں نمایاں شخصیات بھی دوبارہ سے منظر پر دکھائی دے رہی ہیں خاص طور پر سابق نائب صدر فاروق جو گذشتہ کئی برسوں میں سیاسی منظر نامے سےغائب رہے ہیں۔
اب مستقبل کے بارے میں سوالات زیادہ سنجیدہ اور پیشگوئی کے اعتبار سے زیادہ مشکل ہوں گے۔ جیسا کہ اب ممکنہ صورتحال کیا ہو گی؟ کیا شام میں بیرونی اثر و رسوخ صرف ترکی اور مغرب کی مدد سے اسرائیل تک محدود رہے گا یا پھر مستقبل میں مضبوط عرب اتحاد کا کوئی موقع پیدا ہو گا؟
اس تناظر میں ایران اور اس کے اتحادیوں کی کیا پوزیشن ہو گی؟ یا پھر ہم ایک نئے مشرق وسطیٰ کی شروعات دیکھیں گے؟
Getty Images
مہدی طیب، جو سنہ 2013 میں ایران کے پاسدران انقلاب کے نائبکمانڈر تھے، ایران کے شام کے ساتھ تعلقات کی درست وضاحت کرتے ہوئے اور اسد حکومت کے خاتمے سے تہران کو ہونے والے نقصانات پر بات کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ ’اگر ہم نے شام کو گنوا دیا تو ہم تہران کو نہیں بچا پائیں گے۔‘
اسرائیلی تجزیہ کار یوو اسٹرن کہتے ہیں کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد خطے میں مزاحمت کے محور پر اس کے منفی اثرات نمایاں طور پر ہوں گے۔
مزاحمت کے اس محور کو قائم رکھنے کے لیے شام سے سپلائی کی گزرگاہیں تھیں جو انتہائی اہمیت کی حامل تھیں اور جب یہ گزرگاہیں بند ہو گئیں تو ایران کے لیے حزب اللہ کو ہتھیار بھجوانا مشکل ہو گیا۔
یوو اسٹرن وضاحت کرتے ہیں کہ اسد حکومت کے خاتمے سے دراصل اسرائیل کو لاحق ایک بڑا سٹریٹیجک خطرہ ختم ہو گیا ہے۔
اُن کے خیال میں شام کی فوجی صلاحیتوں بشمول نیوی کی تباہی سے اسرائیل نے اپنا ہدف حاصل کر لیا۔
یوو اسٹرن کے خیال میں شام عراق جیسی کسی صورتحال کی طرف ہی جائے گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جن ممالک میں فرقہ واریت اور نسلی تنوع ہے جیسا کہ شام، عراق اور یمن، وہاں نیا مستحکم حکومتی سسٹم بنانے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ خطے میں بین الاقوامی مداخلت سے شام کی داخلی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی۔
’شام افغانستان نہیں بنے گا‘
ابو دیاب کا خیال ہے کہ اس وقت یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ شام میں یا پھر اس خطے میں آئندہ کیا ہو گا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ احمد الشرع نہیں جو دمشق میں داخل ہو گئے بلکہ یہ جنوب سے ایک اور فورس تھی۔ اس کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ احمد الشرع نے ادلب میں جو کچھ شروع کیا، اس کے ذریعے متحرک آغاز کیا۔
’اس لیے یہ غیر معمولی ہو گا کہ ہیت تحریر الشام اکیلے اس ملک پر حکمرانی کرنے کے قابل ہوں گے۔ شام ایسا ملک ہے جو اپنے تنوع کے حوالے سے نمایاں ہے، پھر چاہے وہ سیاسی قوتوں یا فرقہ ورانہلحاظ سے ہو، مذہبی لحاظ سے یا پھر نسلی اعتبار سے ہو۔‘
ابو دیاب کہتے ہیں کہ ’ہو سکتا ہے کہ ہم مارچ تک نئی حکومت کا قیام دیکھیں اور شاید آئینی اعلان اور اس کے بعد انتخابات لیکن ہم ایک پیچیدہ اور حساس عبوری مرحلے کی ابتدا میں ہیں، جو پراسرایت سے بھرا ہوا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوں گے، درست طور پر اس کی کوئی بھی پیشگوئی نہیں کر سکتا۔‘
ان پیچیدگیوں کے باوجود ابو دیاب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ شام افغانستان جیسے ماڈل کی طرف نہیں جائے گا۔
’باہر اللہ اکبر کی صدا سن کر جیل سے ننگے پاؤں بھاگے‘: شام کی بدنام صیدنایا جیل سے رہائی پانے والے قیدیوں کی کہانیحکومت کے خاتمے سے قبل آخری لمحات میں بشار الاسد نے کیسے اپنے خاندان کواندھیرے میں رکھا؟روسی اڈہ، ڈرون حملے اور فرار: بشار الاسد شام سے ماسکو کیسے پہنچےبشار الاسد اور ان کے خاندان کا اب کیا مستقبل ہے؟عقوبت خانے، بارودی سرنگیں اور خفیہ فائلیں: شام کی سکیورٹی ایجنسیوں کے دفاتر میں بی بی سی نے کیا دیکھا؟ شام پر ایرانی قرض کتنا ہے اور بشار الاسد کے جانے کے بعد یہ کون واپس کرے گا؟