کیوبا میں امریکہ کے گوانتنامو بے بحری اڈے پر دنیا کے بدنامِ زمانہ ملزمان میں سے ایک خالد شیخ محمد ایک جنگی عدالت کی سب سے اگلی صف میں بیٹھے خاصے انہماک سے عدالتی کارروائی سن رہے تھے۔
جج نے ان کے وکیل سے پوچھا: ’کیا آپ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ خالد شیخ محمد بغیر کسی رد و بدل یا اعتراض، تمام الزامات کا اعترافِ جرم کرتے ہیں؟‘
وکیل نے جواب دیا ’یوئر آنر، جی بالکل ہم تصدیق کرتے ہیں۔‘
عدالت میں بیٹھے 59 برس کے خالد شیخ محمد کی داڑھی پر نارنجی رنگ خاصا نمایاں تھا اور یہاں وہ سر پر پگڑی پہنے، ایک کھلی شرٹ اور ٹراوئزر میں موجود تھے۔ ان کی سنہ 2003 میں حراست کے وقت لی گئی تصویر اور آج کی شبیہ میں مماثلت نہ ہونے کے برابر تھی۔
خالد شیخ محمد پر امریکہ میں 9/11 دہشت گرد حملوں کے مبینہ ماسٹرمائنڈ ہونے کا الزام ہے اور انھوں نے رواں ہفتے اعترافِ جرم کرنا تھا۔
یہ سماعت 9/11 حملوں کے 23 برس بعد ہو رہی تھی جن میں لگ بھگ تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور امریکی حکومت نے ان حملوں کو ’حالیہ تاریخ میں امریکی سرزمین پر ہونے والے سنگین ترین جرم‘ کہا تھا۔
لیکن دو روز بعد جب خالد شیخ محمد نے باضابطہ طور پر اپنے فیصلے پر عمل کرنا تھا جو دراصل امریکی حکومت کے وکلا کے ساتھ کیے گئے ایک متنازع معاہدے کا نتیجہ تھا، اس کے برعکس وہ خاموشی سے بیٹھے یہ سنتے رہ گئے کہ جج کی جانب سے ایک فیڈرل اپیلز کورٹ کے فیصلوں کے تحت یہ کارروائی روکی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ ایک تاریخی ہفتہ ہو گا، ایک ایسے مقدمے کے لیے جو ایک دہائی سے تعطل کا شکار ہے۔ اب ایک نئی پیچیدگی کے بعد یہ مقدمہ پھر سے غیر یقینی مستقبل سے گزر رہا ہے۔
9/11 حملوں میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کے رشتہ دار نے ہمیں بتایا کہ ’یہ ایک ہمیشہ جاری رہنے والا مقدمہ بن چکا ہے۔‘
خالد شیخ محمد اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے ’9/11 آپریشن کی شروع سے آخر تک‘ تمام منصوبہ بندی کی جس کی شروعات پائلٹس کو کمرشل طیارے اڑانے کی ٹریننگ دینے کے آئیڈیا اور اس منصوبے کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے پاس لے جانے سے ہوئی۔‘
تاہم اب تک انھوں نے ان الزامات کو عدالت کے سامنے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اس ہفتے کا تعطل ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکی سرکاری وکلا اور خالد شیخ محمد کے وکیلوں کے درمیان ایک معاہدے پر تنازع کھڑا ہوا تھا جس کے تحت انھیں اعترافِ جرم کے بدلے سزائے موت نہیں دی جائے گی۔
Getty Images’یہ ایک نہ ختم ہونے والے انتظار، مسلسل اذیت کی مانند ہے‘
امریکی حکومت کئی ماہ سے اس معاہدے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس معاہدے کی اجازت دینے کے باعث حکومت اور امریکی عوام کو ’ناقابلِ تلافی‘ نقصان ہو سکتا ہے۔
