گذشتہ چند دنوں سے پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے، جس میں معدومی کے شکار ہونے والے چار برفانی تیندوے دکھائی دے رہے ہیں۔
بی بی سی کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق مذکورہ ویڈیو گلگت بلتستان کے سینٹرل قراقرم نیشنل پارک کی ہے۔ اس ویڈیو کو بنانے والے سینٹرل قراقرم نیشنل پارک کے گیم واچر سخاوت علی ہیں جنھوں نے یہ ویڈیو ان تیندوؤں سے تقریباً اڑھائی سو میٹر کی دوری پر بنائی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس ویڈیو کو بنانے کے لیے وہ کافی عرصے سے کوشش کررہے تھے۔
Getty Imagesفائل فوٹو’نشانات نظر آ رہے تھے مگر تیندوے نہیں‘
سخاوت علی سینٹرل قراقرم نیشنل پارک میں گذشتہ سات، آٹھ سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ شوقیہ وائلڈ لائف فوٹو گرافی بھی کرتے ہیں۔
سخاوت علی کہتے ہیں کہ ’سردیوں کے موسم میں عموماً برفانی تیندوے پہاڑی علاقوں سے نیچے آتے ہیں۔ یہ عموماً دو سے اڑھائی ماہ کا عرصہ ہوتا ہے۔ جب برفباری کے بعد موسم تبدیل ہوتا ہے تو یہ واپس چلے جاتے ہیں۔
’جب برفانی تیندوے آبادی والے علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو اس وقت عموماً یہ دکھائی دیتے ہیں۔ میں ہر سال ان کو دیکھتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ویڈیو میں نظر آنے والے ان تیندوؤں کے پاؤں کے نشانات مجھے کچھ عرصہ سے نظر آ رہے تھے۔ کبھی ایک جگہ پر نظر آتے اور کبھی دوسرے مقام پر تاہم ایسے نشانات بھی ملتے تھے جن سے یہ پتا چلتا کہ ان علاقوں میں برفانی تیندوے موجود ہیں مگر میں انھیں دیکھنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا اور مسلسل ان کی کھوج میں تھا۔‘
برفانی تیندوے کی لاکھوں روپے مالیت کی کھال لاہور سے کیسے پکڑی گئی؟’برفانی تیندوے امن کی علامت ہیں، اگر یہ محفوظ ہیں تو ہم سب محفوظ ہیں‘’برفانی چیتے انسانی انتقام کا نشانہ‘300 فٹ بلند درخت پر پھنسا تیندوا اور 1000 فٹ گہری کھائی: ’ڈر تو لگ رہا تھا مگر سوچا کہ میرا رزق اس جنگلی حیات کی وجہ سے ہے‘
سخاوت علی کہتے ہیں کہ ’مذکورہ ویڈیو بنانے سے پہلے یہ مجھے ایک ہزار میٹر دور سے نظر آئے اور میں نے دیکھ لیا کہ یہ ایک دو نہیں بلکہ چار ہیں۔ میں نے وہاں سے ویڈیو بنانے کی کوشش کی مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا ایک تو وہ فوراً میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ جس کے بعد میں دوبارہ ایک طرح سے ان کے نشانات کی مدد سے ان کا تعاقب کر رہا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ 13 مارچ کا دن تھا۔ میں اس کوشش میں تھا کہ اس سیزن میں نظر آنے والے تیندوے دیکھ سکوں اور ممکن ہو تو ان کی ویڈیو بھی بنا لوں۔ مجھے اچانک برف پر تیندوؤں کے پاؤں کے نشانات نظر آئے اور یہ تازہ نشانات تھے بس اس کے بعد میں نے احتیاط کے ساتھ ان نشانات کا تعاقب شروع کر دیا۔‘
’ان نشانات کے تعاقب میں، میں نے ان کو دیکھ لیا اور پھر میں بالکل ان سے تقریباً اڑھائی سو میٹر کے فاصلے پر پہنچ گیا۔ یہ وہ ہی چار تھے جن کو میں نے ایک ہزار میٹر سے دیکھا تھا۔ میں نے اڑھائی سو میٹر کے فاصلے سے ان کی ویڈیو بنائی اور اس وقت تک بناتا رہا جب تک وہ کیمرے کی نظر سے دور نہیں ہو گئے۔‘
’یہ ایک خاندان ہے‘
سخاوت علی کا کہنا تھا کہ ’مجھے ان کے قریب جاتے ہوئے بالکل ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ برفانی تیندوا ہو یا کوئی اور جنگلی حیات وہ انسانوں پر بلکہ کسی پر بھی بلا ضرورت حملہ نہیں کرتے ہیں۔
’یہ اپنے شکار پر بھی بھوک کی صورت میں حملہ کرتے ہیں۔ یہ اس وقت تک حملہ نہیں کرتے جب تک ان کو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے خطرہ محسوس نہیں ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ویڈیو بناتے ہوئے بھی یہی ہوا۔ میں خاموشی کے ساتھ ویڈیو بناتا رہا اور وہ اپنے دنیا میں مگن اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہے۔‘
