Getty Images
یہ سردیوں کی ایک شام تھی اور میں کولکتہ کے مضافات میں بنگلہ دیش کے ایک سابق رکن پارلیمان سے بات کرنے کے لیے ان کی گاڑی میں جا رہا تھا۔
یہ سفر آدھے گھنٹے سے کچھ زیادہ کا تھا لیکن اس دوران ان کے موبائل پر کم از کم 10 کالز آئیں۔ ان میں سے زیادہ تر بنگلہ دیش میں ان کے حلقے سے عوامی لیگ کے کارکنوں کی تھیں۔
رکن اسمبلی نے اپنا نام بتانے سے منع کیا ہے۔ سفر کے دوران کار میں انھوں نے کچھ لوگوں سے ویڈیو کال پر بھی بات کی۔
عوامی لیگ کی اعلیٰ قیادت نے فروری سے بنگلہ دیش بھر میں پارٹی کے مختلف پروگراموں کا اعلان کیا ہے۔ وہ سابق رکن اسمبلی اپنی پارٹی کے کارکنوں کو ہدایات دے رہے تھے کہ وہ اپنے علاقے میں ان پروگراموں کو کیسے منعقد کریں۔
بنگلہ دیش میں گذشتہ برس 5 اگست کو اقتدار کی تبدیلی میں عوامی لیگ کی حکومت گرنے کے بعد پارٹی کے کئی سینیئر اور دیگر رہنما خفیہ طور پر انڈیا فرار ہونے میں کامیاب ہوئے لیکن یہ لوگ اسے عارضی قیام کے طور پر دیکھتے ہیں۔
دوسری جانب پارٹی کی صدر شیخ حسینہ بھی انڈیا میں مقیم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی لیگ کے رہنما انڈیا میں رہ کر اپنی پارٹی کے پروگرام کر رہے ہیں۔
پارٹی کے کچھ رہنماؤں نے کہا کہ وہ بنگلہ دیش میں پارٹی کے پروگراموں کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے وہاں مقیم عوامی لیگ کے کارکنوں کے حوصلے بلند کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔
اس وقت انڈیا میں عوامی لیگ کے کتنے رہنما رہ رہے ہیں؟ وہ ایک دوسرے سے کیسے رابطے میں رہتے ہیں؟ بی بی سی بنگلہ نے عوامی لیگ کے کچھ رہنماؤں سے اس قسم کے سوالات کیے اور ان کے جواب جاننا چاہے۔
عوامی لیگ کے رہنما کہاں کہاں ہیں؟
یہ ایک کھلا راز ہے کہ گذشتہ برس اقتدار کی تبدیلی کے بعد عوامی لیگ کے بیشتر رہنما انڈیا فرار ہو گئے تھے لیکن کوئی بھی اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔
پارٹی کے جوائنٹ سیکریٹری اے ایف ایم بہاؤالدین نسیم کا کہنا ہے کہ ’اس کے لیے ہجرت کا لفظ استعمال کرنا درست نہیں۔ ہم سٹریٹجک وجوہات کی بنا پر وقتی طور پر چھپے ہوئے ہیں۔ درحقیقت اس شیطانی قوت (موجودہ حکمران جماعت) کا واحد مقصد عوامی لیگ، آزاد سوچ اور مذہبی اقلیتوں پر یقین رکھنے والے لوگوں پر حملہ کرنا اور انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے۔‘
انڈیا میں رہنے والے عوامی لیگ کے رہنماؤں کا ایک بڑا حصہ اس وقت مغربی بنگال میں ہے۔ بی بی سی بنگلہ کو معلوم ہوا ہے کہ کولکتہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے علاوہ کئی رہنما شمالی بنگال، دہلی اور تریپورہ میں مختلف مقامات پر کرائے کے مکانوں میں رہ رہے ہیں۔ عوامی لیگ کے بعض رہنما یورپ کے مختلف شہروں میں بھی مقیم ہیں۔
ان میں سے کچھ لوگ 5 اگست 2024 کو شیخ حسینہ کے بنگلہ دیش چھوڑنے کے فوراً بعد انڈیا گئے جبکہ کچھ لوگ چند ماہ بعد یہاں آئے تھے۔
بی بی سی بنگلہ کو مختلف ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ عوامی لیگ کے کم از کم 200 اہم رہنما مغربی بنگال میں مقیم ہیں۔ ان میں عوامی لیگ اور حسینہ حکومت کے سابق اعلیٰ عہدیداروں اور وزرا کے علاوہ تقریباً 70 ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہیں۔
