Getty Images
اگر آپ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے لاہور کی طرف جرنیلی سڑک یعنی جی ٹی روڈ پر سفر کر رہے ہوں تو پانچ کلومیٹر کے بعد دریائے سواں کے قریب بائیں جانب تخت پڑی جنگلات کا رقبہ شروع ہو جاتا ہے۔ کسی زمانے میں، صرف 20 سال پہلے تک، یہاں جنگل ہوتا بھی تھا۔
لیکن اب یہاں پاکستان کے ایک بڑے پراپرٹی ڈویلپر ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن اور پاکستانی افواج کے زیر انتظام چلنے والے ادارے، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی یا ڈی ایچ اے، کے ولاز نظر آتے ہیں۔
تاہم پرتعیش عمارات والا یہ علاقہ جس زمین پر موجود ہے، وہ نہ صرف جنگلات کی زمین ہے بلکہ عدالتی تحقیقات کے مطابق تخت پڑی کے جنگلات پر تعمیرات قبضہ کر کے بنائی گئیں۔
تخت پڑی کے یہ جنگلات مبینہ غیر قانونی تعمیرات کی نذر تو کئی سال سے ہو رہے ہیں لیکن ان کا ذکر حال ہی میں پاکستانی میں انسداد بد عنوانی کے ادارے نیب کے ایک بیان میں ملتا ہے۔ نیب کے اس بیان میں الزام لگایا گیا کہ ’ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں زمینوں پر قبضے کیے۔‘
جج مظہر منہاس، جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں، کی سنہ 2011 کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں درج ہے کہ تخت پڑی جنگل کی ’صفائی‘ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے مل کر کی۔ بحریہ ٹاون اور ڈی ایچ اے قبضے کے الزامات کی تردید کرتے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے سنہ 2018 کے ایک فیصلے کے مطابق بھی بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے سرکاری جنگلات اور شاملات کی اراضی پر ’قبضہ‘ کر رکھا ہے۔
ڈی ایچ اے ان جنگلات سمیت ملک میں کسی بھی جگہ پر ’قبضے‘ کی تردید کرتا ہے۔ فوج کے زیرانتظام چلنے والے اس ادارے کے مطابق ڈی ایچ اے نے ’تخت پڑی سمیت جنگلات کی زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا اور ڈی ایچ اے کا سیکٹر ایف بھی بحریہ ٹاؤن کی ملکیت میں ہے۔‘
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنگلات کی جگہ پر قبضے کی شکایات پر محکمہ جنگلات اور سروے آف پاکستان کو نئے سرے سے ایک سروے کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد عدالت نے ان محکموں کی طرف سے جمع کرائی گئی تحریری رپورٹ اور سروے کا سنہ 2018 کے اپنے فیصلے میں حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’گوگل ارتھ‘ کے مطابق 17 اپریل 2005 تک پورا تخت پڑی جنگل اپنی جگہ پر موجود نظر آتا ہے جبکہ اس کے بعد نو اکتوبر 2005 تک درخت کاٹ دیے گئے اور جنگل کی جگہ تعمیرات شروع کردی گئیں۔‘
لیکن پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر، یعنی اسلام آباد اور راولپنڈی، کے سنگم پر واقع دو ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پھیلا جنگلات کا رقبہ دیکھتے ہی دیکھتے ہاؤسنگ سکیموں میں کیسے بدلا اور اس پورے معاملے میں بحریہ ٹاون اور ڈی ایچ اے کا کیا کردار رہا؟
BBCگوگل ارتھ کے مطابق 17 اپریل 2005 تک پورا تخت پڑی جنگل اپنی جگہ پر موجود نظر آتا تھا
اس کی کھوج لگانے کے لیے بی بی سی نے متعدد عدالتی فیصلوں، انکوائری رپورٹس سمیت پولیس مقدمات کا جائزہ لیا اور اس کے عدالتی درخواست گزاروں، متاثرہ افراد اور متعلقہ حکام سے تفصیل سے بات بھی کی۔
بی بی سی نے جن افسران سے سرکاری ریکارڈتک دسترس حاصل کرنے کی بات کی تو انھوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حامی بھری۔ ان کا مؤقف تھا کہ انھیں ان رہائشی منصوبوں کی جانب سے ’سخت دباؤ‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2018 میں اپنے ایک فیصلے میں متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی تھیں کہ یہ قبضہ چھڑوایا جائے جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے عدالت کو متعدد سماعتوں پر بتایا کہ تحقیقات جاری ہیں اور عدالتی فیصلے کے مطابق کارروائی آگے بڑھائی جائے گی تاہم محکمہ جنگلات پنجاب کے چیف کنزرویٹر آفیسر عبدالمقیت خان کہتے ہیں کہ ’اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔‘
’ہمارا اب بھی یہی موقف ہے کہ سانس لینے کے لیے آکسیجن درکار ہے، لہٰذا جنگلات کی جس زمین پر قبضہ ہوا، وہ واپس دلائی جائے یا اس کے متبادل کوئی جگہ دی جائے۔‘
’مفرور ملک ریاض‘ اور تخت پڑی کے بارے میں نیب کا باضابطہ بیان
حال ہی میں نیب کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ملک ریاض ’عدالتی مفرور‘ ہیں اور ساتھ یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ بحریہ ٹاؤن کے دبئی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کو ’منی لانڈرنگ‘ تصور کیا جائے گا۔
ملک ریاض اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور نیب کا کہنا ہے کہ ’حکومتِ پاکستان قانونی چینلز کے ذریعے ملک ریاض کی حوالگی کے لیے متحدہ عرب امارات سے رابطہ کر رہی ہے۔‘
نیب کے اس بیان میں بتایا گیا کہ ’ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں زمینوں پر قبضے کیے اور ملک ریاض نے سرکاری اور نجی اراضی پر ناجائز قبضہ کر کے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا۔‘
اس بارے میں ملک ریاض سے بھی مؤقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ملک ریاض حسین کے سٹاف سکیریٹری کرنل خلیل الرحمان نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’چونکہ یہ مقدمہ ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے اس لیے بحریہ ٹاؤن عدالت کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف پیش کرے گا۔‘
تاہم نیب کے بیان کے بعد ملک ریاض نے اس وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کا استعمال کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے نیب کی جانب سے مختلف شہروں میں سرکاری زمینوں پر قبضے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ نیب کا ’بے سروپا پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے۔ ہم نے پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کے قانون کی پاسداری کی ہے اور ہمشہ کرتے رہیں گے۔‘
انھوں نے نیب کے بیان کو ملک میں سیاسی صورتحال سے جوڑتے ہوئے نیب پر بلیک میلنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ کسی کے خلاف گواہی دیں گے اور نہ ہی کسی کے خلاف استعمال ہوں گے۔‘ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’گواہی کی ضد‘ کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں۔
لیکن تخت پڑی جنگلات کا معاملہ کچھ اور کہانی سناتا ہے۔
راولپنڈی: تخت پڑی جنگل پر قبضے کی داستان
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جنگلات کی زمین پر بحریہ ٹاؤن کے نام 483.99 ایکڑ زمین کا قبضہ سرکاری دستاویزات کا حصہ ہے۔
اس رقبے میں سے 163.36 ایکڑ بحریہ ٹاؤن کے فیز ایٹ میں شامل کر دی گئی۔ ’بحریہ سپرنگ نارتھ‘ کو 185.17 ایکڑ دی گئی۔ اوورسیز سیکٹر ون کے لیے 5.29 ایکڑ جبکہ گارڈن سٹی کے تین سیکٹرز کے لیے 110.17 ایکڑ جنگلات کی زمین کام میں لائی گئی۔
تخت پڑی جنگلات کی تقریباً 300 ایکڑ زمین پر اب ڈی ایچ اے کی تعیمرات ہیں۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق تخت پڑی جنگلات کی زمین میں سے ڈی ایچ اے تھری میں 9.01 ایکڑ، ڈیفنس ولاز کے لیے 74.84 ایکڑ، ڈی ایچ اے کے سیکٹر ایف کے لیے 202.48 ایکڑ زمین شامل کی گئی۔
بحریہ ٹاؤن نے ڈی ایچ اے کو بھی زمین ٹرانسفر کی اور بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے مل کر جنگلات کی زمین میں سے 754.92 ایکڑ زمین اپنے رہائشی منصوبے کا حصہ بنا دی۔
