’پسلی سے تخلیق‘: اسلام، مسیحیت اور یہودیت کی مقدس کتابوں میں حضرت حوا کے کردار کو کیسے بیان کیا گیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 20, 2025

Getty Images

مسیحی اور یہودی مقدس کتابوں یعنی ’انجیل‘ اور ’تورات‘ میں حضرت حوا کو ’باغِ بہشت‘ سے نکلنے کے واقعے کا مرکزی کردار مانا گیا ہے کیونکہ اِن دونوں مقدس کتابوں کے مطابق حضرت حوا نے ہی ایک ممنوع پھل کھانے کے عمل میں حضرت آدم کو شامل کیا تھا۔

لیکن مذہب اسلام کی مقدس کتاب قرآن کے مطابق ’ابلیس‘ یعنی شیطان نے ’دونوں کو رفتہ رفتہ مائل کیا اور پھر اُنھوں نے درخت کا پھل چکھا‘ (جس کے باعث) ’اُن کی شرم گاہیں اُن پر کُھل گئیں اور وہ اُس باغ کے پتوں سے اپنے جسم ڈھانپنے لگے‘، اللہ کے سکھانے پر ’مغفرت‘ بھی ’دونوں‘ نے چاہی، جو دونوں کو ملی اور حکمِ سفر بھی دونوں کو ملا۔

’باغِ بہشت‘ کی ترکیب شاعر علامہ محمد اقبال نے اپنی کتاب ’بالِ جبریل‘ کی ایک نظم میں اُس جگہ کے لیے استعمال کی ہے جہاں حضرت آدم اور حضرت حوا کو زمین پر بھیجنے سے پہلے ٹھہرایا گیا تھا۔ ’حکمِ سفر‘ کی ترکیب بھیاُسی مقام کو چھوڑنے کے حکم کے لیے اپنے اسشعر میں انھوں نے لکھی ہے:

باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں

کارِ جہاں دراز ہے، اب مِرا انتظار کر

قرآن کی سورۃ الاعراف میں اس واقعے کا بیان ہے۔ اس ضمن میں مذہبی عالم جاوید احمد غامدی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ جس درخت کے لیے یہاں لفظ ’الشَّجَرَۃ‘ استعمال ہوا ہے، سورہ طہٰ کی ایک آیت میں اِسے ’شَجَرَۃُ الْخُلْدِ‘ کہا گیا ہے۔

’اِس سے واضح ہے کہ لفظ الشَّجَرَۃ یہاں مجازی مفہوم میں ہے۔ شَجَرَۃُ الْخُلْدِ کے لفظ سے جو معنی ظاہر ہوتے ہیں اور اِس درخت کا پھل کھانے کے جو اثرات آگے بیان ہوئے ہیں، دونوں اِس بات کی طرف صاف اشارہ کرتے ہیں کہ اِس سے مراد وہی شجرہ تناسل ہے جس کا پھل کھانے کے باعث انسان اِس دنیا میں اپنے آپ کو باقی رکھے ہوئے ہے، لیکن آج بھی دنیا میں اُس کے لیے سب سے بڑی آزمائش اگر کوئی ہے تو یہی درخت ہے۔ یعنی جنسی تلذذ جس سے آدم و حوا ابھی واقف نہیں ہوئے تھے۔‘

اسی طرح انجیل اور تورات میں انسانوں کے وجود میں آنے اور زمین پر پہنچنے کا یہی مرکزی نکتہ ہے۔

تاہم اس حوالے سے ہونے والے بہت سے نئے مطالعات کا مقصد انسان کی تخلیق سے متعلق اس واقعے کی دوبارہ تشریح کرنا ہے تاکہ حضرت حوا کے کردار کے بارے میں مزید واضح تفہیم سامنے آ سکے۔

