دہائیوں تک سوویت قبضے میں رہنے والے وہ یورپی ممالک جو اب پوتن کی ممکنہ جارحیت سے خائف ہیں

بی بی سی اردو  |  Mar 22, 2025

BBC

’میں نے 35 سال پہلے 18 سال کی عمر میں ایئرفورس میں شمولیت اختیار کی اور فوراً جرمنی چلا گیا، جہاں میں ٹورنیڈو طیارے پر تعینات تھا۔‘

برطانوی ایئر کموڈور اینڈی ٹرک کہتے ہیں، جو اب نیٹو ایئر بورن ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول فورس کے نائب کمانڈر ہیں۔ ’یہ سرد جنگ کے اختتام کے قریب کا وقت تھا اور اُس وقت ہمارا جوہری کردار تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جنگ کے بعد ہم نے اُمید کی تھی کہ ہمیں امن کا فائدہ ملے گا اور جغرافیائی سیاست میں آگے بڑھنے کا موقع ملے گا لیکن یہ واضح ہے کہ روس ایسا نہیں چاہتا اور اب میرا بڑا بیٹا فضائیہ میں شامل ہونے کے لیے بےتاب ہے، وہ بھی کچھ فرق ڈالنا چاہتا ہے۔۔۔ یہ سب کچھ حد تک دہرایا ہوا محسوس ہوتا ہے۔‘

ہم اس وقت بالٹک سمندر کے اوپر تقریباً 30,000 فٹ کی بلندی پر موجود ہیں ایک نیٹو کے نگران طیارے میں جو ایک بڑی چمکدار، کھمبی جیسے ریڈار سے لیس ہے، جس کی مدد سے عملہ کئی سو میل دور تک کے علاقے کی نگرانی کر سکتا ہے اور مشتبہ روسی سرگرمیوں کو تلاش کر رہا ہے۔

ایسی فضائی نگرانی کے مشنز نیٹو کے رکن لیتھوینیا، لیٹویا اورایسٹونیا جیسے چھوٹے بالٹک ممالک کو تحفظ کا احساس دلاتے رہے ہیں۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس صورتحال کو تبدیل کر رہے ہیں، کیونکہ ان کی ولادیمیر پوتن سے قربت اُن کے پہلے دورِ حکومت سے ہی واضح ہے۔

BBCبرٹش ایئرکموڈور اینڈی ٹرک ایواکس کے ہمراہ

ٹرمپ نے یورپ کو یہ بات واضح انداز میں باور کروا دی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ یورپی براعظم اب امریکی فوجی مدد کو یقینی نہیں سمجھ سکتا۔

یہ صورتحال بالٹک ممالک کو بے چین کیے ہوئے ہے جو چالیس برس تک سوویت یونین کے قبضے میں رہے اور سرد جنگ کے اختتام پر آزاد ہوئے۔

اب یہ ممالک یورپی یونین اور نیٹو دونوں کے رکن ہیں لیکن پوتن اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ بالٹک ریاستیں روس کے دائرہ اثر میں واپس آنا چاہییں۔

اور اگر روسی صدر یوکرین میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا وہ اپنی توجہ ان ممالک کی طرف نہیں موڑ سکتے ہیں خصوصاً اگر انہیں اندازہ ہو جائے کہ ٹرمپ شاید ان کی حمایت میں مداخلت کرنے پر آمادہ نہ ہوں؟

روسی معیشت کی ازسرِ نو ترتیب

سینٹر فار یورپین ریفارم کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایان بونڈ کا خیال ہے کہ اگر یوکرین میں طویل المدتی جنگ بندی طے بھی پا جائے تو پوتن وہیں نہیں رکے گا۔

’کوئی بھی صاحبِ عقل یہ نہیں چاہتا کہ یورپ میں ایک اور جنگ سر پر منڈلا رہی ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپی انٹیلیجنس کے اہلکاروں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد ہمیں بتا رہی ہے کہ چاہے یہ تین سال میں ہو، پانچ سال میں یا دس سال میں۔