بی بی سی کو سرکاری جنگلات کی حد بندی سے متعلق جنگلات، ریونیو اور سروے آف پاکستان کے نقشے دستیاب ہوئے، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بحریہ ٹاؤن اور افواج پاکستان کے رہائشی منصوبے ڈی ایچ اے نے ندی نالوں، ڈیموں اور دریاؤں کے قریب واقع سرکاری جنگلات کی زمینوں پر نہ صرف قبضے کیے ہیں بلکہ وہاں بڑے حصے پر تعمیرات بھی کر دی ہیں۔
ڈی ایچ اے کے حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دراصل ان کے ملک ریاض کے ساتھ جو معاہدات تھے ان کے تحت انھیں زمین ملک ریاضنے ایکوائر کر کے دینی تھی اور یہ کام خود فوج یا ڈی ایچ اے نے نہیں کیا۔‘
تخت پڑی جنگلات کی زمین سے متعلق کیا تنازع پیدا ہوا؟
تخت پڑی جنگلات کا کل رقبہ 2210 ایکڑ بنتا ہے جس کا واضح ثبوت سنہ 1886 سے لے کر آج تک محکمہ جنگلات اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ کا دستیاب ریکارڈ اور نقشے ہیں۔
جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کے دور حکومت میں ان کے کہنے پر ہونے والی حد بندی کے دوران راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے جو نقشے تیار کروائے ہیں ان کے مطابق یہ زمین صرف 1741 ایکڑ ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ریٹائرڈ جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب نے تحریر کیا تھا۔
13 نومبر 2018 کو سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک عدالتی فیصلے میں لکھا کہ جنگلات کی زمین بحریہ ٹاؤن کو منتقل کرنے پر سابق وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ کے خلاف نیب کا ’فٹ کیس‘ بنتا ہے کہ وہ ان کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔
سابق وزیر اعلی پرویز الہیٰ کے ترجمان اور میڈیا کوآرڈینیٹر چوہدی محمد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پرویز الہیٰ پر یہ الزامات ثابت نہیں ہوئے اور نہ انھوں نے ایسا کچھ کیا۔‘ ان کے مطابق ’عدالت میں بھی اس حوالے سے ہمارا یہی مؤقف رہا ہے۔‘
تاہم سپریم کورٹ نے درست حد بندی کے لیے محکمہ جنگلات، ریونیو اور سروے آف پاکستان پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی جس نے پہلی حد بندی کو غلط قرار دیا۔
عدالت میں جمع کروائی گئی محکمہ جنگلات اور سروے آف پاکستان کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’گوگل ارتھ‘ کے مطابق 17 اپریل 2005 تک پورا تخت پڑی جنگل اپنی جگہ پر موجود نظر آتا ہے جبکہ اس کے بعد نو اکتوبر 2005 تک درخت کاٹ دیے گئے اور جنگل کی جگہ تعمیرات شروع کر دی گئیں۔
ان تعمیرات کے لیے بحریہ ٹاؤن نے سمری 16 مارچ 2007 کو بھیجی لیکن نو جولائی 2007 تک تعمیرات کر دی گئی تھیں۔
کیا ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن دبئی میں سرمایہ کاری خلاف قانون ہے اور نیب اسے ’منی لانڈرنگ‘ کیوں قرار دے رہا ہے؟’وعدہ معاف گواہ نہیں بنوں گا‘: عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس سے ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض کے اثاثے منجمد، مگر باپ بیٹے کے نام پر سائیکل نہ کار اور نہ ہی اپنا کوئی گھرمونال انتظامیہ، سی ڈی اے اور فوج کے درمیان ’کرائے کی کشمکش‘ جو مارگلہ ہلز پر ریستوران کے خاتمے کا باعث بنی
راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر بحریہ ٹاؤن کے منصوبوں کی فائلیں بھی جب سپریم کورٹ پہنچیں تو انکشاف ہوا کہ جنگلات کی کئی سو ایکڑ سرکاری زمین پر کاروباری پلازے اور تعمیرات کر دی گئی ہیں۔
عدالت نے تحقیقات کرائیں تو پتا چلا کہ بحریہ ٹاؤن کو فائدہ پہنچانے کے لیے سرکاری مشینری نے بھی سرکاری ریکارڈ میں جعل سازی کو یقینی بنایا۔ جس پر ججز کو 2018 میں اپنے فیصلے میں ساغر صدیقی کا یہ شعر لکھنا پڑا:
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
