BBCننگرہار سے عسکری کمانڈر غفار پہلے افغان گروپ میں شامل تھے جنھیں سٹنگر میزائل لانچر چلانے کی تربیت دی گئی تھی
یہ اگست سنہ 1986 کی بات ہے جب انجینیئر غفار کو دس پندرہ افراد کے ایک گروپ کے ساتھ افغانستان سے پاکستان بلایا گیا تھا۔ اس وقت انھیں اس بات کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایسے حملوں میں شامل ہوں گے جو افغانستان کے آسمانوں پر اڑتے نظر آنے والے سوویت فضائیہ کے لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنائیں گے۔
اس وقت مجاہدین کے خلاف افغان حکومت کی حمایت اور مدد میں سویت فوج کو افغانستان کی سرزمین پر اترے ہوئے تقریباً سات سال گزر چکے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ نے مجاہدین کو اپنا پہلا نیا امریکی ہتھیار سٹنگر دینے کا فیصلہ کیا۔
سٹنگر کندھے سے چلایا جانے والا میزائل لانچر تھا۔
سعودی عرب کی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ ترکی فیصل (1979-2001) کے مطابق 'سٹنگر میزائل 1981 میں امریکی افواج میں تقسیم کیے گئے تھے، لیکن وہ کبھی بھی لڑائی میں استعمال نہیں ہوئے اور اسے بنانے کی ٹیکنالوجی خفیہ ہی رہی۔ خدشہ تھا کہ اگر سٹنگرز کو افغان جنگ میں استعمال کیا گیا تو وہ جلد ہی کسی نہ کسی طرح سوویت یونین کو فروخت کرنے کا راستہ تلاش کر لیں گے۔'
'اس ہتھیار کے خاد یا سٹیٹ سکیورٹی انٹیلی جنس کے اہلکاروں کے ذریعے ایرانیوں یا حتیٰ کہ دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگنے کا امکان بھی تھا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی صدر ضیا الحق کو بھی ان میزائلوں سے مارے جانے کا خدشہ تھا کیونکہ ان کو مارنے کی کئی کوششیں کی گئی تھیں اور انھیں ڈر تھا کہ یہ میزائل انھیں مارنے والے فضائی حملوں میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔'
BBCانجینیئر غفار مجاہدین کی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے والی تصویر کے بارے میں بتاتے ہوئےافغان طلبا، پاکستانی اساتذہ اور امریکی سٹنگر میزائل کی کلاس
ایسے ماحول میں انجینیئر غفار اور ان کے دوست (سب کے سب گلبدین حکمت یار کی زیر قیادت حزب اسلامی کے رکن تھے) اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان ایک علاقے میں ایئرپورٹ کے قریب رہائش پزیر ہوئے۔
پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے سب سے پہلے جن دو عسکری کمانڈروں کو امریکہ کے تیارکردہ سٹنگر میزائل چلانے اور انھیں سنبھالنے کی تربیت دی تھی اُن میں ننگرہار سے عسکری کمانڈر غفار اور کابل سے تعلق رکھنے والے کماندار درویش شامل تھے۔ یہ دونوں گلبدین حکمت یار کے حزب اسلامی گروہ سے منسلک تھے۔
اس واقعے کے تقریباً 40 سال بعد انجینیئر عبدالغفار حال ہی میں بی بی سی کو انٹرویو دینے کے لیے کیمرے کے سامنے بیٹھے تو لگا کہ انھیں اس وقت کی سب تفصیلات اچھی طرح یاد ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سٹنگر میزائل کیسے چلتا ہے، یہ سیکھنے والے پہلے افغان گروپ نے آپریشن کی تیاری میں تقریباً 30 دن گزارے۔