18ویں صدی میں برطانوی راہبہ جوانا ساؤتھ کوٹ نے حضرت حوا کے کردار کا ذکر کیا تھا۔

انھوں نے انسان کی ابتدا کی کہانی سے متعلق اپنی تشریح میں کہا تھا کہ ’(حضرت) حوا نے انسانیت تک علم پہنچایا، جس کی وجہ سے انھیں باغِ عدن سے نکال دیا گیا، جسے جنت سمجھا جاتا ہے۔‘

جاوید احمد غامدیکی تفسیر کے مطابق یہ غالباً اِسی دنیا کا کوئی باغ تھا جسے آدم و حوا کا مستقر (ٹھہرنے کی جگہ) قرار دیا گیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ اصل میں لفظ ’اِھْبِطُوْا‘ استعمال ہوا ہے۔ ’اِس میں اترو کا مفہوم وہی ہے جو سورہ بقرہ کی آیت 61 کے الفاظ ’اِھْبِطُوْا مِصْرًا‘ میں ہے، یعنی اے آدم و حوا اور ابلیس، تم سب اِس باغ سے نکل کر زمین میں اُتر جاؤ۔‘

برطانوی راہبہ جوانا ساؤتھ کوٹ کے مطابق ’اب حضرت حوا کو شیطان کو شکست دینے اور انسانیت کو آزاد کرنے والی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘

’حوا نے آدم کو نہیں ورغلایا‘Getty Imagesانجیل اور تورات کے مطابق حضرت حوا نے ممنوع پھل کھانے کے عمل میں حضرت آدم کو شامل کیا تھا مگر قرآن کے مطابق ابلیس نے دراصل ان دونوں کو اس کام پر مائل کیا تھا

امریکا میں غامدی سینٹر آف اسلامک لرننگ سے منسلک محقق نعیم احمد بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ قران کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم و حوا دونوں ہی کوشیطان نے ورغلایا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’بائبل (مسیحیوں کی مقدس کتاب) کے برخلاف قران میں کوئی ایسا اشارہ یا آیت نہیں ہے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ حضرت آدم حضرت حوا کی کسی بات کی وجہ سے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی پر آمادہ ہوئے ہوں۔ بائبل کےبعض محققین بھی یہ بات مانتے ہیں کہ حوا کا آدم کو بہکانے کا واقعہ طبع زاد ہے۔‘

اس واقعے سے متعلق اپنی تشریح میں راہبہ جوانا ساؤتھ کوٹ بھی یہی کہتی ہیں کہ ’تمام برائی کی اصل جڑ سانپ ہے، جو شیطان کی نمائندگی کرتا ہے، حضرت حوا کی نہیں۔‘

سنہ 1869 میں برطانوی مفکر ہیریئٹ لا نے باغ بہشت میں حوا کے کردار سے متعلق دوبارہ تشریح پر اٹھنے والے تنازعے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

ہیریئٹ لا نے حوا کو پدرانہ نظام کے خلاف حقوق نسواں کی ایک علامت کے طور پر بیان کیا جو جبر کے خلاف تھیں۔

ہیریئٹ لا کا کہنا ہے کہ ’حضرت حوا تاریخ کی پہلی حقوق نسواں کی علمبردار تھیں جو اس وقت خواتین کے خلاف رائج ماحول کے خلاف لڑیں۔ اس وجہ سے انجیل میں بیان ہونے والی حضرت حوا کو دنیا بھر کی بہت سی خواتین احترام کی نظر سے دیکھتی ہیں۔‘

حقوق نسواں کے بہت سے علمبردار، مقدس کتابوں کے مترجم، اور عصری ماہرین تعلیم کا استدلال ہے کہ دنیا کی پہلی خاتون حضرت حوا کو ایک نئے نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

برازیل میں پونٹیفیکل کیتھولک یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر ماریہ کلارا بنجمر کا کہنا ہے کہ ’آج حضرت حوا کو ایک نئے انداز میں دیکھا جاتا ہے۔‘