عدالتی فیصلے کے مطابق قومی احتساب بیورو سمیت سب کو ان زیادتیوں کی شکایات موصول ہوئیں لیکن ’کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔‘
عدالت نے بحریہ ٹاؤن سے تخت پڑی جنگلات اور بحریہ گالف سٹی منصوبے میں ضم کی جانے والی جنگلات اور شاملات کی جگہ واپس لینے کا واضح حکم دے رکھا ہے۔
اس معاملے میں جنگلات کی زمین کے تعین کے لیے جب سپریم کورٹ کے حکم پر حد بندی کی گئی تو بحریہ ٹاؤن نے محکمہ جنگلات کے ساتھ ایک سمجھوتہ کر لیا جس کے تحت بحریہ نے جنگلات کی زمین کے تبادلے میں اپنی ملکیت میں سے زمین دینے کا وعدہ کیا۔
فیصلے میں درج ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے وکلا نے اس پر عدالت میں بہت چیخ و پکار کی کہ اب یہ معاملہ حل ہو گیا ہے مزید کسی کارروائی کی ضرورت نہیں۔ عدالت نے لکھا کہ ’محکمہ جنگلات شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بن کر سامنے آیا اور بحریہ ٹاؤن کے مفادات کا تحفظ ایسے کیا جیسے خود بحریہ ٹاؤن بھی نہ کر سکے۔‘
عدالت نے مزید لکھا کہ ’ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ کیسے ملین کے حساب سے درخت اور جھاڑیوں کی صفائی کر دی گئی اور ہر سطح پر بیٹھے عہدیداران سوئے رہے اور باہمی میل ملاپ سے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری وسائل کی بے دریغ استعمال کی کھلی چھوٹ دیے رکھی۔‘
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن سے متعلق فیصلے میں لکھا کہ ’اس سب کے باوجود محکمہ جنگلات کے افسران کے ماتھے پر شکن تک نہیں پڑی جبکہ اس ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں ایک انچ زمین اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتی وہاں سینکڑوں ایکڑ ہڑپ کر دیے گئے اور کسی نے چوں چراں تک نہیں کی۔‘
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد نیب نے مئی 2018 میں ایک پریس ریلیز جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ادارے کے (اب سابق) چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے احکامات پر بحریہ ٹاؤن کے منصوبوں کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
پریس ریلیز کے مطابق ’چیئرمین نیب نے متعلقہ ڈائریکٹر جنرلز کو ہدایات دی ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف تفتیش کو تین ماہ میں قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچائیں۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بعد نیب نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا اعلان ضرور کیا تھا مگر ابھی تک نیب کا مؤقف یہی ہے کہ یہ ’تفتیش جاری ہے۔ ادھر محکمہ جنگلات پنجاب کے چیف کنزرویٹر آفیسر عبدالمقیت خان منتظر ہیں کہ کب تحقیقات کا حتمی نتیجہ نکلے اور جنگلات کی زمین انھیں واپس ملے۔‘
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب ہوا کیسے؟
جوڈیشل انکوائری: جب ملک ریاض کی طبیعت دوران تفتیش خراب ہو گئیBBCریٹائرڈ جج مظہر منہاس
بحریہ ٹاؤن کی طرف سے زبردستی زمینوں پر قبضوں سے متعلق حقائق جاننے کے لیے سپریم کورٹ نے 2010 میں اسلام آباد کے ایک سیشن جج مظہر منہاس سے انکوائری کرائی جس کے دوران ملک ریاض بھی پیش ہوئے۔
ریٹائرڈ جج مظہر منہاس، جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ جب انھوں نے تفتیش کے لیے نوٹس دیا تو بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض اور ڈی ایچ اے انتظامیہ بھی شامل تفتیش ہو گئی۔
ان کے مطابق ’پہلے دن ملک ریاض سے تفتیش جاری تھی کہ اچانک ان کی طبعیت خراب ہو گئی اور انھوں نے کہا کہ اس وقت میرا شوگر لیول کم ہو گیا ہے، سوال جواب کے سیشن میں وقفہ کر دیا جائے۔‘
مظہر منہاس کے مطابق پوچھ گچھ کا یہ سیشن تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا۔