باقیوں میں ریٹائرڈ فوجی افسران، اعلیٰ پولیس افسران، عوامی لیگ کے کئی ضلعی صدور، سیکرٹریز، ضلعی کونسل کے صدور، میئرز اور عوامی لیگ سے وابستہ تنظیموں کے سرکردہ رہنما شامل ہیں۔
ایک رہنما نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’ان میں زیادہ تر مرد ہیں۔ یہاں رہنے والے لوگوں میں خواتین لیڈر یا کارکنان بہت کم ہیں۔ یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے خاندان انڈیا میں نہیں۔‘
معلوم ہوا ہے کہ مغربی بنگال میں پہلی صف کے لیڈروں اور سرکاری عہدیداروں کے علاوہ عوامی لیگ کے ذیلی ضلعی سطح کے صدور، سکریٹری اور جونیئر لیڈروں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔
Getty Imagesیہ لوگ بنگلہ دیش سے انڈیا کیسے پہنچے؟
عوامی لیگ کے کچھ رہنماؤں نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد وہ بنگلہ دیش سے انڈیا کیسے پہنچے لیکن سرکاری طور پر وہ یہاں آنے کے طریقے کے بارے میں اپنا منہ نہیں کھولنا چاہتے۔
بی بی سی کو سکیورٹی اداروں اور انٹیلیجنس ذرائع سے پہلے ہی معلوم ہوا تھا کہ 5 اگست کے بعد اگلے چند دن میں عوامی لیگ کے کئی رہنما میگھالیہ، تریپورہ اور مغربی بنگال کے شمالی علاقوں یعنی شمالی بنگال سے سرحد عبور کرکے انڈیا پہنچ چکے ہیں۔
جنوبی بنگال کی سرحدی چوکیوں جیسے پیٹرا پول اور بیناپول سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں پوسٹیں بہت مقبول ہیں اور وہاں پر لوگوں کی زیادہ نقل و حرکت رہتی ہے۔ ایسی صورت حال میں وہاں سے سرحد پار کرنے کی صورت میں شناخت ہونے کا زیادہ خطرہ تھا۔
عوامی لیگ کے رہنما اور سابق ایم پی پنکج ناتھ نے کہا کہ ’میں 5 اگست کے بعد روپوش ہو گیا تھا۔ میں نے اپنا فون بھی بند کر دیا تھا اور پھر اکتوبر میں ملک (بنگلہ دیش) چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘
’میں یہ نہیں بتا سکتا کہ میں کس بارڈر سے نکلا لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے مجھے پہاڑوں اور جنگلوں میں ایک انتہائی دشوار گزار اور تکلیف دہ راستے سے گزرنا پڑا۔ میں اس وقت جہاں ہوں وہاں پہنچنے کے لیے بھی مجھے کئی شہروں سے گزرنا پڑا۔‘
عوامی لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری بہاؤالدین نسیم 10 اگست کو ملک چھوڑ گئے تھے لیکن اس سے پہلے وہ روپوش و گئے تھے۔
انڈیا کے پانچ مربع کلومیٹر سرحدی علاقے پر ’بنگلہ دیشی قبضے‘ کی حقیقت کیا ہے؟قونصل خانے پر حملہ، دلی کی ’سفارتی شرمندگی‘ اور ’ڈھاکہ کا غصہ‘: بنگلہ دیش اور انڈیا کا نیا تنازع کیا ہے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے فوجی تعاون پر انڈیا کو تشویش کیوں؟بنگلہ دیش کا شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ: کیا یہ دلی اور ڈھاکہ کے درمیان نئے تنازع کی شروعات ہیں؟
بہاؤالدین کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش کے کسی بھی علاقے سے انڈیا پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ آٹھ سے نو گھنٹے لگتے ہیں لیکن مجھے دو دن لگے۔ 10 اگست کو اپنے خفیہ ٹھکانے سے نکلنے کے بعد میں نے 11 تاریخ کو سرحد پار کی۔‘
’میں انتہائی خفیہ طریقے سے سرحدی علاقے میں پہنچا تھا لیکن وہاں شناخت ہونے کے خوف کی وجہ سے مجھے دوسرے سرحدی علاقے میں جانا پڑا۔ اس کے ساتھ یہ خدشہ بھی تھا کہ انڈین بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے سپاہی مجھے پہچان نہ لیں اور خاردار تاروں کی باڑ کو عبور کرتے ہوئے مجھے گولی لگ سکتی ہے۔‘
