پانامہ کینال پر امریکی قبضہ کیسے ہوا اور ایک چھوٹے سے ملک نے اس کا کنٹرول کیسے واپس لیا؟

بی بی سی اردو  |  Jan 01, 2025

Getty Images

یہ 31 دسمبر 1999 کی بات ہے جب پانامہ کینال سے امریکہ کا جھنڈا اتارا گیا اور اس کی جگہ وہاں پہلی مرتبہپانامہ کا جھنڈا لہرایا گیا اور پانامہ کے باسیوںنے جشن منایا۔

اس کے ساتھ ہی احتجاج، کشیدگی اور اموات سے بھرے ایک عہد کا بھی خاتمہ ہوا۔

البرٹو علیمین زوبیاتا جو کئی سال تک اس کینال کے منتظم رہے، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس روز ’پانامہ کے لوگوں کی خوشی قابلِ دید تھی۔‘

مگر آج 25 سال بعد نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازعہ بیانات کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر سے اخبار کی شہ سرخیوں کا حصہ ہے اور اس راستے کی خودمختاری پر ایک بار پھر سے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

ٹرمپ نے حال ہی میں کینال کا راستہ استعمال کرنے والے امریکی بحری جہازوں سے وصول کی جانے والی فیسوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں لوٹا جا رہا ہے۔‘

ٹرمپ نے تجویز پیش کی کہ اگر اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو ’ہم مطالبہ کریں گے کہ پانامہ کینال کو بنا کسی سوال جواب کے فوری اور مکمل طور پر امریکہ کے حوالے کیا جائے۔‘

ان کے اس بیان کے جواب میں پانامہ کے صدر جوزے راؤل ملینو نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے: ’کینال کا ایک ایک انچ انچ پانامہ کا ہی رہے گا۔‘

آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ معاملات یہاں تک کیسے پہنچے۔

Getty Imagesپانامہ میں طلبا کا احتجاجخانہ جنگی سے ملنے والا موقع

یورپی آباد کار 16ویں صدی سے ہی ایک ایسے راستے کی خواہش رکھتے تھے جو بحرالکاہل کو بحر اوقیانوس سے ملا دے۔

ان وقتوں میں جنوبی سمندروں تک رسائی کا واحد ذریعہ جنوبی چلی میں آبنائے میگیلان سے تھا۔ مگر اس تک پہنچنے کے لیے سمندر میں ایک طویل سفر اور کیپ ہارن کے خطرناک موسم کا سامنا کرنا پڑتا۔

19ویں صدی میں پہلی مرتبہ پانامہ کے ستھیمس سے گزرنے والے راستے کو آزمایا گیا جو کولمبیا کا حصہ تھا۔

بوگوٹا نے کینال کی تعمیر کا ٹھیکہ ایک فرانسیسی انجینئر فرڈینینڈ ڈی لیسیپس کو دیا جس نے مصر میں نہر سویز کو بھی تعمیر کیا تھا۔

لیکن مزدوروں کو متاثر کرنے والی بیماریاں، جن میں سے بہت سے افریقی غلام تھے، زمین کی نمی اور مسلسل بارش نے اس منصوبے کو دیوالیہ پن کی طرف لے جایا۔

زیادہ تر مزدور افریقی غلام تھے جنھیں مختلف بیماریاں لگ گئیں۔۔۔ اس کے علاوہ زمین میں نمی اور مسلسل بارشوں کے باعث یہ منصوبہ دیوالیہ پن کے قریب تھا مگر اسی وقت اس سمندری راستے میں امریکہ کی دلچسپی بڑھی۔

اس وقت کولمبیا ایک خانہ جنگی سے نکل رہا تھا۔۔ ایک ایسی خانہ جنگی جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ملک کے اعلیٰ حلقوں میں سیاسی طور پر شدید تناؤ تھا اور اس سب صورتحال کے باعث ہی پانامہ کو آزادی نصیب ہوئی۔