ان کے مطابق ’اگلے دن اسلام آباد کی ایف ایٹ کچہری میں دو متحارب گروپوں میں فائرنگ کا ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو ملک ریاض نے اپنے ملازم ریٹائرڈ کرنل خلیل الرحمان کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اگر عدالت ملک ریاض کو سکیورٹی دے تو وہ پیش ہو سکتے ہیں ورنہ نہیں۔‘
سابق جج کے مطابق ’میں نے عدالت کے اندر سکیورٹی یقینی بنانے کا وعدہ کیا اور کہا راستے کی سکیورٹی عدالت کی ذمہ داری نہیں بنتی، اس پر کرنل خلیل نے کہا پھر ملک صاحب نہیں آ سکتے۔‘
مظہر منہاس کے مطابق بعد میں ملک ریاض پیش بھی ہوئے اور اپنا مکمل بیان ریکارڈ بھی کرایا۔
سابق جج کے مطابق جب انھوں نے ڈی ایچ اے انتظامیہ کو پیش ہونے کا کہا تو پہلے جواب ملا ’ہمارا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں‘ لیکن بعد میں انھوں نے اپنا نمائندہ بھیج دیا جس کا بیان ریکارڈکرنے کے بعد انکوائری رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی گئی۔
اس انکوائری رپورٹ میں ملک ریاض کے ساتھ ڈی ایچ اے اور سرکاری مشینری کو بھی قبضوں کی دوڑ میں برابر کا معاون اور مدد گار ٹھہرایا گیا۔
ڈی ایچ اے حکام کا کہنا ہے کہ وہ پہلے بھی عدالت کے سامنے اپنا مؤقف پیش کر چکے ہیں اور یہ وضاحت بھی دے چکے ہیں کہ کیسے ان کے ساتھ بھی ملک ریاض نے ’دھوکہ دہی‘ کی۔
ان حکام کے مطابق انھوں نے اس رپورٹ کو بھی عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔ تاہم ان حکام نے یہ تصدیق کی ہے کہ انھوں نے اپنے طور پر بھی ادارہ جاتی تحقیقات کروائی ہے جس میں ملک ریاض سے متعدد سوالات اور اعتراضات کے جوابات مانگے گئے مگر انھوں نے اس تحقیقاتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کیا۔
جوڈیشل انکوائری رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے تخت پڑی جنگلات کی 1200 کنال زمین پر جبری قبضے کے ذریعے بحریہ ٹاؤن میں شامل کر دی۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق جب اس قبضے کے بارے میں محکمہ جنگلات کے افسر نے 20 ستمبر 2005 کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ کے پولیس افسر کو کارروائی کے لیے لکھا تو بجائے بحریہ ٹاؤن کے خلاف کارروائی کرنے کے شکایت کرنے والے افسر کو پولیس تھانے لے گئی اور پھر اسے ہراساں کیا گیا۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق ایک درخواست گزار ریٹائرڈ کرنل عبدالقادر جج مظہر حسین منہاس کے سامنے ان واقعات کے عینی شاہد کے طور پر پیش ہوئے۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق قبضوں اور لوگوں کی ان کی زمینوں سے جبری بے دخلی کے اس کام میں ایک ریٹائرڈ کمانڈو پیش پیش تھا اور جو مالک زمین فروخت کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا اس کے خلاف پولیس سے فوجداری مقدمات قائم کروا دیے جاتے تھے۔
رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے ڈی ایچ کے ساتھ مل کر مالکان کی خواہشات کے برعکس سستے داموں زمین خریدی۔
اپنی انکوائری رپورٹ میں جج نے بحریہ اور ڈی ایچ اے کو فائدہ پہنچانے والے افسران کے نام تک لکھ دیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2010 تک ڈی ایچ اے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے سامنے 13 درخواستیں دائر ہو چکی تھیں۔
سپریم کورٹ میں ملک ریاض کے خلاف ایک درخواست گزار ڈاکٹر شفیق الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ملک ریاض نے تخت پڑی کے قریب ان کی زمین پر قبضہ کیا تو انھوں نے قانونی چارہ جوئی کا رستہ اختیار کیا جس کے بعد 2008 میں ملک ریاض نے ان پر پولیس کے ذریعے قتل سمیت مختلف مقدمات قائم کرائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس دوران ان کی آواز سپریم کورٹ تک پہنچ گئی، جس کے بعد انھوں نے سب معاملات عدالت کے نوٹس میں لائے اور جنگلات کی زمین سے متعلق ثبوت بھی فراہم کیے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی مداخلت سے ان پر مقدمات ختم ہوئے اور ان کی شنوائی ہوئی۔
