خیبرپختونخوا کے ضلع کُرم کے علاقے لوئر کُرم جانے والا راستہ مذاکرات کے نتیجے میں تقریباً 94 روز بعد کھول دیا گیا ہے جس کے بعد 35 ٹرکوں پر مشتمل خوراک اور دیگر اشیا لے جانے والا قافلہ شیعہ اکثریتی علاقے پاڑہ چنار اور سُنّی اکثریتی علاقوں تری منگل، مقبل اور بوشہرہ پہنچ گیا ہے۔
حکومتی ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق سامان کے 25 ٹرک اہلسنت مکتبہ فکر کے اکثریتی علاقوں تری منگل، مقبل اور بوشہرہ پہنچے ہیں جبکہ دس ٹرک شیعہ اکثریتی علاقے پاڑہ چنار پہنچے ہیں۔
تاہم اہلسنت مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مشران نے واضح کیا ہے کہ قافلے کے گزرنے کے فوراً بعد ہی دھرنے دوبارہ شروع کر دیے گئے ہیں۔
ضلع کُرم میں سُنّی اور شیعہ قبائل کے درمیان خون ریز جھڑپیں برسوں سے جاری ہیں لیکن اس میں شدت گذشتہ برس اس وقت دیکھنے میں آئی جب دونوں مکتبہِ فکر سے تعلق رکھنے والے مسافر قافلوں پر مختلف اوقات میں حملے کیے گیے اور درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
نومبر میں ایک ایسے ہی حملے میں شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد مشتعل افراد نے بگن سمیت کُرم کے سُنّی علاقوں میں بازاروں اور گھروں کو آگ لگا دی تھی۔
بااثر قبائلی افراد اور سرکاری حکام کی جانب سے کئی ماہ سے کوششیں کی جا رہی تھیں کہ دونوں گروہوں میں امن معاہدہ کروایا جائے تاکہ پاڑہ چنار جانے والی سڑک کھولی جا سکے اور وہاں غذائی قلت اور صحت سے مسائل کو حل کیا جا سکے۔
بالآخر منگل کو مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں سرکاری انتظامیہ کو اجازت دی گئی کہ وہ کشیدگی کا شکار بگن، مندوری اور صدہ جیسے علاقوں سے خوراک اور سامان کے ٹرک گزار کر پاڑہ چنار لے جائیں۔
خیال رہے اس وقت مندوری اور صدہ میں دھرنے تاحال جاری ہیں اور پاڑہ چنار جانی والی سڑک کو صرف اس قافلے کے لیے کھولا گیا تھا۔
کُرم کی یونین کونسل مقبل کے چیئرمین عمران خان مقبل نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ سامان والا قافلہ بگن اور علیزئی سے گزر کر براستہ بائی پاستہ اہلِ تشیع اکثریتی علاقے میں پہنچ چکا ہے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ پولیس نے اہلسنت مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو گرفتار کیا ہے اور اسی سبب صدہ کے علاقے میں بھی احتجاجی مظاہرے شروع ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب بگن میں مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ نقصانات کے ازالے تک اپنا دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ بگن میں مقیم تاجر رہنما محمد شاہین کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں دھرنا ختم نہیں کریں گے۔
انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہ دھرنا مندوری میں اس وقت تک جاری رہے گا جب تک بگن کے علاقوں کو پہنچایا جانے والا نقصان پورا نہیں کیا جاتا۔ ایسے نہیں ہوسکتا کہ حملہ بھی ہو، جائیدادیں، گھر تباہ کردیے جائیں اور اس کا ازالہ کیے بغیر آپ آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔‘
انھوں نے تصدیق کی کہ مذاکرات کے نتیجے میں ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر‘ ضروری سامان سے لیس ٹرکوں کو پاڑہ چنار جانے کا راستہ دیا گیا تھا، لیکن اس قافلے کے گزر جانے کے بعد دوبارہ دھرنا شروع کر دیا گیا ہے۔
ٹرکوں میں کیا سامان تھا اور یہ قافلہ لوئر کُرم کیسے پہنچا؟