نہر پانامہ: وہ آبی گزر گاہ جس نے جہاز رانی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیاخشک سالی اور نہر پانامہ میں پھنسے تجارتی جہاز: پانامہ کی متبادل نکاراگوا نہر تعمیر کیوں نہ ہو پائی؟نہر سوئز کے علاوہ تجارت کے لیے دنیا کے اہم بحری راستے کون سے ہیں؟سوئز نہر بند ہونے سے آپ کی جیب کیسے متاثر ہو سکتی ہے؟

امریکہ اس وقت ایک ابھرتی ہوئی طاقت تھی جس نے پورٹو ریکو اور کیوبا کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اس نے کولمبیا کے اندرونی بحران کو ایک بہترین موقع کے طور پر دیکھا اور اس نے کینال کی تعمیر کا ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے 40 ملین ڈالر ادا کرنے کی تجویز پیش کی۔

یہیں سے کولمبیا اور امریکہ کے درمیان ہیران ہائے معاہدے پر کام شروع ہوا جس میں مخلتف شرائط رکھی گئیں۔

یہ خاصے پیچیدہ مذاکرات تھے مگر پانچ اگست 1903 کو کولمبیا کی حکومت نے اس معاہدے کو ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اس تجویز کو مسترد کر رہی ہے۔

اس وقت پانامہ جو کولمبیا کا حصہ تھا، نے کولمبیا کی جانب سے معاہدہ مسترد کیے جانے کی پرواہ نہیں کی اور امریکہ (جس نے کولمبیا کو فوجی کارروائی کی صورت میں جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی) کی مدد سے تین نومبر 1903 کو اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔

پانامہ کے تاریخ دان ماریکسا لاسو کہتے ہیں کہ ’امریکہ نے اس صورتحال میں ایک بہترین موقع دیکھا اور کولمبیا کی مداخلت کے بغیر اپنے مطلوبہ معاہدے کو حاصل کر لیا۔‘

Getty Imagesپانامہ کینال بحرِ اوقیانوساور بحر الکاہلکو ملانے کے لیے بنایا گیا راستہ ہےایک منقسم ملک جہاں امریکی موجودگی سے کشیدگی پیدا ہوئی

پانامہ کی آزادی کے بعد دونوں ممالک نے ’ہے بُناؤو وریلا‘ نامی معاہدے پر دستخط کیے جس میں پانامہ کی آزادی کی ضمانت دی گئی اور پانامہ نے امریکہ کو کینال کا مستقل اختیار دیا جس میں کینال زون پر کنٹرول بھی شامل تھا۔ اس کینال زون میں سٹریٹجک آبی گزرگاہ کے چاروں اطراف آٹھ کلومیٹر (تقریباً پانچ میل) کا علاقہ شامل تھا۔ اس کے بدلے میں پانامہ کو 10 ملین ڈالر معاوضہ ملنے کا اعلان ہوا۔

1913 میں کینال کی تعمیر کا کام مکمل ہونے کے بعد بھاپ سے چلنے والا اینکون وہ پہلا بحری جہاز تھا جس نے اس آبی گزرگاہ کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اس کے کھلنے کی نوید دی۔

لیکن کشیدگی شروع ہونے میں بھی زیادہ وقت نہیں لگا۔۔۔۔ عملی طور پر ملک دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا لیکن کینال پر کام کرنے والے ہزاروں امریکی اور ان کے خاندان اپنے قوانین کے تحت اس زون میں رہتے تھے جس کا باقاعدہ افتتاح 1914 میں کیا گیا تھا۔

اس زون میں رہنے والے امریکی پانامہ کی آبادی کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھے ہوئے تھے اور پانامہ کے شہری خصوصی اجازت کے بغیر اس علاقے تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔

وقت کے ساتھ پانامہ کے شہریوں میں غصہ بڑھنے لگا۔۔۔مظاہروں کا آغاز ہوا جن میں امریکوں کے وہاں سے نکلنے اور پانامہ کینال کا اختیار واپس پانامہ کو دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

1958 میں یونیورسٹی کے طلبا کے ایک گروپ نے آپریشن سویئرنٹی یا خودمختاری کا آغاز کیا۔ انھوں نے پرامن انداز میں امریکہ کے زیرِ قبضہ علاقے میں پانامہ کے 75 جھنڈے گاڑ دیے۔