ایک ایسے مقدمے میں جسے خالد شیخ محمد اور دیگر قیدیوں پر امریکی حراست میں کیے گئے تشدد نے مزید پیچیدہ بنا دیا، جو افراد اس معاہدے کے حق میں ہیں وہ اسے آگے بڑھنے کے واحد راستے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس مقدمے کی سماعت میں شرکت کے لیے متاثرہ خاندان پہلے سے ہی اڈے پر پہنچ چکے تھے تاکہ وہ انھیں ایک ویوئنگ گیلری سے اعترافِ جرم کرتا دیکھ سکیں۔ میڈیا کے نمائندوں، متاثرہ خاندان اور عدالت کے درمیان ایک مضبوط شیشہ موجود تھا۔ ہم ایک ہائی سکیورٹی عدالت میں موجود تھے۔
متاثرہ خاندان کے یہ افراد ہفتے میں ایک مرتبہ اس روٹ پر چلنے والے طیارے کے ذریعے یہاں پہنچے تھے۔ انھیں اس مقدمے کی سماعت کے لیے ایک لاٹری نظام کے ذریعے چنا گیا تھا۔
انھیں خصوصی طور پر اس حوالے سے انتظامات بھی کرنے پڑے تھے۔ جن افراد کے چھوٹے بچے تھے انھیں چائلڈ کیئر اور اپنے پالتو جانوروں کے لیے بورڈنگ سہولیات پر خرچہ کرنا پڑا۔ انھیں جمعرات کی رات بحری اڈے پر ایک ہوٹل میں میڈیا سے بات کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ اس سماعت میں تعطل کا خدشہ ہے۔
الزبتھ ملر کے والد ڈگلس ملر نیویارک شہر میں سنہ 2001 میں فائر فائٹر کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے تھے جب 9/11 حملوں میں ان کی ہلاکت ہوئی۔ اس وقت الزبتھ محض چھ برس کی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اس معاہدے کے آگے بڑھنے کی حامی تھیں تاکہ اس مقدمے کا اختتام ہو لیکن وہ یہ بات بھی سمجھتی ہیں کہ دیگر خاندان یہ کیوں محسوس کرتے ہیں کہ اس معاہدے میں بہت زیادہ نرمی برتی گئی۔
الزبتھ کہتی ہیں کہ ’جو بات بہت زیادہ مایوس کرنے والی ہے وہ یہ کہ اس مقدمے میں جیسے جیسے پیش رفت ہوتی ہے تو دونوں کیمپس کی امیدیں بڑھتی ہیں اور پھر ختم بھی ہو جاتی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک نہ ختم ہونے والے انتظار جیسا ہے۔۔۔ ایک مسلسل اذیت کی مانند۔‘
خالد شیخ محمد: امریکہ نائن الیون کے مبینہ منصوبہ ساز کو ’2976 افراد کے قتل سمیت دیگر سنگین جرائم‘ کا اعتراف کرنے سے کیوں روک رہا ہے؟خالد شیخ محمد: 9/11 کے منصوبہ ساز جنھوں نے ’ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے طیارے ٹکرانے کا منظر کراچی کے ایک انٹرنیٹ کیفے میں دیکھا‘جب 9/11 حملوں کا سہولت کار کراچی سے پکڑا گیاگیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ میں کیا ہوا تھا؟Getty Imagesگوانتنامو بے کے آخری مقدمے
اس ہفتے کی یہ پیشرفت بحری اڈے پر تعطل، پیچیدگیوں اور تنازعات کا تسلسل ہے جہاں امریکی فوج گذشتہ 23 برس سے قیدیوں کو رکھے ہوئے ہے۔
گوانتنامو بے میں فوجی جیل 9/11 حملوں کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے دوران قائم ہوئی۔ یہاں لائے جانے والے پہلے قیدی 11 جنوری سنہ 2002 میں آئے تھے۔
اس وقت کے صدر جارج بش نے ایک ملٹری آرڈر کے تحت ملٹری ٹریبونلز قائم کی تھیں تاکہ غیر ملکی شہریوں کے مقدمات یہاں چلائے جا سکیں۔ اس کے مطابق انھیں فردِ جرم عائد کیے بغیر غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا جا سکتا تھا اور انھیں حراست میں رکھنے کے عمل کو قانونی طور پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