’وہ جو کہہ رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ یورپ میں ہمیشہ قائم رہنے والا امن اب ماضی کی بات بن چکا ہے۔‘

Getty Images

روس کی معیشت اس وقت جنگی بنیادوں پر استوار ہے۔ اس کے وفاقی بجٹ کا تقریباً 40 فیصد دفاع اور داخلی سلامتی پر خرچ ہو رہا ہے۔

معیشت کا زیادہ سے زیادہ حصہ جنگی سازوسامان اور مواد کی تیاری کے لیے وقف کیا جا رہا ہے۔

بونڈ کہتے ہیں کہ ’ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ روسی معیشت کو کس مقصد کے لیے نئے سرے سے ڈھالا جا رہا ہے۔‘

ایسٹونیا کی سرحد پر روسی اشتعال انگیزیاں

جب آپ شمالی ایسٹونیا کے تیز ہواؤں والے شہر نارووا کا سفر کرتے ہیں، تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ملک خود کو اتنا غیر محفوظ کیوں محسوس کرتا ہے۔

روس شمال سے جنوب تک مکمل طور پر ایسٹونیا کی سرحد سے جڑا ہوا ہے۔ نارووا شہر کو روس سے ایک دریا جدا کرتا ہے، جس کا نام بھی نارووا ہی ہے۔ دریا کے دونوں کناروں پر ایک ایک قلعہ واقع ہے، جن کا طرزِ تعمیر قرونِ وسطیٰ کا منظر پیش کرتا ہے ۔ ایک پر روس کا جھنڈا لہرا رہا ہے اور دوسرے پر ایسٹونیا کا۔ دونوں کے درمیان ایک پل ہے جو یورپ کے اُن چند آخری پیدل راستوں میں سے ایک ہے جو اب بھی روس کے لیے کھلا ہے۔

ایسٹونین بارڈر پولیس کے چیف ایگرٹ بیلیتسیو نے مجھے بتایا کہ ’ہم اُن کی چالوں اور حربوں کے عادی ہو چکے ہیں۔‘

BBCایسٹونیا کی سرحد پر واقعہ قلعے کا ایک منظر

وہ بتاتے ہیں کہ ’روسی خطرہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں، سرحد پر مسلسل کشیدگی اور اشتعال انگیزیاں جاری رہتی ہیں۔‘

بارڈر پولیس نے تھرمل امیجنگ کے ذریعے ایسی ویڈیوز ریکارڈ کی ہیں جن میں نارووا دریا میں لگائی گئی نشانیاں حدیں جو دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا تعین کرتی ہیں، کو روسی محافظ اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہٹا رہے ہیں۔

’ہم فضائی آلات استعمال کرتے ہیں،ڈرونز، ہیلی کاپٹرز اور طیارے، جن سب کا انحصار جی پی ایس سگنلز پر ہوتا ہےاور مسلسل جی پی ایس جیمنگ کی جا رہی ہے۔ اس وجہ سے روس ہماری صلاحیتوں کو اس طرح متاثر کر رہا ہے کہ ہم کسی طرح اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔‘

BBCایسٹونیا کی بارڈر فورس ڈائریکٹر کے مطابق سرحد پر روس کی اشتعال انگیزیاں ایک معمول ہے

بعد میں، میں ایسٹونیا کی جانب رہتے ہوئے برف سے ڈھکے ہوئے اُس پل پر چلی، جو روسی سرحد کی طرف جاتا ہے اور میں نے روسی بارڈر گارڈ کو دیکھا۔ وہ مجھے دیکھ رہا تھا، اور میں اُسے۔ ہم ایک دوسرے سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر تھے۔

گزشتہ سال، ایسٹونیا نے اس پل پر اینٹی ٹینک روکاٹیں ’ڈریگن کے دانت‘ نصب کیے ۔

میں نے کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ روس یہاں ٹینکوں کے انبار لے کر آئے گا۔ اُسے اس کی ضرورت ہی نہیں۔ صرف چند فوجی بھی یہاں بڑی عدم استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔

نارووا میں تقریباً 96 فیصد لوگ روسی زبان کو اپنی مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں اور ان میں سے کئی افراد دوہری شہریت رکھتے ہیں۔

ایسٹونیا کو خدشہ ہے کہ ایک پُراعتماد ولادیمیر پیوٹن نارووا اور اس کے آس پاس کی بڑی نسلی روسی آبادی کو بطور بہانہ استعمال کر کے حملہ کر سکتا ہے۔ یہ وہی طریقۂ کار ہے جو وہ اس سے پہلے جارجیا اور یوکرین میں بھی اپنا چکا ہے۔

صدر پوتن کے عزائم پر خدشے کی شدت کو ظاہر کرنے والی ایک ڈرامائی پیش رفت یہ ہے کہ رواں ہفتے ایسٹونیا، لیتھوانیا، اور پولینڈ نے مشترکہ طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے پارلیمانوں سے اس بات کی منظوری مانگ رہے ہیں کہ وہ بین الاقوامی اینٹی پرسنل بارودی سرنگوں کی ممانعت سے متعلق معاہدے سے دستبردار ہو جائیں ، وہی معاہدہ جس پر دنیا کے 160 ممالک نے دستخط کیے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ قدم اُنھیں اپنی سرحدوں کے دفاع میں ’زیادہ لچک‘ فراہم کرے گا۔ لیتھوینیا تو اسی مہینے پہلے ہی کلسٹر بموں پر پابندی لگانے والے بین الاقوامی معاہدے سے دستبردار ہو چکا ہے۔

کیا نیٹو ممالک کو بڑا خطرہ لاحق ہے؟

کیملی گرانڈ جو نیٹو میں دفاعی سرمایہ کاری کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل رہ چکے ہیں، کا خیال ہے کہ یوکرین کے بعد پوتن کے کسی غیر نیٹو ملک جیسے مالدووا کو نشانہ بنانے کا امکان زیادہ ہے کیونکہ وہاں بین الاقوامی ردعمل کا خطرہ نسبتاً کم ہو گا۔

مسٹر گرانڈ کے مطابق ایسٹونیا اور دیگر بالٹک ریاستیں نیٹو کے باقی حصوں کی نسبت روایتی طور پر زیادہ کمزور رہی ہیں کیونکہ وہ جغرافیائی طور پر مغربی یورپ میں نیٹو کے رکن ممالک سے کٹی ہوئی تھیں۔ لیکن اب یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہو چکا ہے، کیونکہ سویڈن اور فن لینڈ نے روس کے یوکرین پرحملے کے بعد نیٹو میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’اب بالٹک سمندر نیٹو کا سمندر بن چکا ہے۔‘

ڈاکٹر میرین میسمَرجو چیٹم ہاؤس کے انٹرنیشنل سیکیورٹی پروگرام میں سینئر ریسرچ فیلو ہیں، کا خیال ہے کہ روس کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ کی سب سے ممکنہ وجہ دانستہ منصوبہ بندی کے بجائے کوئی حادثہ ہو گی۔

اگر یوکرین میں امن قائم ہو بھی جائےتو ڈاکٹر میرین میسمَر کی پیشگوئی ہے کہ روس یورپ میں غلط معلومات پھیلانے کی کیمپئین، سائبر وارفیئر، تخریب کاری اور جاسوسی جیسی سرگرمیاں جاری رکھے گا خاص طور پر بالٹک سمندر کے علاقے میں۔

وہ کہتی ہیں: ’میرا خیال ہے کہ روس کسی بھی طرح کی غیر مستحکم کرنے والی سرگرمی جاری رکھے گا چاہے امن کا معاہدہ یوکرین کے حق میں ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