’ڈی ایچ اے نے کہیں قبضہ نہیں کر رکھا‘BBCڈی ایچ اے حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ڈی ایچ اے صرف زمینیں خریدتا ہے اور ادائیگی کر دیتا ہے جبکہ ملک ریاض زمین ایکوائر کرتے رہے‘
ڈی ایچ اے کے حکام نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ڈی ایچ اے نے کسی بھی جگہ پر قبضہ نہیں کیا۔ انھوں نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔
ڈی ایچ اے حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ڈی ایچ اے صرف زمینیں خریدتا ہے اور ادائیگی کر دیتا ہے جبکہ ملک ریاض زمین ایکوائر کرتے رہے۔‘
ان کے مطابق ڈی ایچ اے نے جنگلات کی زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا اور ڈی ایچ اے کا سیکٹر ایف بھی بحریہ ٹاؤن کی ملکیت میں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں حکام نے تسلیم کیا کہ سیکٹر ایف میں پلاٹس کی ٹرانسفر وغیرہ اور دیگر ملکیتی امور کو ڈی ای ایچ اے دیکھ رہا ہے مگر اس سیکٹر ایف کی سکیورٹی اور دیگر انتظامی امور خود بحریہ ٹاؤن ہی دیکھتا ہے۔
ان حکام کے مطابق ملک ریاض نے جو ڈی ایچ اے کے ساتھ معاہدے کیے ہیں وہ ان پر پورا نہیں اترے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے زیر سماعت ہے۔ واضح رہے کہ ڈی ایچ اے اسلام آباد کے معاملات کو براہ راست جی ایچ کیو سے مانیٹر کیا جاتا ہے اور ایک حاضر سروس بریگیڈیئر کو ڈی ایچ اے کا ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا جاتا ہے۔ یہ ڈی ایچ اے ایکٹ 2013 میں بھی واضح طور پر درج ہے۔
ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاون کے معاہدے
ملک ریاض کے دفاعی اداروں سے تعلق کا آغاز پاکستان بحریہ کے خیراتی ادارے بحریہ فاؤنڈیشن سے 1995 میں ہوا، جب ایک معاہدے کے تحت پاکستان بحریہ کے ’شہدا‘ کے ورثا کے لیے رہائشی سکیم تعمیر کرنے کے لیے ایک نئی کمپنی بحریہ ٹاؤن کے نام سے قائم کر دی۔ اس سے قبل ملک ریاض ’حسین گلوبل ایسوسی ایٹس پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کے مالک تھے۔
بحریہ ٹاؤن کی دستاویزات کے مطابق اسلام آباد اور لاہور میں رہائشی منصوبے شروع کرنے سے متعلق ملک ریاض پاکستان بحریہ سے کیے گئے معاہدے کی شرائط پر پورا نہیں اتر سکے اور وہ چار سال کی مدت کے اندر یعنی 1999 میں نادہندہ (ڈیفالٹر) ہو گئے۔ اس کے بعد پاکستان بحریہ نے اپنا برینڈ نام واپس لینے کی کوشش کی لیکن آج تک کامیابی نہ مل سکی۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انھوں نے اس معاملے پر اس وقت کے نیول چیف سے بھی بات کی لیکن ان کو تسلی بخش جواب نہیں ملا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا تھا کہ ’ملک ریاض کے اثاثوں کی قومی سطح پر تحقیقات ہونی چاہئیں، حکومت ان پر ہاتھ ڈالے گی اور انھیں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے واپس لائے گی۔‘
فوج اور پنجاب حکومت چولستان کی بنجر زمینوں کو قابل کاشت کیوں بنانا چاہتے ہیں؟کیا ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن دبئی میں سرمایہ کاری خلاف قانون ہے اور نیب اسے ’منی لانڈرنگ‘ کیوں قرار دے رہا ہے؟’وعدہ معاف گواہ نہیں بنوں گا‘: عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس سے ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض کے اثاثے منجمد، مگر باپ بیٹے کے نام پر سائیکل نہ کار اور نہ ہی اپنا کوئی گھرمارگلہ کے دو دیہات کی زمین پاکستانی فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے مطلوب: ’حکومت ہم پر رحم کرے، ہمیں بےگھر نہ کرے‘مونال انتظامیہ، سی ڈی اے اور فوج کے درمیان ’کرائے کی کشمکش‘ جو مارگلہ ہلز پر ریستوران کے خاتمے کا باعث بنی