وہ حضرت حوا کو ’اِس زمین کی مانند‘ کہتی ہیں ’جس سے ہر قسم کی زندگی پیدا ہوئی۔‘

راہبہ اور نسائیت کی فلسفی یوون گیبہارٹ کا کہنا ہے کہ ’انسان کی ابتدا سے متعلق واقعات میں حضرت حوا کی تشریحات مختلف ہیں جن میں (سے بعض میں) انھیں کمزور اور اپنی خواہش پر قابو نہ پا کر اور ممنوعہ پھل کھا کر حکم الہٰی کی خلاف ورزی کرنے والی کہا گيا ہے۔‘

ماہر عمرانیات اور ماہر بشریات فابیولا روڈن نے سنہ 1995 میں فیڈرل یونیورسٹی آف ریو ڈی جنیرو میں پیش کیے گئے اپنے ماسٹرز کے مقالے ’دی فیمینزم آف ہولینس‘ میں دلیل دی ہے کہ ’حضرت حوا فیمنسٹ دینیات کے لیے اُتنی ہی اہم ہیں جتنی کہ حضرت مریم۔‘

روڈن نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ یہ اہمیت حضرت حوا کو اس عمل کے لیے ذمہ دار ٹھہرائے جانے کی وجہ سے ہے جو تمام خواتین پر عائد ہوتی ہے۔

تاہم روڈن تسلیم کرتے ہیں کہ ’آدم و حوا سے متعلق اساطیر‘ کی تشریح کو دوبارہ بیان کرنا ایک پیچیدہ اور چیلنجنگ کام ہے۔

فابیولا روڈن نے اپنی ماسٹرز کی ڈگری کے لیے حقوق نسواں کے فلسفی یوون گیبہارٹ کی تحریروں کا مطالعہ کیا ہے۔ یوون گیبہارٹ کا خیال ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ، حضرت حوا اور حضرت مریم کے درمیان ایک تضاد پیدا ہوا اور انھیں ’نسائیت کی دو علامتوں‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔

روڈن کہتے ہیں کہ ’اگرچہ حضرت حوا کو عام طور پر خطاکار عورت کی علامت کے طور پر اور حضرت مریم کو مقدس عورت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن گیبہارٹ نے ایک نیا نقطہ نظر پیش کیا جو ان روایتی جائزوں کو چیلنج کرتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم حضرت حوا کو نسائی طاقت کے نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ انسانوں کے لیے ’حضرت حوا کے اعمال کو پریشان کُن عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ وہ انسانی کمزوری، لالچ کا مقابلہ کرنے میں ناکامی، اور انسانوں کے پاس موجود پراسرار طاقت کو ظاہر کرتی ہیں۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ ’حضرت حوا کی کہانی سے وابستہ کمزوری اور اسرار تاریخ میں آنے والی تمام خواتین پر عائد کر دی جاتی ہے۔۔۔ ہر عورت کو حوا کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو انسانیت کے زوال، کمزوری، خواہش، لالچ اور گناہ کی وجہ ہوتی ہے۔‘

جبکہ پروفیسر ماریا کلارا بنجمر اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ’یہ حضرت حوا کی کہانی کا صرف ایک حصہ ہے۔ اُن کے کردار میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔‘

وہ اس بات پر بھی زور دیتی ہیں کہ ’بائبل بھی ان خیالات کے خلاف ہے۔‘

محقق نعیم احمد بلوچ کے مطابق ’قران مجید کے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس باغ میں آدم و حواایک عرصہ قیام پزیر رہے، وہ جنت نہیں تھا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جنت میں شیطان داخل نہیں ہو سکتا، یہ قران مجید کی واضح آیات ہیں۔‘

’قرآن ہی سے علم ہوتا ہے کہ انسان کا خلیفہ کے طور پر زمین میں تقرر ہی اللہ تعالیٰ کی منشا تھی۔حضرت آدم اور حضرت حوا کو اُن کی غلطی کی معافی کے بعد ہی زمین پر بھیجا گیا، نہ کہ سزا کے طور پر۔‘