سخاوت علی کا کہنا تھا کہ ’چار تیندوؤں کا نظر آنا کوئی نئی بات نہیں ہے اورنہ ہی اس میں کچھ نیا ہے۔ یہ ایک خاندان کی صورت میں ہوتے ہیں جب تک برفانی تیندوے کے بچے 13 یا 14 ماہ کے نہیں ہو جاتے وہ اس وقت تک اپنی ماں ہی کے ساتھ رہتے ہیں تاہم ان کے ساتھ ان کا باپ نہیں ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ویڈیو میں نظر آنے والے تیندوے بھی ایک ہی خاندان کے ہیں۔ جس میں ان کی ماں اور تین بچے ہیں۔ ان کی ماں اپنے بچوں کو کچھ ماہ تک اپنے ساتھ رکھ کر شکار کرنے کا طریقہ سکھائے گئی جس کے بعد یہ جوان ہو کر اپنے اپنے مسکن قائم کر لیں گے۔‘
Getty Images
رینج فارسٹ آفیسر سینٹرل قراقرم نیشنل پارک گوہر علی گوہر کا کہنا تھا کہ یہ تیندوے حیشے گاؤں کے پاس دیکھے گئے ہیں۔ ہر سال اس گاؤں کے قریب برفانی تیندوے دیکھے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گلگت بلتستان میں سے سب سے زیادہ برفانی تیندوے سینٹرل قراقرم نیشنل پارک میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے حالیہ اندازوں کے مطابق سینٹرل قراقرم نیشنل پارک میں اس کی تعداد 35 سے چالیس ہو سکتی ہے۔‘
گوہر علی گوہر کے مقامی کمیونیٹز کے تعاون سے نہ صرف برفانی تیندوے بلکہ دیگر جنگلی حیات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود برفانی تیندوؤں کو کچھ خطرات ضرور لاحق ہیں۔
برفانی تیندوؤں کو لاحق خطرات
گوہر علی گوہر سینٹرل قراقرم نیشنل پارک میں برفانی تیندوؤں کے غیر قانونی شکار کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ برفانی تیندوے تقریباً تین ماہ دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینوں میں اوپر کے علاقوں سے خوراک کی تلاش میں نیچے کے علاقوں میں آتے ہیں۔ جب یہ نیچے کے علاقوں میں آتے ہیں تو اس وقت یہ مقامی لوگوں کے مال مویشیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ سال برفانی تیندوؤں نے 35 مال مویشیوں کو نشانہ بنایا تھا۔ جب یہ مویشیوں کو نشانہ بناتے ہیں تو ان کا انسانوں کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوتا ہے جو برفانی تیندوؤں کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔
’اس تنازعہ کو کم کرنے کے لیے مقامی کمیونیٹز کو زیادہ سے زیادہ زر تلافی ادا کرنے کی پالیسی ہونی چاہیے۔‘
Getty Images
گلگت بلتستان وائلڈ لائف کنزویٹر خادم عباس کا کہنا تھا کہ ہمارے حالیہ اندازوں اور سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں برفانی تیندوؤں کی تعداد ڈیڑھ سو سے لے کر دو سو بیس تک ہو سکتی ہے۔ برفانی تیندوؤں کی آماجگاہیں کم از کم پندرہ سے سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہوتی ہیں اور جب یہ گرمیوں کے موسم میں بلندی پر جاتا ہے تو وہاں پر بھی اس کی آماجگاہیں اور مسکن برفباری ہی کے علاقے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ موسمی حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس سال اور گذشتہ سالوں میں بارشوں اور برف باری اپنے روایتی وقت پر نہیں ہو رہی ہے۔ اس سال گلگت بلتستان میں برف باری فروری کے آخر میں ہوئی او پھر مارچ کے شروع میں ہوئی جبکہ گلگت بلتستان میں عموماً برفباری دسمبر، جنوری اور فروری میں ہوتی ہے۔
خادم حسین کا کہنا تھا کہ مارچ اپریل برفانی تیندوے کی بریڈنگ کا بھی موسم ہوتا ہے۔ جنگلی حیات ہو یا برفانی تیندوا ان کے زندگی گزارنے کے پیٹرن اور حالات کئی صدیوں اور سالوں میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ میچور ہوجاتے ہیں۔ جن میں ان کے لیے تبدیلی لانا اتنا ممکن نہیں ہوتا اور جب موسمی حالات موافق نہ رہیں تو یہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ برفباری کم ہونے یا اپنے وقت پر نہ ہونے سے برفانی تیندوؤں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مارچ میں برفباری کا ہونا ان کے بریڈنگ سیزن پر بھی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
برفانی تیندوے کی لاکھوں روپے مالیت کی کھال لاہور سے کیسے پکڑی گئی؟300 فٹ بلند درخت پر پھنسا تیندوا اور 1000 فٹ گہری کھائی: ’ڈر تو لگ رہا تھا مگر سوچا کہ میرا رزق اس جنگلی حیات کی وجہ سے ہے‘نایاب کھالیں اسلام آباد میں کیسے بک رہی ہیں؟’برفانی تیندوے امن کی علامت ہیں، اگر یہ محفوظ ہیں تو ہم سب محفوظ ہیں‘’برفانی چیتے انسانی انتقام کا نشانہ‘سوزوکی کی فیکٹری بند کرانے والا تیندوا پکڑا گیا