’زبردستی ویڈیو بیان ریکارڈ کرایا گیا‘: خضدار سے اغوا ہونے والی عاصمہ بی بی کو پولیس نے کیسے بازیاب کروایا؟

بی بی سی اردو  |  Feb 10, 2025

Reutersفائل فوٹو

بلوچستان کے ضلع خضدار سے اغوا ہونے والی خاتون عاصمہ بی بی جب بازیابی کے بعد ان کے اغوا کے خلاف جاری دھرنے کے شرکا کے پاس پہنچیں تو رقت طاری ہونے کے باعث وہ براہوی زبان میں بمشکل پانچ منٹ ہی بول پائیں۔

انھوں نے تین روز تک خضدار شہر میں کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پر اپنی بازیابی کے لیے دینے جانے والے دھرنے کے شرکا کو بتایا کہ کیسے انھیں 'گھر سے گھسیٹ کر نکالنے کے بعد ایک گاڑی کی ڈگی میں پھینک' کر اغوا کیا گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ 'اغوا کے تین دن انتہائی اذیت ناک تھے۔ ان تین دنوں میں نہ کچھ کھایا اور نہ سو سکی۔'

پانچ اور چھ فروری کی درمیانی شب مسلح افراد نے عاصمہ بی بی کو خضدار میں ان کے گھر سے اغوا کیا تھا اور اس کا مقدمہ ان کے بھائی حفیظ اللہ کی مدعیت میں خضدار ہی سے تعلق رکھنے والے ظہور جمال زئی اور دیگر افراد کے خلاف درج کیا گیا۔

اغوا کے اس واقعے پر بلوچستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور پھر اس کے خلاف دو اہم شاہراہوں کو بطور احتجاج بند کیا گیا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خاتون کو خضدار کے علاقے زہری سے بازیاب کروایا گیا تاہم ابھی تک مرکزی ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

خضدار پولیس کے سربراہ جاوید زہری نے بی بی سی کو بتایا کہ خاتون کے اغوا کا مرکزی ملزم تاحال گرفتار نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم سمیت دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ 'خاتون کی بازیابی پولیس کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھی اور جس علاقے میں خاتون کو رکھا گیاوہاں تک پہنچنے میں اہم کردار جدید ٹیکنالوجی کا تھا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس کا تفتیش کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں کی جانب سے تکنیکی معاونت کے باعث خاتون کی جلد بازیابی ممکن ہوئی۔'

ادھر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ 'واقعے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات جاری ہیں اور متاثرہ خاندان کو انصاف ضرور ملے گا۔'

عاصمہ بی بی کو کس طرح اغوا کیا گیا اور تین دن کے دوران ان پر کیا بیتی، وہ ان کی زبانی جاننے سے پہلے ذکر کے عاصمہ بی بی کون ہیں؟

عاصمہ بی بی کون ہیں؟

عاصمہ بی بی کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے ہے۔ ان کے خاندان کا آبائی علاقہ انجیرہ ہے لیکن وہ دس سال پہلے نقل مکانی کرکے خضدار شہر میں آباد ہوگئے تھے۔

عاصمہ بی بی کے بڑے بھائی ڈاکٹر عطااللہ جتک نے آبائی علاقے سے نقل مکانی کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ 'ہمارے خاندان کے متعدد افراد کو قتل کیا گیا جس کے باعث انجیرہ میں اپنی اراضی اور دیگر اثاثوں کو چھوڑ کر خاندان کے چند افراد خضدار جبکہ بعض صوبے کے دوسرے شہروں میں جا بسے۔'

انھوں نے بتایا کہ 'ان کی بہن عاصمہ کا اغوا ان کے ساتھ پہلی ٹریجیڈی نہیں تھی بلکہ اس سے قبل سنہ 2013 میں ان کے منگیتر کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔'

ان کے مطابق 'عاصمہ کے منگیتر ان کے کزن تھے اور وہ یونیورسٹی آف انجنیئرنگ خضدار میں سول انجنیئرنگ کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے۔'

انھوں نے بتایا کہ 'علاقے سے نقل مکانی کے باوجود بھی ہمیں نہیں چھوڑا گیا اور بلوچی قبائلی روایات سمیت ہر قسم کی روایات کی پامالی کرتے ہوئے میری بہن کو اغوا کر لیا گیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ ان کا گھر خضدار میں کسی عام جگہ پر نہیں بلکہ پولیس لائن کے ساتھ واقع ہے جو شہر کا محفوظ علاقہ ہے۔ 'وہاں 14کے قریب مسلح افراد آسانی کے ساتھ آئے اور کسی رکاوٹ کے بغیر بہن کو اغوا کر کے لے گئے۔‘

