اندرا گاندھی کی زندگی پر بنی فلم ’آندھی‘ جو انہوں نے کبھی نہ دیکھی

اردو نیوز  |  Feb 18, 2025

حال ہی میں انڈیا کی پہلی خاتون وزیراعظم اندرا گاندھی کی زندگی پر بنی ایک فلم ’ایمرجنسی‘ ریلیز ہوئی ہے جس میں اداکارہ اور سیاست دان کنگنا رناوت نے اداکاری کی ہے۔ یہ فلم باکس آفس پر بری طرح فلاپ ہو گئی اور اپنی اداکاری کے لیے متعدد ایوارڈ جیتنے والی کنگنا کی بھی کوئی تعریف نہیں کی گئی۔

لیکن ہم آج ایک ایسی فلم کی بات کر رہے ہیں جس کو ناظرین نے اندرا گاندھی کی زندگی پر بنی فلم بتایا لیکن فلم سازوں نے کبھی اس پبلک پرسیپشن کی کھلے طور پر حمایت نہیں کی اور اس کے متعلق مختلف اوقات میں مختلف بیانات سامنے آتے رہے۔ معروف فلم ساز، نغمہ نگار اور ہدایت کار گلزار کی فلم ’آندھی‘ نہ صرف کامیاب ہوئی بلکہ انڈیا کی کلاسک فلموں میں شمار ہوتی ہے۔

یہ فلم 50 برس قبل فروری 1975 میں ریلیز ہوئی تھی۔

اس فلم کے بارے میں گلزار اردو میں شائع سکرین پلے میں لکھتے ہیں کہ ’آندھی کا منظر نامہ (سکرپٹ) بڑے دلچسپ حالات میں لکھا گيا۔ میں آندھی کا منظرنامہ لکھ رہا تھا جب کملیشور جی (ہندی کے ادیب) سے ایک اور فلم لکھنے کے لیے ملاقات ہوئی، جو بعد میں ’موسم‘ کے نام سے بنی۔ نشست ایک فلم کے لیے ہوتی اور اکثر بحث دوسری فلم پر جا کر ختم ہوتی۔ ہم دونوں فلمیں ایک ہی ساتھ ڈسکس کرنے لگے تھے۔ بالآخر یہ طے پایا کہ کملیشور جی الگ الگ دونوں ہی کہانیوں پر ناول لکھ لیں اور میں سکرپٹ لکھتا رہوں۔ ان کے ناولوں سے مجھے کچھ نکتے مل جائیں گے اور میرے منظر نامے سے کچھ پرتیں انہیں بھی حاصل ہو جائیں گی۔‘

بہرحال یہ فلم ایک سیاسی پنڈال سے شروع ہوتی ہے جہاں انتخابی جلسے کے دوران چندر سین نامی ایک رہنما اپنی تقریر کرتے ہیں؛ ’یقین مانیے مجھے کوئی شوق نہیں ہے الیکشن لڑنے کا، نہ ڈاکٹر نے کہا کہ میں الیکشن لڑوں، لیکن مجھے الیکشن لڑنا پڑتا ہے، اپنے حقوق کے لیے، جنتا کے حقوق کے لیے۔ وہ جو سمجھتے ہیں، ایک ڈبہ مٹی کا تیل دے کر، یا ایک مٹھی اناج جھولی میں ڈال دینے سے جنتا بک جائے گی، وہ بھول کر رہے ہیں، جنتا بکے گی نہیں، وہ اپنی بھوک نہیں بیچے گی، وہ اتنا سستا سودا نہیں کرے گی، جنتا کے حقوق بکیں گے نہیں۔‘

اگر ان مکالموں کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ آج جو فری بیز یعنی مفت کی سہولتیں پیش کی جا رہی ہیں ان کی اپنی ہی ایک تاریخ ہے۔

’آندھی‘ سچترا سین کی آخری ہٹ فلم تھی۔ (فوٹو: فرسٹ پوسٹ)بہرحال ایک بار جب گلزار سے پوچھا گیا کہ کیا یہ فلم اندرا گاندھی پر مبنی ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ کیا یہ سیاست دان تارکیشوری سنہا پر مبنی نہیں ہو سکتی ہے۔

بہار سے تعلق رکھنے والی سیاست داں تارکیشوری سنہا اپنے زمانے میں کسی گلیمر گرل سے کم نہیں تھیں۔

لیکن جب سنہ 1977 میں اندرا گاندھی انتخابات میں شکست سے دو چار ہوئیں اور پھر گلزار سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ سچترا سین کا کردار اندرا گاندھی اور سنجیو کمار کا کردار فیروز گاندھی کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا تھا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے فیروز گاندھی خود بڑے سرگرم سیاسی رہنما تھے لیکن فلم میں سنجیو کمار کو اس طرح پیش نہیں کیا گیا ہے۔

اداکار سنجیو کمار اور سچترا سین کی اداکاری پر مبنی یہ فلم اندرا گاندھی اور ان کے شوہر فیروز گاندھی کے درمیان کی دوری سے اس قدر مشابہت رکھتی تھی کہ جنوبی انڈیا میں فلم کے ایک پوسٹر پر لکھا گیا: ’اپنی وزیراعظم کو سکرین پر دیکھیں۔‘

یہ فلم کئی اعتبار سے متنازع رہی۔ یہاں تک کہ فلم کے منظر میں آئینے کے سامنے سچترا سین کہتی ہیں کہ اندرا گاندھی ان کی آئیڈیل ہیں جس سے یہ تاثر جا سکے کہ یہ اندرا گاندھی کی زندگی پر بنی فلم نہیں ہے۔

