مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات: ’برطانیہ کی سپیشل ایئر سروس کو افغانستان میں قتل کرنے کی کھلی چھوٹ تھی‘

بی بی سی اردو  |  Jan 08, 2025

Getty Imagesجنگ کے دوان ایس اے ایس والے افغان فورسز کے ساتھ شب خون مارتے تھے

برطانیہ کی سپیشل فورسز کے ایک سابق سینیئر افسر نے افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کے بارے میں ایک سرکاری تحقیقاتی ٹیم کو بتایا ہے کہ ایس اے ایس (سپیشل ایئر سروس) کے پاس ’قتل کرنے کا گولڈن پاس‘ یعنی قتل کر کے بچنے کی کھلی چھوٹ تھی۔

یہ الزامات بدھ کے روز افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کی انکوائری کی طرف سے شائع کیے گئے ہیں جس میں برطانیہ کی خصوصی افواج کے ارکان کے ساتھ سات بند کمرے میں کی جانے والے تفتیش (تنہائی میں کی جانے والی پوچھ گچھ) کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔

یہ افسر برطانیہ کی خصوصی بحری افواج میں سپیشل بوٹ سروس (ایس بی ایس) کے سابق آپریشن چیف آف اسٹاف ہیں اور وہ برطانیہ کے ان کئی سینئر افسران میں سے ایک تھے جنھوں نے سنہ 2011 میں یہ خدشات درج کروائے تھے کہ ایس اے ایس والے لوگوں کو پھانسیاں دے رہے ہیں اور ان سزاؤں کو چھپایا جا رہا ہیں۔

اس انکوائری میں افغانستان میں برطانیہ کی خصوصی فورسز کی طرف سے 2010 سے لے کر 2013 تک کی گئی کارروائیوں کا احاطہ کیا گیا ہے اور ان الزامات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کہ کیسے ان فورسز نے چھاپوں میں لوگوں کو قتل کیا اور پھر اسے اپنی مرضی کا رنگ دیا۔

اس وقت کی ایک ایسی ہی ای میل میں افسر نے لکھا کہ خصوصی فورسز کی طرف سےماورائے عدالت قتل ایک معمول بن چکا ہے اور انھوں نے اس رجمنٹ کی طرف سے آپریشن کے دوران کی جانے والی ہلاکتوں کو غیر معمولی کارروائی قرار دیا۔

بند کمرے میں کی جانے والے تفتیش کے دوران یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اپنے اس دعوے پر قائم ہیں کہ ایس اے ایس کے اقدامات قتل کے مترادف ہیں تو افسر نے جواب دیا ’یقیناً۔‘

جب پوچھ گچھ کرنے والے وکیل نے ان پر زور دیا کہ آپ نے سنہ 2011 میں اپنے تحفظات کو اعلیٰ کمانڈز کو کیوں نہیں بتایا تھا تو انھوں نے اس وقت نہ بتانے کے اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ برطانیہ کی سپیشل فورسز کی طرف سے ’قیادت کی بڑی ناکامی‘ ہے۔

سابق ایس بی ایس آپریشنز چیف آف سٹاف برطانیہ کی رائل نیوی کی سپیشل فورسز رجمنٹ کے کئی سینیئر افسران میں سے ایک تھے جنھوں نے 2024 میں بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی انکوائری میں گواہی دی ہے۔

بی بی سی کے پینوراما پروگرام کی جانب سے افغانستان میں قتل و غارت گری کی رپورٹنگ اور ایس اے ایس کی جانب سے ان کی پردہ پوشی پر بی بی سی کی برسوں کی رپورٹنگ کے بعد یہ انکوائری سنہ 2010 اور 2013 کے درمیان برطانیہ کی سپیشل فورسز کی طرف سے شب خون کی تحقیقات کر رہی ہے۔

برطانوی سپیشل فورسز نے افغانستان میں غیر مسلح افراد کو قتل کیا: بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹکیا برطانوی سپیشل فورسز نے معصوم افغان بچے قتل کیے؟پختونستان تنازع اور پاکستان پر افغان فوج کا حملہ: جب باجوڑ کے پہاڑ افغان توپ خانے کی گھن گرج سے گونج اٹھےہالی وڈ گیٹ، امریکی اسلحہ اور ’خوف‘: طالبان کے ساتھ ایک سال گزارنے والے فلمساز نے افغانستان میں کیا دیکھا؟

بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی تفتیش میں تحقیقاتی ٹیم اور وزارت دفاع کے نمائندوں کو شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔ عوام، میڈیا کے ارکان اور سوگوار خاندانوں کے وکلا کو اس تفتیش میں موجود ہونے کی اجازت نہیں تھی۔

بدھ کو جاری کردہ مواد ان تفتیشوں کی گواہی کا خلاصہ ہیں۔

سینکڑوں صفحات پر مشتمل ان دستاویزات میں مجموعی طور پر سنہ 2009 میں ایس اے ایس کی افغانستان آمد اور ایس بی ایس کے ساتھ طالبان کا شکار کرنے کے طریقہ کار کی تصویر کشی ہے۔

ایس بی ایس کے سینیئر افسران نے استفسار پر گہری تشویش کرتے ہوئے بتایا کہ ایس اے ایس عراق میں جارحانہ اور تیز رفتار کارروائیوں سے تازہ تازہ آئے تھے اور ان کے لیے ہلاکتوں کی تعداد اہم تھی کہ وہ ہر آپریشن میں مرنے والوں کی تعداد شمار کرتے تھے۔

شواہد دینے والے ایک اور سینیئر ایس بی ایس افسر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سنہ 2011 کے اپنے خدشات پر قائم ہیں کہ ایس اے ایس ماورائے عدالت قتل کر رہی تھیں۔

اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’میں نے غور کیا اور سوچا تو لگا کہ کم از کم کچھ آپریشنز میں (ایس اے ایس والے) قتل کر رہے تھے۔‘

BBCایس اے ایس کو افغانستان میں سنہ 2009 میں تعینات کیا گيا تھا

ایک جونیئر ایس بی ایس افسر نے بھی بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی انکوائری میں گواہی دی ہے۔ انھوں نے افغانستان سے واپس لوٹ کر آنے والے ایک ایس اے ایس کے ساتھ گفتگو کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے بتایا کہ وہ پستول سے گولی مارنے سے قبل مقتول کے سر پر تکیہ رکھ دیتے تھے۔

جونیئر افسر نے کہا کہ ’میرے خیال سے مجھے جس چیز سے سب سے زیادہ صدمہ پہنچا وہ طالبان کے ممکنہ ارکان کا قتل نہیں تھا حالانکہ وہ یقیناً غلط اور غیر قانونی تھا، لیکن مجھے (مرنے والوں کی) عمر اور (مارنے کے) طریقوں سے صدمہ پہنچا جس میں تکیوں جیسی چیزوں کی تفصیلات تھیں۔‘

انھوں نے واضح کیا کہ گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ ایس اے ایس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں میں سے کچھ بچے بھی تھے۔

انکوائری کے وکیل کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے کچھ 16 سال کی عمر کے ہوں گے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’یا اس سے 100 فیصد کم عمر‘ رہے ہوں گے۔

جونیئر افسر نے انکوائری کے دوران بتایا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے خوفزدہ تھے کہ ان کا نام ان شواہد دینے والوں میں نہ جوڑا جائے کہ ایس اے ایس والے مبینہ طور پر شہریوں کو قتل کر رہے تھے۔

یہ ایس بی ایس افسران ایک چھوٹے گروپ کا حصہ تھے جو سنہ 2011 میں ایس اے ایس کے متعلق افغانستان سے آنے والی آپریشنل رپورٹس کی صداقت کے بارے میں نجی طور پر شکوک و شبہات میں مبتلا تھے۔

ایک سینیئر افسر جو اس وقت انگلینڈ کے شہر پول کے ایس بی ایس ہیڈکوارٹر میں ایک عہدہ پر فائز تھے انھوں نے ایک ای میل میں اپنے ایک سینیئر ساتھی کو لکھا کہ ’اگر ہم ہی اس پر یقین نہیں کرتے، تو کوئی اور نہیں کرے گا اور جب اگلی وکی لیکس سامنے آئے گی۔ پھر ہمیں ان کے ساتھ گھسیٹا جائے گا۔‘

PA Mediaاس انکوائری کی سربراہی لارڈ جسٹس سر چارلس ہیڈن کر رہے ہیں

دونوں سینیئر افسران رجمنٹ کی رپورٹس کی زبان کی ترجمانی کرنے کی پوزیشن میں تھے کیونکہ وہ دونوں ایس اے ایس کی آمد سے قبل افغانستان میں ایس بی ایس آپریشنل یونٹس کے ساتھ خدمات انجام دے چکے تھے۔