’گاڑی کی ڈگی میں پھینکے جانے کے بعد ہوش و حواس کھو بیٹھی‘

اغوا کے بعد عاصمہ بی بی کے خاندان کے تمام افراد بلوچستان کی سب سے اہم اور مصروف ترین شاہراہ کوئٹہ کراچی ہائی وے پر پہنچنے جہاں دھرنا دے کر سڑک کو بند کر دیا گیا۔

ان کے اغوا کے تیسرے روز قلات، سوراب، وڈھ کے علاقے میں شاہراہوں کو بند کرنے کے علاوہ کوئٹہ اور جیکب آباد کے درمیان بھی شاہراہ کو لوگوں نے بند کر دیا۔

تاہم پیر کے دن عاصمہ بی بی کو پولیس نے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے ان کے خاندان کے حوالے کیا۔

اتوار کی شب رات 11 بجے کے قریب عاصمہ بی بی کو دھرنے کے مقام پر لایا گیا جہاں انھوں نے شرکا کو پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتایا۔

عاصمہ بی بی نے اپنے اغوا کے واقعے کے متعلق بات کرتے بتایا کہ رات کو دو بجے کے قریب جب مسلح افراد ان کے گھر میں داخل ہوئے تو ان کے گھر میں موجود تمام لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

ان کے مطابق 'منھ پر پٹی باندھنے کے علاوہ میرے دونوں ہاتھوں کو بھی باندھا گیا۔ اس کے بعد مجھے ایک گاڑی کی ڈگی میں پھینک کر اس کو بند کیا گیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے بعد میں اپنی ہوش و حواس کھو بیٹھی تھی جس کے باعث مجھے پتا نہیں چلا کہ وہ مجھے کہاں لے گئے تاہم جہاں رکے تو وہاں مجھے ایک فیملی کے گھر میں رکھا گیا۔'

انھوں نے بتایا کہ 'شاید اس فیملی کے مردوں کو بھی کوئی خوف تھا اس لیے جب مجھے ان کے گھر پہنچایا گیا تو اغوا کاروں کی طرح وہ بھی وہاں سے چلے گئے تھے اور اس گھر میں صرف خواتین موجود تھیں۔‘

’قتل کی دھمکی دے کر زبردستی ویڈیو بیان ریکارڈ کرایا گیا‘

عاصمہ کی بازیابی سے قبل سینیچر کی صبح ان کے اغوا کے مرکزی ملزم ظہور جمال زئی کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ان کا ایک ویڈیو بیان سامنے آیا تھا۔

اس ویڈیو میں ان کی جانب سے یہ بیان دیا گیا تھا کہ ظہور جمال زئی سے ان کا رشتہ طے ہوا تھا لیکن ان کے خاندان کے لوگوں نے شادی سے انکار کیا جس کے بعد وہ انجیرہ سے خضدار شہر منتقل ہو گئے۔

اس بیان میں انھوں نے کہا کہ 'ظہور جمال زئی نے ان کو اغوا نہیں کیا بلکہ ان کی رضامندی سے وہ ان کے گھر آ کر ان کو لے گیا ہے کیونکہ ان کے خاندان کے لوگ شادی سے انکار کر رہے تھے۔'

تاہم بازیابی کے بعد عاصمہ بی بی نے دھرنے کے شرکا کو بتایا کہ انھوں نے یہ بیان 'مجبوری میں دیا کیونکہ ظہور جمال زئی اور دیگر افراد ان کے پاس آئے اور ویڈیو بیان مجھ سے بندوق کی نوک پر ریکارڈ کرایا، اس میں میری رضامندی شامل نہیں تھی۔ آپ لوگ خود بھی اس ویڈیو کو دیکھ سکتے ہیں کہ میں مجبور تھی۔‘

ٹک ٹاک پر ’قابل اعتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی قتل: ’حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں‘قلات میں بی ایل اے کا حملہ: منگیچر میں جمعے کی شب کیا ہواجڑانوالہ میں نوبیاہتا دلہن کی ہلاکت: ’دس سالہ بھانجے کے ہاتھ سے گولی چلی اور الزام ٹک ٹاک پر لگا دیا گیا‘چار سالہ زہرہ کا ریپ اور قتل: ملزم کی گرفتاری، ’ہتھکڑی سمیت فرار‘ اور پھر ’پراسرار ہلاکت‘’تین دن اور تین راتیں انتہائی اذیت ناک تھیں‘