اسی طرح عوامی لیگ کے کئی دیگر رہنما بھی انڈیا یا کسی اور ملک میں چھپ کر رہ رہے ہیں۔
سابق ایم پی پنکج ناتھ کا کہنا ہے کہ ’میری والدہ کا گذشتہ دسمبر میں انتقال ہو گیا۔ مجھے زندگی بھر اس بات کا افسوس رہے گا کہ میں بنگلہ دیش جا کر اپنی والدہ کی آخری رسومات میں شامل نہ ہو سکا۔‘
Getty Images(فائل فوٹو)عوامی لیگ کے رہنما انڈیا میں کیوں ہیں؟
بنگلہ دیش میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کی بہن شیخ ریحانہ گذشتہ 5 اگست سے انڈیا میں ہیں۔ بنگلہ دیش کی فضائیہ کا ایک طیارہ انھیں دہلی سے متصل ہندن ہوائی اڈے پر لایا تھا۔
شیخ حسینہ کی حکومت پر ہمیشہ یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ انڈیا کے بہت قریب رہی۔ اس وجہ سے ان کا بنگلہ دیش چھوڑ کر انڈیا پہنچنا کسی حد تک فطری تھا لیکن اس وقت شاید بنگلہ دیش کے زیادہ تر لوگوں کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک جانے کی بجائے دہلی میں ہی رہیں گی۔
عوامی لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری بہاؤالدین نسیم کا کہنا ہے کہ ’کوئی دوسرا راستہ نہ ہونے کے باعث شیخ حسینہ مجبوری میں انڈیا گئیں۔ ان کے خلاف سازش کرنے والی قوتوں نے انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ اس کے علاوہ انڈیا ہمارا قریبی پڑوسی اور دوست ملک ہے، ہمارے ملک سے بہت کم وقت میں یہاں پہنچا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بنگلہ دیش سے انڈیا میں پناہ لینے آنا کوئی نئی بات نہیں۔ جنگ آزادی کے دوران بنگلہ دیش کے لاکھوں لوگوں نے یہاں آ کر پناہ لی تھی۔ انڈین حکومت نے طویل عرصے تک ان کے قیام، رہنے سہنے اور علاج کے انتظامات کیے تھے، اس لیے سیاسی وجوہات کی وجہ سے لوگوں کے ملک چھوڑنے کی صورت میں، انڈیا فطری طور پر پہلا انتخاب ہے۔ یہ کسی بھی فریق پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔‘
قائدین اور کارکنوں کو کیسے جوڑا
انڈیا سمیت دیگر ممالک میں روپوش رہنے والے رہنما واٹس ایپ اور ٹیلی گرام جیسے ڈیجیٹل ذرائع سے ایک دوسرے اور پارٹی کارکنوں سے رابطے میں ہیں۔
لیکن کولکتہ یا اس کے آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے رہنما باقاعدگی سے ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں۔ روپوش ہونے والے کئی لیڈروں نے بتایا کہ ملک سے باہر رہنے والے لیڈر بنگلہ دیش میں رہنے والے کارکنوں سے ڈیجیٹل رابطے میں ہیں۔
بنگلہ دیش کے سابق وزیر خارجہ حسن محمود نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’موجودہ ڈیجیٹل دور میں یہ اہم نہیں کہ کون کہاں رہتا ہے۔ ڈیجیٹل کمیونیکیشن اتنی اچھی ہو گئی ہے کہ ایک ہی وقت میں دنیا بھر میں پھیلے لوگوں سے بات کی جا سکتی ہے۔‘
معلوم ہوا ہے کہ محمود اس وقت بیلجیم میں مقیم ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ بنگلہ دیش سے وہاں کیسے پہنچے۔
عوامی لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری بہاؤالدین نسیم نے کہا کہ ’صرف ہماری پارٹی کے لوگ ہی نہیں، آزاد سوچ اور ترقی پسند نظریات کے حامل بہت سے لوگوں کو بھی جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے۔‘
