تھیلیسیمیا میجر کی شکار ماں جس نے بچے کو جنم دینے کے لیے 36 بار خون لگوایا

بی بی سی اردو  |  Feb 16, 2025

Pavan Jaishwal

انڈیا کے شہر احمد آباد سے تعلق رکھنے والی کنجل لاٹھی کہتی ہیں کہ 'پہلی بار جب میں نے اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھا تو میں حمل کا سارا درد بھول گئی۔ میں بھی روئی اور میرے شوہر بھی۔'

کنجل کے لیے شادی اور زچگی ہمیشہ ایک خواب تھا کیونکہ انھیں تھیلیسیمیا میجر کی بیماری ہے۔

انھیں ہر 15 دن میں خون لگانے کی ضرورت ہوتی ہے اور انھیں غذا اور ادویات کی سخت روٹین پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ ایسی طبی حالت میں حمل ٹھہرنا اور اسے نو ماہ کی مدت تک لے جانا ایک چیلنج تھا۔

کنجل کہتی ہیں کہ ’اس میں ماں اور بچے دونوں کے لیے خطرات تھے۔ لیکن میں نے اپنے ماں بننے کے خواب کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔'

کنجل کو حمل کے دوران 36 بار خون لگا لیکن آخر کار 2019 میں 12 جولائی کو انھوں نے ایک صحت مند بیٹی کو جنم دیا۔

کسی ممکنہ خون کے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے انھوں نے سی سیکشن کے ذریعے زچگی کا راستہ اپنایا۔ وہ بتاتی ہیں کہ لڑکی کو جنم دینے کے بعد بھی انھیں خون کی منتقلی سے گزرنا پڑا۔

ایک موقع پر وہ اپنی نوزائیدہ بچی کو دودھ پلا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ انھیں خون بھی منتقل ہو رہا تھا۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ خون کی خرابی ان کی بیٹی کو وراثت میں نہیں ملی ہے۔

تھیلیسیمیا ناقص جینز کی وجہ سے ہوتا ہے جو ہیموگلوبن کی پیداوار کو متاثر کرتے ہیں۔ سرخ خون کے خلیات میں پروٹین جو جسم کے اردگرد آکسیجن لے جاتا ہے۔ ایک بچہ تھیلیسیمیا کے ساتھ صرف اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب وہ والدین دونوں سے یہ ناقص جینز وراثت میں حاصل کرے۔

لہذا اگر دونوں والدین میں ناقص جینز ہیں جو ’بیٹا تھیلیسیمیا میجر‘ کا سبب بنتا ہے تو ہر بچے کے اس حالت کے ساتھ پیدا ہونے کے چار میں سے ایک امکان ہیں۔ تھیلیسیمیا میں مبتلا بچے کے والدین عام طور پر کیریئر ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس صرف ایک ناقص جینز ہوتا ہے۔

Pavan Jaishwalکنجل کو خون لگا ہوتا تھا جب وہ اپنے بچے کو دودھ پلاتی تھیںتھیلیسیمیا حمل کو کیسے بدل دیتا ہے؟

گجرات سٹیٹ تھیلیسیمیا ٹاسک فورس کے رکن ماہر امراض اطفال ڈاکٹر انیل کھتری کے مطابق کنجل کا کامیاب حمل انتہائی نایاب تھا۔

انھوں نے ماں اور بچے| دونوں کا علاج کیا۔ درحقیقت یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا تجربہ انھیں تھیلیسیمیا کے 100 سے زیادہ مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کی حیثیت سے تین دہائیوں میں کبھی نہیں ہوا۔

انڈینوزارت صحت اور خاندانی بہبود کے مطابق دنیا بھر میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کی تعداد 27 کروڑ ہے۔

یہ ایک تباہ کن بیماری ہے جو مریضوں کو کمزور کرتی ہیں، سانس لینا دشوار بناتی ہیں، کام کرنے سے قاصر کرتی ہے اور ان کی متوقع عمر کو بھی کم کر دیتی ہے۔

ہیموگلوبن ایچ کی بیماری سمیت تھیلیسیمیا کی کئی مختلف اقسام ہیں۔ ان کو ایلفا اور بِیٹا تھیلیسیمیا میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

بیٹا تھیلیسیمیا میجر اس عارضے کا سب سے سنگین ورژن ہے۔ انڈیا میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ بچے اس سے متاثر ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ کیسز ہیں۔ ہر سال تقریبا 10 سے 15 ہزار انڈین بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے ہی۔

کنجل کا علاج کرنے والی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر کھتری نے وضاحت کی کہ تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے حاملہ ہونا مشکل ہوتا ہے۔

تھیلیسیمیا: ’اب میں بہت مثبت ہوں اور اپنی بیٹی کے لیے جو بھی کرنا پڑے کر گزروں گی‘وہ چار ٹیسٹ جو شادی سے پہلے کروانا ضروری ہیںکزنز کے درمیان شادیاں: ’میرے بچوں کے ہاتھوں پر سوئیوں کے سینکڑوں نشان ہیں‘وہ بچی جسے اپنے بھائی کی جان بچانے کے لیے دنیا میں لایا گیاGetty Imagesبیٹا تھیلیسیمیا میجر اس بیماری کی سب سے سنگین قسم ہے

بار بار خون کی منتقلی ہائپوتھالامس، پیٹوٹری اور ایڈرینالین گلینڈز اور ہارمونز کے اخراج پر اثر انداز ہو سکتی ہے جو فرٹیلیٹی کو متاثر کرتے ہیں۔