ان کے ٹرینر پاکستانی تھے جنھوں نے ان سے کچھ عرصہ پہلے ہی امریکہ میں اس میزائل لانچر کو چلانے کی تربیت حاصل کی تھی اور اب بھی امریکی اس سارے عمل کی نگرانی کر رہے تھے۔
ایک امریکی روسی زبان بولتے تھے اور انجینیئر غفار روسی جانتے تھے اس لیے وہ کبھی کبھی ان کے اور پاکستانیوں کے درمیان اردو مترجم کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔
وہ ایئرپورٹ کے قریب مقیم تھے۔ اور یہ مقام اسلام آباد ایئرپورٹ پر طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی پروازوں کے دوران سٹنگر میزائل کی مشق کرنے کے لیے ایک اچھی جگہ تھی۔ وہاں سے یہ دیکھا جا سکتا تھا سٹنگر کو اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے کیسے تیار کیا جائے۔
انجینیئر غفار کہتے ہیں: 'جب ٹریننگ ختم ہو گئی تو انھوں نے ہم سے کہا کہ افغانستان جانے کے لیے تیار ہو جائيں۔ ایک مسئلہ ان کے لیے بہت اہم تھا اور وہ حملے کے لیے مخصوص دن مقرر کرنے پر ان کا اصرار تھا۔ یہ مشکل کام تھا کیونکہ افغانستان واپسی کا راستہ مشکلات اور غیر متوقع واقعات سے بھرا ہوا تھا۔ آخر میں ہم نے تین دن مقرر کیے اور کہا کہ ہم دن دیہاڑے حملہ کریں گے۔'
انجینیئر غفار کو بعد میں یہ پتا چلا کہ حملے کی صحیح تاریخ مقرر کرنے پر امریکیوں کا اصرار اس لیے تھا تاکہ وہ سیٹلائٹ کے ذریعے فضائی تصاویر لے کر اس کی نگرانی کر سکیں۔
BBCیہ میزائل لانچر شانے پر رکھ کر چلایا جا سکتا تھا جس کا وزن کوئی 15 کلو گرام تھاسٹنگرز کو افغانستان کیسے لایا گیا؟
انجینیئر غفار اور ان کے ساتھی جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان کی سرحد یا ڈیورنڈ لائن پر پہنچے تو انھیں اصلی سٹنگرز دیے گئے۔ سٹنگرز کا کل وزن تقریباً 15 کلو گرام تھا اور ہر ایک کو ایک ڈبے میں پیک کیا ہوا تھا۔
انھوں نے بتایا: 'ہم مہمند ایجنسی کے راستے افغانستان واپس آئے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ اگر آپ دریا میں پھنس جائیں تو آپ ان ڈبوں پر بیٹھ کر دریا پار کر سکتے ہیں۔ ہم سٹنگر والے بکسوں کو کچرو کی پہاڑیوں پر لے گئے۔ ہم نے ڈبوں سے سٹنگرز کو نکال کر عسکریت پسندوں میں تقسیم کیا۔'
وہ بتاتے ہیں 'ہم تین چار گروپوں میں تھے اور ہم میں سے ہر ایک گروپ کو سٹنگر دیا گیا تھا۔ ہر گروپ میں ایک عسکریت پسند تھا جسے سٹنگر کو فائر کرنے کی تربیت دی گئی تھی، اور گروپ کے باقی عسکریت پسندوں کو اسے سکیورٹی فراہم کرنی تھی اور سٹنگرز کو منتقل کرنے میں مدد کرنی تھی۔'
پہلا سٹنگر ناکام ہوا
انجینیئر غفار تقریباً 40 افراد کے ایک گروپ کے ساتھ شمال کی طرف مشرقی افغانستان کے شہر جلال آباد کی طرف روانہ ہوئے۔
انھوں نے بتایا: 'میں نے سب سے کہا کہ کسی سے رابطہ نہ کریں یا کہیں نہ جائیں تاکہ ہم بے نقاب نہ ہوں۔ حملے کی جگہ جلال آباد ایئرپورٹ سے ساڑھے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع بہسود میں تھی۔'