’ہم نے اب یہ جاننے کی کوشش کرنا بھی چھوڑ دی ہے کہ ہمارے نام پر کتنے جھوٹے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ سرکردہ لیڈروں کو چھوڑ دیں۔ اس غیر قانونی اور غیر آئینی حکومت نے بنگلہ دیش میں رہنے والے لوگوں کا عوامی لیگ کے کارکن کے طور پر پہچان کا حق بھی چھین لیا۔‘
Getty Images
بی بی سی بنگلہ کی عوامی لیگ کے روپوش ہونے والے رہنماؤں کے ساتھ گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ فیس بک، واٹس ایپ اور ٹیلی گرام پر مختلف سطحوں پر رابطے کے لیے کئی گروپس بنائے گئے ہیں۔
ان میں ذیلی، ضلعی اور قومی سطح پر ایسوسی ایٹ تنظیموں کے گروپس کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کے گروپ بھی شامل ہیں جن کا عوامی لیگ سے تعلق نہیں۔ بنگلہ دیش میں رہنے والے رہنما اور کارکن اسی گروپ میں پوسٹ کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ روپوش ہونے والے رہنماؤں کے لیے گائیڈ لائنز بھی اسی گروپ میں بھیجی جاتی ہیں۔
ان تمام گروپس میں وائس چیٹ کے ذریعے بات چیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بی بی سی بنگلہ کو معلوم ہوا ہے کہ بنگلہ دیش کے مختلف علاقوں میں عوامی لیگ کے حالیہ اعلان کردہ پروگراموں سے متعلق ویڈیوز اور تصاویر بھی ان گروپس میں باقاعدگی سے شیئر کی جاتی ہیں۔
یہاں روپوش رہنے والے کچھ رہنماؤں نے کہا کہ عوامی لیگ کے رہنماؤں پر حملوں یا ان کی گرفتاریوں سے متعلق معلومات بھی ایسے گروپس میں شیئر کی جاتی ہیں۔
انڈیا میں روپوش سابق ایم پی پنکج ناتھ نے کہا کہ ’ہم یقینی طور پر چھپے ہوئے ہیں اور ڈیجیٹل ذرائع سے اپنے کارکنوں سے رابطے میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ہم فیس بک پر اپنے پروگرام کا اعلان کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے غیر قانونی حکومت کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے ہیں۔‘
شیخ حسینہ سے رابطہ کیسے کرتے ہیں؟
عوامی لیگ کے تمام رہنماؤں، جن سے بی بی سی بنگلہ نے بات کی، انھوں نے کہا کہ وہ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ حسینہ ان میں سے کسی سے ملتی بھی ہیں یا نہیں۔
ان رہنماؤں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حسینہ بنگلہ دیش کے تمام رہنماؤں اور عام کارکنوں سے باقاعدگی سے رابطے میں ہیں۔
ایک رہنما نے کہا کہ جب شیخ حسینہ کو واٹس ایپ کے ذریعے پیغام بھیجا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ اس کا جواب دینے کے لیے وقت نکالتی ہیں۔ وہ مختلف واٹس ایپ گروپس میں شامل ہیں اور ضروری ہدایات یا تبصرے دیتی ہیں۔
لیکن شیخ حسینہ نے اب تک جتنی بھی تقریریں کی ہیں وہ صرف آڈیو کلپس کی شکل میں ہیں۔ گذشتہ سال 5 اگست کے بعد سے ان کی کوئی ویڈیو منظر عام پر نہیں آئی۔
بنگلہ دیش کا شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ: کیا یہ دلی اور ڈھاکہ کے درمیان نئے تنازع کی شروعات ہیں؟’یہ مندر نہیں، عوامی لیگ کا دفتر ہے‘: بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملوں کی افواہیں کون پھیلا رہا ہے؟انڈیا کے پانچ مربع کلومیٹر سرحدی علاقے پر ’بنگلہ دیشی قبضے‘ کی حقیقت کیا ہے؟پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے فوجی تعاون پر انڈیا کو تشویش کیوں؟قونصل خانے پر حملہ، دلی کی ’سفارتی شرمندگی‘ اور ’ڈھاکہ کا غصہ‘: بنگلہ دیش اور انڈیا کا نیا تنازع کیا ہے ’شیخ حسینہ کو سیاسی بیان بازی سے روکیں‘: بنگلہ دیش کی نئی سفارتی پالیسی جو انڈیا کو پریشان کر رہی ہے