عاصمہ بی بی نے بتایا کہ 'اغوا کے بعد تین دن اور راتیں انتہائی اذیت ناک تھیں۔ نہ کچھ کھایا اور نہ پیا بلکہ ان تین راتوں کے دوران میں ایک لمحے کے لیے سو بھی نہیں سکی۔'

انھوں نے بتایا کہ اغوا کرنے والوں نے یہ دھمکی دی کہ عدالت میں پیش ہونے پر بھی 'آپ کو یہی بیان دینا ہوگا کہ میں ظہور جمال زئی کے ساتھ رشتہ (شادی) کرنا چاہتی ہوں۔'

اس سوال پر کہ کیا ویڈیو بیان کے مطابق پہلے عاصمہ کا رشتہ ظہور جمال زئی سے طے ہوا تھا تو ڈاکٹر عطااللہ جتک نے بتایا کہ 'ہم نے کبھی بھی اپنی بہن کا رشتہ ظہور جمال زئی سے طے نہیں کیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ ہماری بہن بازیاب ہو گئی لیکن اصل ملزم ظہور جمال زئی اور اغوا میں ملوث دوسرے افراد ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔'

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور حقوق انسانی کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ اور سیاسی جماعتوں نے عاصمہ بی بی کے اغوا کے تمام ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ 'تمام ملزمان اور سہولت کاروں کی گرفتاری اور ان کو قانون کے کٹہرے میں لانے سے ہی ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔‘

’تکنیکی معاونت سے ملزمان کے ٹھکانے کا پتا لگایا گیا‘

سینیچر کی سہہ پہر بازیابی کے بعد عاصمہ بی بی کو شام کے وقت خضدار شہر میں میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر دشتی کے ہمراہ اس موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی آئی جی پولیس قلات رینج سہیل خالد نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس واقعے کا نوٹس لیا تھا اور یہ ہدایت کی تھی کہ خاتون کی فوری بازیابی اور ملزمان کی گرفتاری کو یقینی بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس واقعے کے حوالے سے جن ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے وہ بدنام زمانہ ملزمان ہیں جو واقعہ کے بعد روپوش ہو چکے ہیں۔'

ڈی سی کے مطابق 'وہ پہلے بھی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔ ان کو طریقہ کار پتہ تھا۔ اس لیے وقوعہ کے بعد انھوں نے اپنا موبائل فون بند کر دیا تھا۔ اس لیے ہم نے ان کا پتہ لگانے کے لیے تکنیکی طریقے سے کام شروع کیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'جب خفیہ اداروں نے ہمیں بھرپور معاونت فراہم کی تو پھر ہم نے شروع میں 15 لوگوں کو گرفتار کرکے ان سے تفتیش کے علاوہ جیو فینسنگ شروع کی۔'

انھوں نے بتایا کہ 'جب ہم نے مشکوک لوگوں کا فون ٹیپ کرنا شروع کیا تو اس سے یہ معلومات ملیں کہ ملزمان زہری کے علاقے میں موجود ہیں اور وہ وہاں سے خاتون کو کسی وقت کہیں اور منتقل کریں گے۔'

ان کا کہنا تھا کہ زہری کے علاقے میں ایس پی خضدار کی سربراہی میں پولیس کی ٹیم نے وہاں چھاپہ مار کر خاتون کو بحفاظت بازیاب کر لیا تاہم وہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جس کے باعث ملزمان پولیس کی گاڑیوں کو دور سے دیکھ کر پہلے ہی فرار ہو گئے۔

قلات میں بی ایل اے کا حملہ: منگیچر میں جمعے کی شب کیا ہوا’پیروں کے نیچے سونا اور چاندی لیکن یہاں سڑک ہے نہ خوراک‘: بلوچ یکجہتی کمیٹی نے احتجاج کے لیے دالبندین کا انتخاب کیوں کیا؟سماجی کارکن مسرت عزیز کا قتل: ’بھائی نے سوشل میڈیا پر انٹرویو دینے سے منع کیا، مسرت نے کہا یہ ممکن نہیں‘کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش حملہ کرنے والا ’رفیق‘ کیا لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا؟خوف کے سائے میں پنجاب سے بلوچستان کا سفر: ’اگر میری بس کو بھی اسی طرح روک لیا گیا تو کیا ہو گا‘کوئٹہ ٹرین سٹیشن دھماکے میں ہلاک ہونے والے ایاز مسیح جو کبھی ’بابر اعظم جیسا کرکٹر بننا چاہتے تھے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More