گذشتہ روز انتظامیہ سے مذاکرات کرنے والے قبائلی مشر حاجی کریم کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز ان کی کمشنر کوہاٹ کی سربراہی میں انتظامی افسران سے ملاقات ہوئی تھی۔
’ہم نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر خوراک اور سامان والے قافلے گزرنے کی اجازت دی ہے۔ اس مصیبت میں صرف اہل تشیع ہی نہیں پھنسے ہیں بلکہ اہلسنت مکتبہ فکر کے لوگ بھی متاثریں میں شامل ہیں۔‘
تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ’اس قافلے کی حفاظت حکومت کی اپنی ذمہ داری ہو گی۔ اگر کوئی اور اس پر حملہ کرتا ہے تو ہم لوگ اس کے جواب دہ نہیں ہوں گے۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے اہم مشر ملک سیف اللہ کو مذاکرات کے لیے پشاور سے بلایا گیا تھا لیکن پولیس نے انھیں تحویل میں لے لیا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ملک سیف اللہ سمیت دیگر مشران کو رہا کیا جائے۔
حاجی کریم کا کہنا تھا کہ مندروی میں دھرنا مطالبات منظور ہونے تک جاری رہے گا۔
دوسری جانب پاڑہ چنار میں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں پہنچنے والی اشیا لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
عرفان حسین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’قافلہ پاڑہ چنار پہنچنے کے بعد سامان مختلف دُکانوں تک پہنچا لیکن مجھ سمیت بہت سارے لوگوں کو آٹا، گھی اور چینی نہیں مل سکا۔‘
’لوگ وہاں قطاریں بنائے کھڑے تھے اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے تمام اشیا فروخت ہو گئیں۔ میں بس ایک دو کلو کی مرغی ہی حاصل کر سکا۔‘
پاڑہ چنار میں خالی دکانیں، سُونے بازار اور اشیائے ضروریہ ڈھونڈتے شہری: ’ادھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہاں تو پیناڈول کی گولی تک دستیاب نہیں‘زینبیون، تحریک طالبان: کیا ’بیرون ملک تربیت حاصل کرنے والے جنگجوؤں‘ کا کرّم میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے کوئی تعلق ہے؟’پاپا ہمارے کتنے اور ان کے کتنے لوگ مارے گئے‘: فرقہ وارانہ لڑائی میں گھِرے کرم میں حکومت رٹ قائم کرنے میں ناکام کیوں؟ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات: چند کنال زمین کے تنازعات جو سینکڑوں جانیں لے چکے ہیں
پاڑہ چنار کے ایک اور شہری احسن مجتبیٰ کہتے ہیں کہ ان کے والد شوگر کے مریض ہیں اور سامان پہنچنے کی خبر سُنتے ہی وہ میڈیکل سٹور پہنچے لیکن انھیں بتایا گیا کہ علاقے میں پہنچنے والے سامان میں ادویات شامل نہیں ہیں۔
دوسری جانب تاجران پاڑہ چنار کے صدر نذیر احمد کہتے ہیں کہ یہ سامان چھوتے شہزور ٹرکوں میں آیا تھا اور یہ کوئی حکومتی امداد نہیں تھی بلکہ پاڑہ چنار کے تاجروں کی جانب سے خریدا ہوا سامان تھا۔
’اس سامان میں بھی ضرورت کی تمام اشیا نہیں تھیں۔ اس وقت پاڑہ چنار میں ادویات، گھی، آٹا، چینی اور گیس سلینڈروں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘
نذیر احمد نے مزید کہا کہ راستے کی بندش کے سبب تاجر کا خریدا ہوا سامان جس میں سبزیاں اور مرغی کا گوشت شامل تھا وہ سامان خراب ہو چکا ہے جس سے انھیں لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔
بی بی سی نے لوئر کُرم میں سامان کی قلت اور موجودہ صورتحال کے حوالے سے جاننے کے لیے خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف اور کوہاٹ انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم بیرسٹر سیف کی جانب سے جاری ایک علیحدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ رات ہونے والے مذاکرات کے بعد لوئر کرم سامان کا قافلہ بھیجا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ امن کے قیام کے بعد سامان کے مزید قافلے بھی ان علاقوں میں بھیجے جائیں گے۔ تاہم انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ سامان کب بھیجا جائے گا۔
پاڑہ چنار میں ’لوگ فاقے کر رہے ہیں‘
پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ علاقے کی صورتحال اب پہلے سے زیادہ ابتر ہو چکی ہے اور اب تو وہاں مقامی طور پر کاشت کی جانے والی سبزیاں بھی ختم ہو چکی ہیں۔
پاڑہ چنار میں ٹریڈ یونین کے صدر حاجی امداد کا کہنا ہے کہ ’لوگ سبزی کی دُکانوں سے پیاز اور ٹماٹر خرید خرید کر گزارا کرتے تھے لیکن اب وہ بھی موجود نہیں ہیں۔ اس وقت صرف آلو بچا ہے جو کہ 550 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کئی لوگ فاقے کر رہے ہیں، دُکانیں اور کاروباری مراکز میں ہر چیز ختم ہوچکی ہے اور مارکیٹیں بند ہیں۔‘
عمران علی بھی افغانستان کی سرحد سے ملحقہ آبادی کے رہائشی ہیں اور ان کے مطابق ان کے گھر میں مقامی طور پر کاشت ہونے والے لوبیا کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ مہینے بی بی سی اردو کو ایدھی فاؤنڈیشن کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے پاڑہ چنار تک رسائی ملی تھی اور وہاں نظر آنے والے مناظر یہ باور کروانے کے لیے کافی تھے کہ اس علاقے کے لوگوں کو نہ صرف سکیورٹی خدشات لاحق ہیں بلکہ انھیں ادویات، کھانے پینے کی اشیا اور انتہائی بنیادی اشیائے ضروریہ کے حصول میں بھی انتہائی دشواریوں کا سامنا تھا۔
BBCپاڑہ چنار میں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں پہنچنے والی اشیا لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں
ان کا کہنا تھا ’حالات یہ ہیں کہ بچوں کے لیے دودھ بلکل ختم ہے،مقامی دودھ بھی کم ہی دستیاب ہے کیونکہ ہر کسی کو اس کی ضرورت پڑتی ہے۔‘
’علاقے میں باڑوں کے مالکان نے بھی دودھ دینے کے لیے نمبر لگا رکھے ہیں۔ وہ سب کو روز دودھ نہیں دیتے تاکہ سب کی کچھ نہ کچھ ضرورت پوری ہو سکے۔‘
پاڑہ چنار کے قریبی علاقے میں مقیم ڈرائیور نادر حسین بھی کچھ ایسی ہی کہانی سُناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’میرے گھر میں سات افراد ہیں۔ کچھ دن تک ہم ایک وقت کے کھانے میں ٹماٹر اور پیاز کھاتے رہے ہیں، مگر اب ٹماٹر بھی دستیاب نہیں ہیں۔‘
ان کے مطابق صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ جو لوگ پہلے صدقہ و خیرات دیتے تھے اب وہ خود محتاج ہو چکے ہیں۔
دواؤں کی قلت اور سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب بچوں کی ہلاکتیں
پاڑہ چنار میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے میڈیکل سُپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر میر حسن جان کا کہنا ہے کہ حالیہ بحران کے دوران ہسپتال انتظامیہ کے لیے ابتدائی دن کافی مشکل تھے، مگر پھر صوبائی حکومت نے انھیں فضائی راستے کے ذریعے دوائیں اور دیگر اشیا ہسپتال پہنچائیں۔
ڈاکٹر میر حسن جان نے ہسپتال ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے تصدیق کی کہ گذشتہ برس اکتوبر سے لے کر یکم جنوری 2025 تک قبل از وقت جنم لینے والے نومولودوں سمیت مختلف عارضوں کا شکار 37 بچے علاج کی بہتر سہولیات نہ ملنے کے باعثہلاک ہو چکے ہیں کیونکہ راستوں کی بندش کے سبب انھیں پشاور منتقل نہیں کیا جا سکا تھا۔