ٹرانسفیوژن کے ذریعے آئرن کی سطح کو صحیح طریقے سے متوازن کرنا بھی مشکل ہے اور مریضوں کو ان کے خون میں بہت زیادہ آئرن بھی گردش کرسکتا ہے۔

حمل کے دوران آپ کے جسم میں خون کا حجم بڑھ جاتا ہے اور اسی طرح آئرن کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے جو آپ کے لیے اور بچے کو آکسیجن کی فراہمی کے لیے ضروری ہے۔

ڈاکٹر کھتری کے مطابق ’تھیلیسیمیا کے مریضوں میں بار بار خون کی منتقلی کی وجہ سے آئرن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ انھیں عام طور پر اس کو کم کرنے کے لیے دوا دی جاتی ہے لیکن یہ حمل کے دوران نہیں دی جاسکتی ہیں کیونکہ وہ مریض کے اندرونی اعضا کو متاثر کرسکتے ہیں۔‘

’عام طور پر ہم حاملہ عورتوں کو مہینے میں ایک بار چیک اپ کے لیے بلاتے ہیں۔ ہم کنجل کو ہر 15 دنوں میں فون کرتے تھے۔ یہ ہمارے لیے بھی پہلی بار ہوا تھا۔‘

ڈاکٹر کھتری نے بتایا کہ حمل کے دوران بچے کی نشوونما پر نظر رکھنے کے لیے عام طور پر سونوگرافی ماہانہ بنیادوں پر کی جاتی ہے۔

Getty Imagesڈاکٹر کھتری نے انڈین جوڑوں کو مشورہ دیا ہے کہ ’شادی سے پہلے دونوں پارٹنرز خون میں کسی ممکنہ جینیاتی خرابی کی جانچ کے لیے ٹیسٹ ضروری کریں‘تھیلیمسیا کے نئے مریضوں کا کیسے پتا چلتا ہے ؟

طبی ماہرین کے مطابق

تھیلیسیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے اور بچے کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی اس کا پتہ چل جاتا ہے۔متاثرہ بچے کے جسم کی پوری طرح نشوونما نہیں ہو پاتی اور ہڈیوں میں خرابی کے باعث بچہ اپنے ہم عمر بچوں سے پیچھے رہ سکتا ہے۔ڈاکٹرز شادی کے وقت خون کا ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ بیماری کا پہلے سے پتہ چل سکے۔تھیلیسیمیا میجر کے مریض کو ہر ماہ خون کی منتقلی سے گزرنا پڑتا ہے۔خون کی منتقلی کے علاوہ بون میرو ٹرانسپلانٹ کے ذریعے مستقل علاج کیا جا سکتا ہے۔کچھ جوڑے جینیٹک کونسلنگ کیوں چاہتے ہیں؟

کنجل کے جسم پر حمل سے پڑنے والے اضافی دباؤ کو دیکھتے ہوئے، ان کے شوہر نوین لاتھیا کافی پریشان تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ انھیں ڈر تھا کہ اس عمل میں وہ کنجل کو نہ کھو دیں۔ لیکن کنجل کے اصرار کے بعد انھوں نے تحقیق شروع کر دی۔

وہ تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا ایک بھی خاتون کے صحت مند بچے کو جنم دینے کا کوئی کیس تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ لیکن ڈاکٹر کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کے بعد وہ تیار ہوگئے۔

زچگی کے ڈاکٹروں نے کنجل کو مشورہ دیا کہ وہ گھر کا پکا ہوا کھانا کھائیں اور بھیڑ بھاڑ والی جگہوں سے دور رہیں تاکہ انفیکشن کا خطرہ کم سے کم ہو۔

ڈاکٹر کھتری نے کہا کہ تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کو انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے جس سے ان کے اہم اعضا جیسے دل، گردے اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس سے ان کا مدافعتی ردعمل کمزور ہوجاتا ہے۔

جوڑوں اور حاملہ خواتین کی شادی سے پہلے کی طبی جانچ کے ساتھ ساتھ مشاورتی سیشن پورے انڈیا میں بڑے پیمانے پر پھیل گئے ہیں جس میں لاکھوں افراد نے حصہ لیا ہے۔

ڈاکٹر انیل کھتری نے انڈین جوڑوں کو مشورہ دیا ہے کہ ’شادی سے پہلے دونوں پارٹنرز خون میں کسی ممکنہ جینیاتی خرابی کی جانچ کے لیے ٹیسٹ ضروری کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر دونوں تھیلیسیمیا مائنر ہیں تو اگر ممکن ہو تو شادی سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ ہر چار میں سے ایک جوڑے میں تھیلیسیمیا میجر کا بچہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔'

تاہم ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ اگر حمل ٹھہر چکا ہے اور دونوں تھیلیسیمیا مائنر ہیں تو آٹھ سے نو ہفتوں کی عمر میں حمل میں قبل از پیدائش کا ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔

اگر اس ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بچہ میں تھیلیسیمیا میجر ہوگا تو کچھ جوڑے طبی بنیادوں پر اسقاط حمل کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

تھیلیسیمیا: ’اب میں بہت مثبت ہوں اور اپنی بیٹی کے لیے جو بھی کرنا پڑے کر گزروں گی‘وہ بچی جسے اپنے بھائی کی جان بچانے کے لیے دنیا میں لایا گیاوہ نیا ٹیسٹ جس سے بچوں میں بیماریوں کی تشخیص میں تیزی آ سکتی ہےوہ چار ٹیسٹ جو شادی سے پہلے کروانا ضروری ہیں’مجھے خون نہیں ملا تو میں زندہ نہیں رہ پاؤں گا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More