Getty Images

تورات کی پہلی کتاب ’جنیسس‘ میں لکھا ہے کہ ’اُس شخص نے اپنی بیوی کو حوا کہا، کیونکہ وہ تمام زندوں کی ماں تھی۔‘

وہ اس لفظ کے لیے شواہد بھی فراہم کرتی ہیں کہ (عبرانی میں) ’حوا‘ کا مطلب ’زندہ رہنے والی‘ یا ’حیات کا سرچشمہ‘ ہے۔

گیبہارٹ کا کہنا ہے کہ ’بیسویں صدی کے بعد سے ہم نے اساطیروں کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان واقعات کا مقصد انسانی وجود کے بہت سے رازوں کی وضاحت کرنا ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’دوسرے لفظوں میں ہر شخص آدم اور حوا اور بہکانے والے سانپ کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ انسان کی آزادی کی تلاش اور اس کے لیے حدود کو توڑنے کی علامت بھی ہیں۔‘

’یعنی، ہم طاقت اور کمزوری، خوف اور چالاکی، مزاحمت اور خود کو سمجھنے کے لیے مسلسل تلاش کا مرکب ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’آج آدم اور حوا کی نئی تعریف کی جا رہی ہے، اس خیال کی بنیاد پر کہ ہم مختلف خصوصیات کا مجموعہ ہیں۔‘

ان کا استدلال ہے کہ انسانیت کو ’بغاوت اور بہادری سے بالاتر اپنے بارے میں ایک متفقہ تفہیم حاصل کرنے کے لیے دوہرے پن پر قابو پانا چاہیے۔‘

تاہم وہ متنبہ کرتی ہیں کہ ’حضرت حوا کو ہیروئن کے طور پر پیش کرنا یا حضرت آدم پر کمزوری کا اور دوسری طرح کا لیبل لگانا انتہائی سطحی ہے، اور یہ کہ یہ نقطہ نظر کی غلطی کا باعث ہے۔‘

خانہ کعبہ کا دو ہفتوں تک جاری رہنے والا محاصرہ اور سینکڑوں زائرین کی ہلاکت: 45 سال قبل عینی شاہدین نے مسجد الحرام میں کیا دیکھا؟اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟یاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟حضرت عیسیٰ کا کفن کہلایا جانے والا ’ٹیورن شراؤڈ‘ کیا ہے اور وہ ایک بار پھر خبروں میں کیوں ہے؟

ماہر الہیات ہولی مورس نے اپنی کتاب ’دی بائبل اینڈ فیمینزم‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اشارہ کیا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے، ہمیں حقیقی معنی سے پردہ اٹھانے کے لیے روایتی پدرانہ تعبیرات کو ختم کر کے کلیدی چیلنج سے نمٹنا چاہیے۔

قرون وسطیٰ کے اواخر میں اطالوی فلسفی اور شاعر کرسٹینا دی پیسانو (1363-1430) نے اس حقیقت پر گہرائی سے غور کیا کہ خدا کی تخلیق کی خوبی پر بحث کرتے وقت خواتین کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔

لہٰذا، انھوں نے حضرت حوا کی کہانی کو اپنے اس استدلال کے لیے استعمال کیا کہ عورتیں بھی اسی طرح ’کامل‘ ہیں جس طرح مرد ’کامل‘ ہیں۔ یہی نہیں انھوں نے مذہبی طور پر دلیل دی کہ خواتین کی توہین کرنا خدا کی توہین کے مترادف ہے۔

شاویز ڈیاز کہتی ہیں کہ قدیم مشرق وسطیٰ میں صرف بادشاہوں کو ’خدا کا پرتو‘ سمجھا جاتا تھا اور دوسرے انسانوں کو اُن کا خدمتگار سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح یہ نقطہ نظر ایک انقلابی وژن کو بیان کرتا ہے جو تمام انسانوں کو ’خدا کے پرتو‘ کے طور پر بیان کرتا ہے۔