Getty Imagesکینال زون میں امریکی جھنڈا لہرا رہا ہے

طلبا کے اس احتجاج میں شامل ایک رہنما ریچاردو ریوس ٹوریز نے 2019 میں بی بی سی منڈو کو بتایا تھا کہ ’انھوں نے ہم سے کہا کہ پانامہ کے شہری اس علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اسی دن ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اب مزید خوفزدہ نہیں رہیں گے۔ ہم چاہتے تھے کہ امریکیوں کو یہاں سے نکالنے اور اس علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک نیا معاہدہ کیا جائے۔‘

دوسرا واقعہ جو اس بین ال سمندری راستے پر پانامہ کے دوبارہ دعوے کی وجہ بنا وہ 1959 کا پیٹریاٹک مارچ تھا جس میں پانامہ کے شہریوں کو اپنے جھنڈے کے ساتھ کینال زون میں داخل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔

یہ مارچ شروع تو پرامن طور پر ہوا لیکن جب علاقے میں مظاہرین کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی تو پانامہ کے شہریوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں درجنوں افراد زخمی ہوئے۔

دونوں واقعات نے ایک نعرے کو جنم دیا جو آگے چل کر پانامہ میں بہت مقبول ہو گیا: ’جو جھنڈا گاڑتا ہے، خودمختاری حاصل کرتا ہے۔‘

Getty Imagesوقت کے ساتھ پانامہ کے شہریوں میں غصہ بڑھنے لگا۔۔۔مظاہروں کا آغاز ہوا جن میں امریکوں کے وہاں سے نکلنے اور پانامہ کینال کا اختیار واپس پانامہ کو دینے کا مطالبہ کیا گیا۔یومِ شہدا

یہ واقعات بعد کے سالوں میں مزید احتجاج کا سبب بنے۔ سنہ 1962 میں پانامہ کے اس وقت کے صدر رابرٹو چیاری اور امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں یہ طے ہوا کہ کینال زون کے شہری علاقوں میں دونوں ممالک کے جھنڈے لہرائے جائیں۔

تاہم جب اس معاہدے کے نفاذ کا دن یکم جنوری 1964 آیا تو کینال زون میں رہنے والوں نے زون کے گورنر کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے پانامہ کا جھنڈا لگانے سے انکار کر دیا۔

نو جنوری کو پانامہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ کے درجنوں طلبا اپنے سکول کے جھنڈے اٹھائے کینال زون میں پہنچے اور وہاں کے مقامی بالبوہ ہائی سکول میں پانامہ کا جھنڈا لگانے کا مطالبہ کیا۔

امریکی پولیس اہلکاروں نے انھیں روکا۔ تصادم کے نتیجے میں 20 سے زائد مظاہرین ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے اور پانامہ کے جھنڈے کی بے حرمتی ہوئی۔ اس دن کو بعد میں یومِ شہدا کا نام دیا گیا۔

اس واقعے کے بعد صدر روبرٹو چیاری نے نیا معاہدہ ہونے تک واشنگٹن کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔

بہت سے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسی واقعے سے اس تحریک نے جنم لیا جس کے نتیجے میں پانامہ کینال کا اختیار واپس پانامہ کے شہریوں کو ملا۔

Getty Images9 جنوری کو پانامہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ کے درجنوں طلبا اپنے سکول کے جھنڈے اٹھائے کینال زون میں پہنچے اور وہاں کے مقامی بالبوہ ہائی سکول میں پانامہ کا جھنڈا لگانے کا مطالبہ کیانیا معاہدہ

جنوری کے واقعات کی تلخی کچھ کم ہوئی تو تین اپریل 1964 کو امریکہ اور پانامہ کے درمیان بات چیت کا آغاز ہو گیا۔

دونوں ممالک نے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے خصوصی سفیروں کی تعیناتی پر اتفاق کیا۔