انھوں نے مزید کہا: 'طیارے اور ہیلی کاپٹر تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہوائی اڈے کا چکر لگا رہے تھے اور ہمارے قریب سے گزر رہے تھے۔ جب میں نے اپنے گروپ کو سٹنگر دیا تو میں نے ان سے کہا کہ دعا کریں کہ اللہ ہمیں میزائل لانچ کرنے اور کامیاب ہونے کا موقع فراہم کرے۔'
اتفاق سے اسی دن ہیلی کاپٹروں کا ایک بڑا گروپ سامان کی فراہمی کے لیے کابل سے جلال آباد آیا۔
کابل کا ’مجاہدین بازار‘ جس کا کاروبار ہمیشہ جنگ کی مرہونِ منت رہاسٹنگر میزائل: افغان جنگ کا فیصلہ کن ہتھیار جو روسی افواج پر قیامت بن کر ٹوٹاملا عمر: ایک آنکھ سے زخمی طالبان قائد کی خفیہ زندگی اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی کہانیاربوں ڈالر کے وہ امریکی طیارے جو افغان طالبان اپنے ہمسایہ ملک سے واپس لانا چاہتے ہیں
سٹیو کول نے اپنی مشہور اور مفصل کتاب 'دی گوسٹ وار' میں لکھا ہے کہ 'سوویت کے آٹھ ایم آئی-24 ڈی ہیلی کاپٹر جلال آباد کے ہوائی اڈے کے قریب پہنچے۔ غفار نے اپنا سٹنگر اٹھایا ور نشانہ لیا۔۔ میزائل فائر کرنے والے سیاہ پلاسٹک کے بٹن پر ہاتھ رکھا اور ٹرگر دبا دیا۔'
پہلی نشانہ خطا ہوا۔۔۔ اور میزائل چند سو میٹر کے فاصلے پر جا گرا۔ لیکن دوسرا میزائل صحرا کو عبور کرتے سیدھا ایک ہیلی کاپٹر سے ٹکرایا اور ہیلی کاپٹر ٹکراتے ہی فوراً آگ کے گولے میں تبدیل ہو گیا۔
پھر تیزی کے ساتھ مزید میزائل فائر کیے گئے جن کی زد میں آکر دو مزید ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گئے اور اس پر سوار روسی عملے کے رکن ہلاک ہو گئے۔
BBCزیادہ تر سٹنگر میزائل لانچر گلبدین حکمت یار کے گروپ کو دی گئیہماری طرف سے مبارکباد پیش کریں
ایک دن بعد اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو ایک چونکا دینے والا پیغام موصول ہوا: اتفاق سے ایک امریکی (کے ایچ-11) جاسوس سیٹلائٹ اس علاقے کے اوپر سے گزر رہا تھا، جو باقاعدگی سے افغان میدان جنگ کی تصاویر لے رہا تھا۔ سیٹلائٹ نے جلال آباد ہوائی اڈے کی ایک واضح تصویر لی تھی جس میں جلی ہوئی باقیات کو دکھایا گیا تھا۔
لینگلے (امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی، سی آئی اے کا دوسرا نام) نے فاتحانہ لہجے میں پیغام بھیجا: 'سیٹیلائٹ کی تصویر اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جلال آباد میں تین طیارے تباہ ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ اطلاع دی گئی ہے، اس مشن کی کامیاب تکمیل پر ہماری مبارکباد قبول کریں۔'
بچوں جیسی خوشی تھی
سعودی عرب کی انٹیلی جنس ایجنسی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ترکی فیصل نے اپنی کتاب 'دی افغانستان کیس' میں لکھا ہے کہ 'میزائل چلانے کے مناظر فلمائے گئے تھے۔ یہ میزائلوں کے خراب اور غلط استعمال کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔ ایک واقعے میں (ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے بعد) فلم بنانے والا دوڑتا ہوا اس واقعے کو فلما رہا تھا۔ میں نے بعد میں دیکھا کہ اس کی ویڈیو میں سب سے زیادہ آسمان کی دھندلی تصویر کے ساتھ پیڑ پودوں اور میدان کی تصویر کشی شامل تھی۔۔۔ یہ فلم رونالڈ ریگن (اس وقت کے امریکی صدر) کو بھی دکھائی گئی جنھیں وہ بہت پسند آئی۔'