آدم اور حوا کی تخلیقGetty Images18ویں صدی میں برطانوی راہبہ جوانا ساؤتھ کوٹ نے حضرت حوا کو ’شیطان کو شکست دینے اور انسانیت کو آزاد کرنے والی قرار دیا تھا۔‘

انسان کی تخلیق سے متعلق تورات کے دوسرے باب میں حضرت آدم کو پہلے تخلیق کردہ انسان کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

لفظی طور پر آدم نام کا مطلب ’زمین سے کشید‘ ہے اور یہ پورے بنی نوع انسان کی عکاسی کرتا ہے۔

محقق نعیم بلوچ کہتے ہیں کہ سورہ مریم کی آیت نمبر 67 سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب دنیا بن گئی اور زمین رہنے کے قابل ہو گئی تو اللہ نے اس میں انسان کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان کے مطابق ’اور سورہ آل عمران کی آیت 59 میں جو اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ آدم اور حوا کو مٹی سے پیدا کیا تو اس مٹی سے میں ’ڈسٹ‘ مراد نہیں لیتا بلکہ یہ ’ارتھلی مٹیریل‘ کے معنوں میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں لوگ اس سے واقف نہیں تھے کہ مٹی میں کیا کیا عناصر ہیں، تو مٹی سے مراد مٹی نہیں ہے تمام زمینی معدنیات وغیرہ اس میں شامل ہیں۔‘

پیسانو کہتی ہیں کہ ’آدم کو اکیلا دیکھ کر خدا نے اُن کے لیے ایک ساتھی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ خدا نے آدم پر نیند طاری کر دی اور اُن کی پسلی لی اور عورت کو تخلیق کیا۔‘

وہ یہ کہہ کر وضاحت کرتی ہیں کہ یہاں ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ بائبل کے بیشتر تراجم میں عبرانی لفظ ٹسیلا کا ترجمہ ’پسلی‘ کے طور پر کیا گیا ہے۔

’صدیوں سے اِس ترجمے نے اس بات کی وضاحت کی بنیاد فراہم کی اور اس کے تحت یہ سمجھا گیا کہ عورتوں میں مردوں کے مقابلے میں احساس کمتری زیادہ ہے۔‘

وہ اسی عبارت کا ترجمہ اس طرح کرنے کا مشورہ دیتی ہیں کہ ’پھر اس (خدا) نے اس (حضرت آدم) کا ایک پہلو لیا اور اسے گوشت سے بند کر دیا۔ جو حصہ اس نے مرد سے لیا تھا اس کو استعمال کرتے ہوئے خدا نے ایک عورت کی تخلیق کی۔‘

محقق نعیم بلوچ کہتے ہیں کہ قرآن میں حضرت حوا کا نام صراحتاً نہیں آیا لیکن اُن کا ذکر حضرت آدم کے ساتھ کیا گیا ہے۔ احادیث اور اسلامی تاریخ میں ان کا نام حوا بیان کیا گیا ہے۔

مذہبی عالم پیر ضیاالحق نقشبندی کے مطابق مشہور مفسر امام طبری اور حافظ ابن کثیر نے فرمان باری تعالیٰ (وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا) کا یہی معنی بیان کیا ہے کہ حواکو حضرت آدم علیہ السلامکی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ ایک حدیث میں حضرت حوا کی تخلیق کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: کہ ’عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور سب سے ٹیڑھی چیز اس کی اُوپر کی پسلی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ دو گے، اور اگر اسے اسی حال پر رہنے دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، پس عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔‘

نعیم بلوچ کے مطابق یہ حدیث بطور تمثیل بیان کرتی ہے کہ عورت کی فطرت نرمی اور لطافت پر مبنی ہے اور اس کے ساتھ محبت و حکمت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔

نقشبندی کہتے ہیں کہ ’اسلامی روایات کے مطابق، حضرت حوا نسلِ انسانی کی ماں ہیں، اور تمام انسان ان کی اور حضرت آدم کی اولاد ہیں۔ حضرت حوا کا ذکر احادیث اور اسلامی تاریخ میں عزت و احترام کے ساتھ کیا گیا ہے۔ وہ نسلِ انسانی کی ماں ہیں اور ان کی زندگی سے ہمیں شیطان کے فریب سے بچنے اور اللہ کی نافرمانی سے دور رہنے کا سبق ملتا ہے۔‘

حوا اور آدم ایک دوسرے کے ساتھی اور سکون کا باعثGetty Images

عبرانی متن کے مطابق عورت مرد کی ساتھی ہے۔ شاویز ڈیاز کہتی ہیں کہ ’عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک خدائی صفت ہے، انسان کے لیے خدا ہی مددگار ہے اور وہ وہ ہے جس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اور یہ کہ یہ عورتوں کا کام ہے۔‘

مترجم ایک اور جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں عبرانی لفظ ’kenekto‘ استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عورت کو مرد کے لیے موزوں ساتھی کے طور پر پیدا کیا گیا ہے یعنی اس سے ’مخالف، آگے، پیچھے، قریب‘ یعنی تمام مفاہیم لیے جا سکتے ہیں۔

وہ اصرار کرتی ہیں کہ ’یعنی عورت کو وہ ہونا چاہیے جو آپ کے سامنے آپ کے برابر ہو۔‘

انھوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ’عبرانی متن ہمیں کبھی عورتوں پر مردوں کی برتری، یا مردوں کے مقابلے عورتوں کی کمتری اور ماتحتی کی تصدیق کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘

محقق نعیم بلوچ سورۃ الرومکی آیت نمبر 21 کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اللہ کا ارشاد ہے: ’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم کو ان سے سکون حاصل ہو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی بیشک اس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں۔‘

قرون وسطی کی فلسفی کرسٹینا ڈی پیسانو کے مطابق یہ کہنا غلط ہے کہ مرد اس لیے اہم ہیں کیونکہ آدم کو حوا سے پہلے تخلیق کیا گیا تھا۔

اُن کا مزید کہنا ہے کہ خدا کی تخلیقی قوت مرد کی تخلیق کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد عورت کی تخلیق سے بڑھی ہے۔

شاویز ڈیاز زور دے کر کہتی ہیں کہ ’بائبل ایک کھلی کتاب ہے۔ بائبل اور اس کی دوسری عبارتیں اہم ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو زندگی کے معنی، اپنے اندر، خدا کے ساتھ، دوسروں کے ساتھ، اور کائنات کے ساتھ مردوں اور عورتوں کے کردار کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔‘

شاویز کہتی ہیں کہ ’حضرت حوا ایک قدیم کردار ہیں جس میں بہت سے پہلو اور مختلف معانی شامل ہیں اور ان کی کہانی کو سمجھنے کے لیے لوگوں کو زندگی کے بنیادی اور اہم سوالات کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دینا اور چیلنج کرنا ضروری ہے۔‘

حضرت عیسیٰ کا کفن کہلایا جانے والا ’ٹیورن شراؤڈ‘ کیا ہے اور وہ ایک بار پھر خبروں میں کیوں ہے؟حضرت علی نے اسلامی دنیا کا دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ کیوں منتقل کیا؟کیا رعمسیس ثانی ہی حضرت موسیٰ کا ہم عصر وہ فرعون تھا جس کا ذکر قرآن اور انجیل میں بھی آیا؟خانہ کعبہ کا دو ہفتوں تک جاری رہنے والا محاصرہ اور سینکڑوں زائرین کی ہلاکت: 45 سال قبل عینی شاہدین نے مسجد الحرام میں کیا دیکھا؟اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟یاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More