لیکن اس میں مزید 10 سال لگ گئے۔

اس قوت امریکہ کے نئے صدر رچرڈ نکسن تھے جب امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور پانامہ کے وزیر خارجہ جوآن انتونیو ٹیک کے درمیان پانامہ سٹی میں ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط ہوئے۔

اس سے پانامہ کینال کے مستقبل کے بارے میں حتمی معاہدہ پر کام کرنے کے لیے ایک واضح فریم ورک بنا۔ امید کی جا رہی تھی کہ یہ حتمی معاہدہ دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہو گا۔

Getty Imagesامریکی صدر جمی کارٹر اور پانامہ کے عمر توریجوس 7 ستمبر 1977 کو معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد گلے مل رہے ہیں۔

یہ طے پایا کہ ’ہے بُناؤو وریلا‘ معاہدے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اُس معاہدے نے کینال کے کنٹرول کے ساتھ ساتھ پانامہ کے کچھ حصے بھی امریکہ کے اختیار میں دیے تھے۔

بلاخر وہ معاہدہ طے پایا جس پر سات ستمبر 1977 کو امریکی صدر جمی کارٹر اور پانامہ کے نیشنل گارڈ کے کمانڈر عمر توریجوس نے باقاعدہ دستخط کیے۔

سادہ الفاظ میں دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کینال زون کی خودمختاری پانامہ کی قانون سازی سے مشروط ہے اور اس سمندری راستے کی ملکیت پانامہ کو منتقل کرنے کے لیے 31 دسمبر 1999 کی تاریخ مقرر کی گئی۔

کارٹر نے کہا کہ پانامہ کے باشندوں کو کینال کا اختیار واپس کر کے امریکیوں نے یہ ثابت کیا کہ ’ایک بڑے اور طاقتور ملک کے طور پر ہم ایک چھوٹی مگر خودمختار قوم کے ساتھ انصاف اور عزت سے پیش آنے کے اہل ہیں۔‘

کینال کے اختیارات کی واپسی۔۔ پانامہ کے شہریوں کے لیے ایک خواب جیسا دن

پانامہ کو کینال کا اختیار واپس ملنے سے چند دن پہلے دنیا بھر سے حکام اس سرکاری تقریب میں شرکت کے لیے پانامہ پہنچے۔۔۔ یہ پانامہ کے شہریوں کے لیے ایک خواب جیسا تھا۔ اس دن کارٹر خود بھی وہاں موجود تھے۔

پانامہ شہر کے مختلف حصوں میں بڑی بڑی سکرینیں نصب کی گئی جن پر الٹی گنتی یا کاؤنٹ ڈاؤن چل رہا تھا۔

Getty Imagesپانامہ کو کینال کا اختیار واپس ملنے سے چند دن پہلے دنیا بھر سے حکام اس سرکاری تقریب میں شرکت کے لیے پانامہ پہنچے۔۔۔ یہ پانامہ کے شہریوں کے لیے ایک خواب جیسا تھا۔ اس دن کارٹر خود بھی وہاں موجود تھے۔

پانامہ کے صدر میرینا موسکو نے کینال ایڈمنسٹریشن بلڈنگ میں پانامہ کا جھنڈا بلند کیا جس کے ساتھ ہی باضابطہ طور پر کینال کا اختیار پانامہ کے پاس واپس آ گیا۔

اس دن صدر نے کہا تھا ’پانامہ کینال یہاں کے شہریوں کی ہے۔۔ بلآخر پانامہ ایک مکمل طور پر خودمختار ملک بن گیا ہے۔‘

نہر پانامہ: وہ آبی گزر گاہ جس نے جہاز رانی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیاخشک سالی اور نہر پانامہ میں پھنسے تجارتی جہاز: پانامہ کی متبادل نکاراگوا نہر تعمیر کیوں نہ ہو پائی؟سوئز نہر بند ہونے سے آپ کی جیب کیسے متاثر ہو سکتی ہے؟سوئز کینال میں پھنسے بحری جہاز کو کیسے نکالا گیا؟نہرِ پانامہ کی کھدائی ممکن بنانے والے بحری جہاز کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More