دی ہندو کی ایک رپورٹ کی مطابق وزیراعظم اندرا گاندھی نے خود فلم نہیں دیکھی لیکن اپنے عملے کے دو ارکان سے اسے دیکھنے کے لیے کہا۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)دی ہندو کی ایک رپورٹ کی مطابق وزیراعظم اندرا گاندھی نے خود فلم نہیں دیکھی لیکن اپنے عملے کے دو ارکان سے اسے دیکھنے کے لیے کہا کہ آیا یہ عوامی نمائش کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔ عملے کے ارکان نے فلم کو کلین چٹ دے دی اور آئی کے گجرال جو فلم کی شوٹنگ کے وقت اطلاعات و نشریات کے وزیر تھے اور بعد میں وزیراعظم بنے، انہوں نے بھی جو کچھ دیکھا اسے پسند کیا اور اس طرح یہ فلم نمائش کے لیے پاس کر دی گئی۔ اس کے باوجود تقریباً چھ ماہ تک اس پر پابندی عائد رہی۔

فلم بندی کے دوران سچترا سین کو گلزار اکثر ’سر‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ یہ جہاں سچترا سین کی طاقتور شخصیت کی عکاسی کرتا ہے وہیں گلزار کے مزاح کی بھی جھلک پیش کرتا ہے۔

مصنف میتری بی چودھری نے ’اتم کمار اور سچترا سین: بنگالی سینما کی پہلی جوڑی‘ نامی کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح گلزار نے سچترا سین کے لیے ہی یہ فلم لکھی تھی۔

ایک بار 1960 کی دہائی میں گلزار نے سچترا سین سے ایک فلم کے لیے رابطہ کیا تھا لیکن بات نہیں بن سکی لیکن پھر جب گلزار نے ’آندھی‘ لکھی تو فلم کے پروڈیوسر جے اوم پرکاش نے انہیں ایک بار پھر رابطہ کرنے کا مشورہ دیا اور سکرپٹ لے کر گلزار کلکتہ پہنچے، سچترا سین سے ملاقات کی اور وہ رضامند ہو گئیں۔

کہا جاتا ہے کہ سنجیو کمار کو یہ کردار اس لیے ملا کہ وہ سچترا سین کے ساتھ کام کرنے کے خواہش مند تھے۔ (فائل فوٹو: کوئی موئی)میتری لکھتی ہیں کہ ’سچترا سین کے کرداروں کے انتخاب نے ان کی آزادانہ ذہنیت کو ایک ایسے وقت میں ظاہر کیا جب زیادہ تر اداکارائیں ہر اس پیشکش پر مطمئن ہوتی تھیں جو بھی انہیں پیش کی جاتی تھیں۔ وہ اکثر کام کرنے والی عورت کے کردار کو پیش کرتی تھیں، جو ان دنوں میں ایک نایاب چیز تھی۔ سچترا سین نے اپنی دلکش، بڑی آنکھوں کے ساتھ ناقابل یقین خوبصورتی اور ادکاری کا اظہار کیا ہے۔‘

اگرچہ آرتی دیوی کا مرکزی کردار اداکارہ وجینتی مالا کو پہلے پہل پیش کیا گیا تھا اور انہوں نے انکار کر دیا کیونکہ وہ اندرا گاندھی کے ساتھ اپنے کردار کی جسمانی مشابہت کی وجہ سے مطمئن نہیں تھیں۔ لیکن پھر سنہ 2011 میں انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران فلم ’آندھی‘ کو ان چند فلموں میں سے ایک کے طور پر شمار کیا جسے ٹھکرانے کا انہیں افسوس تھا۔ اس کے علاوہ گرو دت کی ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ (1955) اور بمل رائے کی ’بندنی‘ (1963) کو بھی منع کرنے کا انہیں افسوس تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ اندرا گاندھی کی اتنی معترف تھیں کہ جب اس کی انہیں پیشکش ہوئی تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔

کہا جاتا ہے کہ سنجیو کمار کو یہ کردار اس لیے ملا کہ وہ سچترا سین کے ساتھ کام کرنے کے خواہش مند تھے۔ یہ سچترا سین کی آخری ہٹ فلم تھی کیونکہ اس کے بعد انہوں نے ایک دو بنگالی فلموں میں کام کیا اور پھر وہ فلموں سے یکسر دور ہو گئیں۔

جب گلزار سے پوچھا گیا کہ کیا یہ فلم اندرا گاندھی پر مبنی ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ کیا یہ سیاست دان تارکیشوری سنہا پر مبنی نہیں ہو سکتی ہے۔ (فائل فوٹو: ٹیلگراف انڈیا)اس فلم کے گیت اور مکالمے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ آر ڈی برمن کی موسیقی پر گلزار کے گیت ’اس موڑ سے جاتے ہیں، کچھ سست قدم رستے، کچھ تیز قدم راہیں‘، یا پھر ’تیرے بن زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں‘، محبت کے شعلے بھڑکاتے نظر آتے ہیں۔

اس فلم کے لیے سنجیو کمار کو بہترین اداکار کے ایوارڈ سے جبکہ فلم کو ناقدین کے زمرے میں بہترین فلم کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی برس امیتابھ بچن کو فلم ’دیوار‘ کے لیے ایوارڈ نہ ملنا آج بھی لوگوں کھٹکتا ہے۔

بہت سے فلمی ناقدین ’آندھی‘ کو محبت کی کسک کے لیے بھی یاد کرتے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More