انجینیئر غفار کے مطابق بعد میں انھیں ایک قسم کا کیمرہ دیا گیا جس کے پرنٹس فوٹوز کی عام دکانوں میں ڈولپ نہیں کیے جا سکتے تھے۔ 'وہ ان کا کیمرہ واپس لیتے اور تصاویر خود پرنٹ کرتے۔'
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے سٹنگر میزائل لانچ کرنے والوں کو ویڈیو کیمرے بھی فراہم کیے تھے۔ فلموں میں مجاہدین کی افواج کو ہیلی کاپٹر گرنے کے بعد جشن مناتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ ایک سی آئی اے افسر کے مطابق: 'یہ کسی فٹبال سٹیڈیم میں بچوں کے جیتنے کے بعد فلم کی طرح کا منظر لگ رہا تھا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کے اوپر نیچے کود رہا تھا۔'
Getty Imagesحرکت اسلامی گروپ کے مجاہدین اپنے شکار ایک ہیلی کاپٹر کے ساتھ’100 دنوں میں سوویت یونین نے ہر روز ایک ہیلی کاپٹر کھویا‘
اسلام آباد میں سی آئی اے کے اس وقت کے دفتر کے سربراہ ملٹ بیئرڈن کے مطابق سوویت یونین نے جلال آباد ہوائی اڈے کو بند کر دیا اور تحقیقات کے لیے ایک ٹیم وہاں بھیج دی۔ سوویتوں نے کہا: 'اچھا تو سٹنگر میدان جنگ میں داخل ہو گیا ہے۔'
کہا جاتا ہے کہ ایک سال کے بعد افغانستان کی تقریباً نصف فضائی حدود کو سوویت افواج سے پاک کر دیا گیا۔
انجینیئر غفار ایک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ ایک سٹنگر سے میزائل چلا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا: 'ہم نے انھیں اونچائی پر اور نیچے پرواز کرتے ہوئے نشانہ بنایا۔ مجھے یقین ہے کہ میں نے 12 ہیلی کاپٹر مار گرائے تھے۔'
امریکی ملٹری انٹیلی جنس کے اس وقت کے سربراہ لیونارڈ پیئروٹ کے مطابق '100 دنوں میں سوویت یونین نے ہر روز ایک ہیلی کاپٹر کھویا۔'
Getty Imagesبہت سے سٹنگر غائب ہو گئے اور دنیا بھر میں فروخت کر دیے گئےجب پاکستانیوں نے انجینیئر غفار سے آخری سٹنگر مانگا
انجینیئر غفار کے مطابق پہلے پہلے سٹنگرز گلبدین حکمت یار کی اسلامک پارٹی کو دیا گیا اس کے بعد دوسرا مولوی خالص کی اسلامک پارٹی کو دیا گیا۔
بعد میں برہان الدین ربانی کی زیر قیادت جماعت اسلامی اور محمد آصف محسنی کی زیر قیادت حرکت اسلامی پارٹی کو بھی کئی سٹنگرز دیے گئے۔
انجینیئر غفار یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'جب روسی چلے گئے تو امریکیوں کے لیے سٹنگرز کو اکٹھا کرنے کا مسئلہ پیدا ہو گيا۔ میرے اپنے پاس تین سٹنگرز تھے۔۔۔ ہمارے اپنے مجاہدین کہتے کہ ہم نے سٹنگر یہاں وہاں رکھ دیا تھا، آخر کار سب غائب ہو گئے کیونکہ امریکی انھیں اونچی قیمتوں پر خرید رہے تھے، دوسرے تاجر بھی اس کی خریدو فروخت کر رہے تھے۔ شروع میں اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی لیکن بعد یہ معاملہ بگڑ گیا۔'