پھر ان کی بحری یونٹ کو مجبور کیا گیا کہ پیچھے ہٹ جائیں اور طالبان کا شکار کرنے کے بجائے وہ انسداد منشیات کے آپریشن میں شرکت کریں۔

انھوں نے یہ مانا ہے کہ ایس اے ایس نے افغانستان میں قتل و غارت گری کی ہے اس کے ساتھ انھوں نے اپنی ای میلز میں اس کی پردہ پوشی کا بھی ذکر کیا ہے۔ دوسرے افسر نے انکوائری کرنے والوں کو بتایا کہ ’بنیادی طور پر وہاں چپ رہو، سوال نہ کرو کا کلچر نظر آتا تھا۔‘

اس وقت افغانستان میں امدادی عملہ ایس اے ایس کے آپریشنز کے اپنے اکاؤنٹس کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھا کیونکہ وہ قابل اعتبار نہیں تھے۔

ایس بی ایس کے ایک دوسرے سینیئر افسر نے لکھا کہ ان کے خدشات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے ایک قسم کی سرزنش جاری کی جا رہی تھی تاکہ ’اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عملے کے افسران ان لڑکوں کی حمایت کریں۔‘

انھوں نے پوچھے جانے پر بتایا کہ افغانستان میں سپیشل فورسز کے کمانڈنگ آفیسر کی نظر میں ایس اے ایس کوئی غلط کام نہیں کر سکتا اور انھوں نے رجمنٹ کے لیے جوابدہی کی کمی کو ’حیران کن‘ قرار دیا۔

بدھ کو جاری ہونے والی دستاویزات میں فروری سنہ 2011 میں افغانستان میں ہونے والی ایک گرما گرم میٹنگ کے بارے میں بھی نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں، جس کے دوران ایس اے ایس کے ساتھ شراکت دار افغان سپیشل فورسز نے غصے میں آ کر اپنی حمایت واپس لے لی تھی۔

میٹنگ کے بعد ایس اے ایس اور افغان سپیشل فورسز کے درمیان بڑھتی ہوئی رسہ کشی نظر آئی جسے افغان فورسز نے ایس اے ایس کے ارکان کے ہاتھوں غیر قانونی قتل کا نتیجہ کہا۔

میٹنگ میں موجود ایک افغان افسر اس قدر غصے میں تھے کہ مبینہ طور پر وہ اپنی پستول نکالنے لگے تھے۔

ایک نئی جاری کردہ ای میل میں میٹنگ کی وضاحت کرتے ہوئے ایس بی ایس افسر نے لکھا کہ ’میں نے اس سے پہلے کبھی ایسی دشمنانہ میٹنگ نہیں کی تھی، اس میں حقیقی چیخنا چلانا، بازو ہلانا اور ایک مرحلے پر تو پستول کی نکلنا تک ہوا اور یہ سب کچھ بہت ناگوار تھا۔‘

برطانیہ کی سپیشل فورسز کے سینیئر افسران کی مداخلت کے بعد افغان فورسز نے ایس اے ایس کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ لیکن یہ آخری موقع نہیں رہا ہوگا جب انھوں نے احتجاج میں اپنی حمایت واپس لی۔

ایس بی ایس افسر نے اپنے ای میل کا اختتام کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ سب بہت نقصان دہ ہے۔‘

کونور میک کین کی اضافی رپورٹنگ

برطانوی سپیشل فورسز نے افغانستان میں غیر مسلح افراد کو قتل کیا: بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹکیا برطانوی سپیشل فورسز نے معصوم افغان بچے قتل کیے؟شاہِ برطانیہ کے قتل کی ناکام کوشش اور سازش میں ملوث افراد کے جسم کے ٹکڑے کرنے کی سزا جو بغاوت کی علامت بنیبرطانوی وائسرائے کے دلی میں قتل کی ’سازش‘ جس کا سراغ لاہور کے لارنس گارڈن سے ملاسابق برطانوی فوجی پر جاسوسی کا الزام: ’میں برطانیہ میں ایرانی انٹیلیجنس کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا‘پختونستان تنازع اور پاکستان پر افغان فوج کا حملہ: جب باجوڑ کے پہاڑ افغان توپ خانے کی گھن گرج سے گونج اٹھے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More