نارنجی رنگ کے لباس میں 20 افراد کو ’ایکسرے‘ نامی عارضی حوالات میں رکھا گیا جہاں موجود سیلز کھلے تھے اور بیڈ میٹ زمین پر موجود تھے۔
اس کیمپ کے گرد خاردار تاریں لگی ہیں اور اب اسے ایک عرصے سے ترک کیا جا چکا ہے اور یہاں جھاڑیاں حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اور اس کے گرد لگی باڑ پر سرخ حروف میں لکھا ہے ’آف لمٹس۔‘
گوانتنامو بے میں صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن اسے آج بھی اقوامِ متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کے گروپس کی جانب سے قیدیوں کے ساتھ سلوک پر تنقید کا سامنا ہے اور یہ امریکی حکام سے اسے بند کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
باراک اوباما نے اپنے ادوار میں جیل کو بند کرنے کا اعادہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ امریکی روایات کے مخالف ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے بھی بظاہر اس حوالے سے کوششیں کی گئیں تاہم یہ جیل آج بھی موجود ہے۔
خالد شیخ محمد کے برعکس اکثر افراد جنھیں اس جیل میں رکھا گیا انھیں کبھی بھی چارج نہیں کیا گیا۔ موجودہ قید کے مراکز میں صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں اور یہاں داخلے کی اجازت صرف انھیں دی جاتی ہے جن کے پاس سکیورٹی کلیئرنس موجود ہو۔
یہاں سے کچھ ہی دور ایک آئرش شراب خانہ، میکڈونلڈز کی عمارت، بولنگ ایلی اور ایک میوزیم بھی ہے جو اڈے پر موجود فوجیوں اور کانٹریکٹر کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر افراد آج تک کبھی جیل میں داخل نہیں ہوئے۔
جب قانونی ٹیمز، صحافی اور خاندان اس اڈے پر جمع ہوئے تو اس وقت علی الصبح ایک آپریشن کیا جا رہا تھا جس کے تحت 11 یمنی قیدیوں کو عمان منتقل کیا جا رہا تھا۔
یوں اب اس اڈے پر ایک وقت میں 800 قیدی ہوا کرتے تھے، اب صرف 15 رہ گئے ہیں۔ یہ یہاں قید افراد کی تاریخ کی کم ترین تعداد ہے۔
جو لوگ یہاں باقی بچے ہیں ان میں سے صرف چھ پر فردِ جرم عائد ہوئی یا انھیں جنگی جرائم کی پاداش میں سزائیں دی گئی ہیں۔
جب جمعے کو عدالت برخاست کی گئی تو جج نے کہا کہ خالد شیخ محمد کی درخواست اب اگر منظور کی گئی تو یہ اگلی امریکی انتظامیہ کے تحت کی جائے گی۔
خالد شیخ محمد: امریکہ نائن الیون کے مبینہ منصوبہ ساز کو ’2976 افراد کے قتل سمیت دیگر سنگین جرائم‘ کا اعتراف کرنے سے کیوں روک رہا ہے؟خالد شیخ محمد: 9/11 کے منصوبہ ساز جنھوں نے ’ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے طیارے ٹکرانے کا منظر کراچی کے ایک انٹرنیٹ کیفے میں دیکھا‘جب 9/11 حملوں کا سہولت کار کراچی سے پکڑا گیاجب نائن الیون حملوں کا منصوبہ ساز ’میرے ہاتھ آتے آتے رہ گیا‘گیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ میں کیا ہوا تھا؟القاعدہ نے 20 سال قبل یورپ میں سب سے بڑے حملے کے لیے سپین کا انتخاب کیوں کیا تھا؟