انھوں نے مزید بتایا کہ 'پاکستانی متحرک ہو گئے۔ ایک بار پاکستانی ننگرہار کے گورنر حاجی قادر کے پاس آئے اور کہا کہ انجینیئر غفار کے پاس ایک سٹنگر ہے، اسے ہمارے لیے لے دیں۔ حاجی قادر ہمارے دوست تھے۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن میں نے کہا: 'اسے میرے پاس ہی رہنے دو۔ میں نے اسے استعمال کیا ہے اس لیے میں اسے کسی کو نہیں دوں گا۔ میرے پاس ہی رہنے دیں، مستقبل میں یہ میری کامیابی شامل ہو گا۔'
انھوں نے کہا: 'حاجی قادر کو بہت مجبور کیا گیا۔ وہ ہمارے دوست تھے، ہمارے گورنر تھے اس لیے پاکستانیوں نے مجھ سے میزائل حاصل کر لیے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے اسے امریکیوں کو دے دیا یا وہ خود لے گئے۔ اس کے بعد میں نہیں جانتا کہ اس کا کیا ہوا۔'
Getty Imagesاس میزائل لانچر کو لانا لے جانا آسان تھا
ترکی فیصل کے مطابق: 'جلد ہی بہت سے سٹنگرز غائب ہو گئے۔ یونس خالص کی جماعت کے کچھ مجاہدین جو کوئٹہ سے ہرات جا رہے تھے، ایرانی حدود میں داخل ہو گئے یا شاید غلطی سے ایرانی سرحد عبور کر گئے اور ایرانی سرحدی محافظوں کے ہاتھوں پکڑے گئے۔ ان کے پاس چار راکٹ لانچرز اور 16 میزائل تھے۔ یونس خالص اور برہان الدین ربانی کے ایرانیوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ انھوں نے ان سے راکٹ لانچرز حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ایرانیوں نے مختلف حیلے بہانوں سے سٹنگرز کی واپسی میں تاخیر کی اور پھر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔'
جس وقت طالبان نے کابل پر قبضہ کیا اس وقت اندازہ لگایا گیا کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران سی آئی اے کی طرف سے تقسیم کیے گئے تقریباً 2300 سٹنگر میزائلوں میں سے 600 غائب تھے۔
سٹنگرز کو حاصل کرنے کے لیے پورے وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ایک مقابلہ شروع ہو گیا۔ ایک امریکی صحافی سٹیو کول کے مطابق ایرانی جتنے سٹنگرز خرید سکتے تھے انھوں نے خریدے۔ سی آئی اے کے افسران کا اندازہ ہے کہ ایران نے تقریباً 100 سٹنگرز میزائل لانچر حاصل کیے تھے۔
ایک پورے سٹنگر کی قیمت 70000 سے 150000 امریکی ڈالر تک آتی ہے۔ سی آئی اے نے سٹنگر میزائلوں کی بازیابی میں مدد کے لیے اپنے اتحادیوں سے بھی رابطہ کیا۔
سٹیو کول نے لکھا ہے کہ سعودی انٹیلی جنس چیف ترکی فیصل کے چیف آف سٹاف احمد بادیب اس سلسلے میں صومالیہ بھی گئے۔ انھوں نے افریقہ میں سمگل کیے گئے سٹنگرز کی بازیافت کی اور انھیں امریکیوں کو واپس کردیا۔
اربوں ڈالر کے وہ امریکی طیارے جو افغان طالبان اپنے ہمسایہ ملک سے واپس لانا چاہتے ہیںپیپسی میں زہر دینے سے لاش شاہی محل کے قالین میں لپیٹنے تک: حفیظ اللہ امین کو قتل کرنے کے روسی مشن کی کہانیملا عمر: ایک آنکھ سے زخمی طالبان قائد کی خفیہ زندگی اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی کہانیجب پاکستانی F-16 نے سوویت یونین کا لڑاکا طیارہ مار گرایاباچا خان: پاکستان کی آزادی کے مخالف سرحدی گاندھی جنھیں ’افغان ایجنٹ‘ قرار دیا گیاکابل کا ’مجاہدین بازار‘ جس کا کاروبار ہمیشہ جنگ کی مرہونِ منت رہا