واضح رہے کہ پاڑہ چنار سول سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری نے دعویٰ کیا تھا کہ اب تک ضلع میں 147 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے میڈیکل سُپرنٹینڈنٹ کے مطابق ان کی مرتب کردہ فہرست میں 200 مریض ایسے ہیں جنھیں پشاور کے بڑے ہسپتالوں میں منتقل کرنا ضروری ہے۔
Getty Imagesاحسن مجتبیٰ کہتے ہیں کہ ان کے والد شوگر کے مریض ہیں اور سامان پہنچنے کی خبر سُنتے ہی وہ میڈیکل سٹور پہنچے لیکن انھیں بتایا گیا کہ علاقے میں پہنچنے والے سامان میں ادویات شامل نہیں ہیں
ان کا کہنا تھا کہ کچھ مریضوں کو ایدھی فاؤنڈیشن کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے پشاور منتقل کیا گیا ہے لیکن یہ تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ایک ایمبولینس میں صرف دو، تین مریضوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ہسپتال میں ادوایات سمیت تمام سہولتیں موجود ہیں کیونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے تواتر سے ادویات کی سپلائی جاری ہے۔
ضلع کُرم میں امن معاہدے پر عمل ہونے میں تاخیر کیوں ہوئی؟
چند روز قبل حکومت اور قبائلی عمائدین کی کوششوں کے سبب ضلع کُرم میں ایک امن معاہدہ ہو گیا تھا، تاہم حاجی سیف اللہ سمیت اہلسنت مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دیگر مشران نے اس پر دستخط نہیں کیے تھے۔
امن معاہدے کے اعلان کے بعد ہی اہلسنت مکتبہ فکر کے اکثریتی علاقے بگن میں دھرنے کے شرکا نے اعلان کیا کہ کے ان مطالبات کی منظوری تک وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے۔
امن معاہدہ کے بعد اشیا ضروریہ سے لیس قافلے کو پاڑہ چنار پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم اس قافلے کی روانگی سے قبل انتظامات اور مذاکرات کے لیے بگن پہنچنے والے ضلع کُرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود اور ان کے گارڈ پر فائرنگ کر دی گئی۔
پولیس کی جانب سے درج کیے گئے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اس فائرنگ کے نتیجے میں جاوید اللہ محسود سمیت چھ افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس مقدمے میں 35 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
فائرنگ کے اس واقعے کے بعد ایک بار پھر مذاکرات کا دور شروع ہوا جس کے بعد بگن اور مندوری کے اہلسنت عمائدین نے 25 ٹرکوں پر مشتمل قافلے کو گزرنے کی اجازت دیتھی۔
اہلسنت مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مشر حاجی کریم کے مطابق اس کے بعد حکومت دوبارہ اب سے مذاکرات کرے گی اور بگن کے لوگوں کے مطالبات پر بات ہو گی۔
کرم میں قیام امن اور اسلحے کی حوالگی کا مجوزہ معاہدہ کیا ہے اور اس میں تاخیر کیوں؟کرم کے بگن بازار پر جمعے کی شب حملے کا احوال: ’نعروں کی آوازیں سنیں اور پھر دکانوں کو آگ لگا دی گئی‘پاڑہ چنار میں خالی دکانیں، سُونے بازار اور اشیائے ضروریہ ڈھونڈتے شہری: ’ادھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہاں تو پیناڈول کی گولی تک دستیاب نہیں‘پاڑہ چنار کے ’محصور‘ عوام: ’ہماری آنکھوں میں الوا کی موت کے دُکھ سے زیادہ اپنی بے بسی کے آنسو تھے‘https://www.bbc.com/urdu/articles/cpqd3yr0ylwoکرّم میں 43 ہلاکتیں: بوشہرہ میں زمین کا تنازعہ پُرتشدد فرقہ وارانہ لڑائی میں کیسے بدل جاتا ہے