لاہور سینیما کے 100 سال: ’یہاں آرٹ کی سُست موت ہوئی ہے‘

اردو نیوز  |  Jan 29, 2025

ایک صدی قبل پاکستان کے شہر لاہور کا شمار برصغیر کے اُن بڑے شہروں میں ہوتا تھا جو ایشیائی معاشرے کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ ارتقائی منازل طے کروا رہے تھے۔ جب بیسویں صدی میں فلم کا زمانہ شروع ہوا تو بھی لاہور اس میں پیش پیش تھا اور 1924 میں لاہور میں پہلی بننے والی فلم ’ڈاٹرز آف ٹوڈے‘ ایک خاموش فلم تھی۔

برصغیر میں اس سے قبل ممبئی میں فلم انڈسٹری کا ظہور ہو چکا تھا اور 1913 میں پہلی فلم راجا ہرش چندرہ نے ہندوستان میں بنی پہلی فیچر فلم کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ تقریباً 10 سال بعد لاہور نے بھی ممبئی کی پیروی کی اور 1924 کے آخر میں پہلی فلم پیش کی اور یوں اس شہر میں سنیما انڈسٹری کی داغ بیل پڑی۔جب 2013 میں انڈیا کی فلم انڈسٹری نے اپنے 100 سال پورے ہونے کا جشن منایا تو اس جشن میں شامل ہونے کے لیے امیتابھ بچن سے لے کر سلمان خان تک سب موجود تھے۔تاہم جب لاہور کے سنیما کو 100 سال پورے ہوئے تو لوگوں کی یادداشت سے ہی تقریباً محو ہو چکا ہے کہ یہ شہر کسی دور میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کا گھر تھا، اور یہاں راج کپور، دیو آنند اور دلیپ کمار جیسے لیجنڈز نے بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔لوگوں کے ذہنوں میں کچھ یادیں تازہ کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آرٹس اینڈ ڈیزائن نے ایک تین روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا۔کانفرنس میں لاہور کے سنیما کو 100 سال پورے ہونے پر ایک ’یاد‘ کی طرح منایا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے ایک نمائش بھی لگائی ہے جس میں لاہور کے سنیما سے جُڑی یادوں کو علامتی طور پر دکھایا گیا۔

لاہور سنیما کے 100 سال پورے ہونے پر پنجاب یونیورسٹی نے تین روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا (فوٹو: اردو نیوز)

اس ’ہلچل‘ کا اہتمام کرنے والے پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر احمد بلال نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں اس کانفرنس کو منعقد کرنے کا خیال ایک دہائی قبل اس وقت آیا تھا جب انڈین فلم انڈسٹری نے اپنے 100 سال پورے ہونے پر جشن منایا۔‘’میں نے بڑی چھان پھٹک کے بعد لاہور کے اولین سنیما کی تحقیق کی تو پتا چلا کہ اس کا باقاعدہ آغاز 1924 کے آخر میں ہوا تھا۔ اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ دسمبر جنوری 2025 میں ہم یہ کانفرنس کروائیں گے اور اس کی تیاری میں بھی ہمیں تین سال لگ گئے۔‘ڈاکٹر بلال احمد سمجھتے ہیں کہ ’تقسیم سے پہلے لاہور برصغیر کا دوسرا یا تیسرا بڑا شہر تھا جہاں فلم بن رہی تھی اور اس کی بڑی خوب صورت تاریخ ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ملک میں سنیما کی سُست موت ہوئی ہے جس میں 30 سے 40 سال لگے ہیں۔‘’بنیادی طور پر سنیما نیچے جاتا ہے تو سنیما نہیں معاشرہ تنزلی کی طرف جاتا ہے۔ کسی بھی آرٹ کو پنپنے کے لیے آزادی کی ضرورت ہوتی ہے جب وہ آزادی نہیں ہوتی تو آرٹ کی کوئی بھی شکل نہیں چل سکتی۔‘

یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے نمائش میں لاہور کے سنیما سے جُڑی یادوں کو علامتی طور پر دکھایا (فوٹو: اردو نیوز)

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’لاہور سنیما کو پہلا دھچکا تو تقسیم سے لگا کیونکہ فلم کو شائقین کی ضرورت ہوتی ہے اور تقسیم سے اردو کے شائقین بھی تقسیم ہوئے اور اس کے بعد رہی سہی کسر 1971 کی جنگ کے بعد نکل گئی جس کے بعد مجموعی طور پر آرٹ کو زوال آیا۔‘کانفرنس نما اس نمائش میں فلم انڈسٹری سے بھی کچھ افراد کو بلایا گیا تھا اور دیواروں پر لاہور کی فلم انڈسٹری میں اب تک بنائی گئی فلموں کے پوسٹرز لگا کر ان یادوں کو تازہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More