ڈاکٹر میسمَر مزید کہتی ہیں: ’جن خطرات کو میں دیکھ رہی ہوں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ بالٹک سمندر میں کوئی حادثہ پیش آ سکتا ہےجو کہ مکمل طور پر غیر ارادی ہولیکن وہ یا تو روس کی 'گرے زون' سرگرمیوں یا اُس کی حد سے بڑھی ہوئی جارحانہ حکمتِ عملیکا نتیجہ ہو سکتا ہے، جہاں اُنھیں لگتا ہے کہ وہ صورتِ حالان کے قابو میں ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اور یوں یہ حادثہ کسی نیٹو رکن ملک اور روس کے درمیان ٹکراؤ میں بدل سکتا ہےجو پھر کسی بڑے تصادم کا سبب بن سکتا ہے۔‘

لیکن مسٹر گرانڈ اس خطرے کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کے حق میں نہیں ہیں کہ پیوٹن بالٹک ریاستوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

نیٹو کتنی متحد ہے؟

یقیناً، روسی صدر سب سے پہلے یہ سوچیں گے کہ نیٹو اتحادیوں کے ردعمل کا امکان کتنا ہے۔

کیا امریکہ یا حتیٰ کہفرانس، اٹلی یا برطانیہ، نیٹو کے مشرقی کنارے پر واقع ایسٹونیا کے چھوٹے سے حصے نارووا کے لیے روس کے ساتھ جنگ میں جانے کا خطرہ مول لیں گےجو کہ جوہری طاقت رکھنے والا ملک ہے؟

اور فرض کریں کہ ہمیں 2014 میں یوکرین کے مشرقی علاقے ڈونباس میں جو کچھ ہوا اُس کا اعادہ دیکھنے کو ملےجب روسی پیرا ملٹری فورسز لڑائی میں شریک ہوئیں لیکن انہوں نے خود کو روسی فوجی نہیں ظاہر کیا؟ یہ پوتن کو روسی مداخلت کی تردید کا موقع مہیا کرے گااور ایسی صورتِ حال میں کیا نیٹو ایسٹونیا کی مدد کے لیے مداخلت کرے گا؟

اگر نیٹو مداخلت نہ کرے تو پوتن کے لیے ایسی صورتِ حال سے فاہدہ اٹھانے کا خیال کافی خوش کن ہو گا کیونکہ اس طرحوہ نیٹو کے ’اتحاد‘ میں دراڑ ڈال سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ وسیع تر بالٹک علاقے کو عدم استحکام میں مبتلا کر سکتا ہے شاید سماجی، سیاسی اور اقتصادی سطح پر کیونکہ روس کی کسی بھی نوعیت کی جارحیت ، چاہے محدود ہو، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دور کر سکتی ہے جو اس علاقے کو مستحکم سمجھتے ہیں۔

ایک اور تشویش جو ایسٹونیا میں زیرِ بحث آئی ہے وہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ممکنہ طور پر یورپ میں امریکہ کے طویل عرصے سے تعینات فوجی دستوں اور فوجی صلاحیتوں کو واپس بلانے یا ان میں کمی کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

BBCایسٹونیاکے وزراء ڈونلڈ ٹرمپ سے اتفاق کرتے ہیں کہ یورپ کواپنے دفاع کیزیادہ ذمہ داری اٹھانی ہوگی

جب میں ایسٹونیا کے دارالحکومت ٹالن میں دفاعی وزیر ہانو پیوکر سے ملی تو انہوں نے صورتحال پر پریشانی کا اظہار نہیں کیا۔

انہوں نے کہا: ’امریکی موجودگی کے حوالے سے ہمیں نہیں معلوم کہ امریکی انتظامیہ کا فیصلہ کیا ہوگا۔ انہوں نے بہت واضح طور پر کہا ہے کہ وہ زیادہ توجہ بحر الکاہل پر مرکوز کریں گے اور یہ بھی کہا ہے کہ یورپ کو یورپ کی زیادہذمہ داری اٹھانی ہوگی۔ ہم اس پر متفق ہیں۔‘

’ہمیں اپنے آپ پر یقین رکھنا ہوگا اور امریکہ سمیت اپنے اتحادیوں پر اعتماد کرنا ہوگا. مجھے پورا یقین ہے کہ صرف ایسٹونیا کے کسی حصے پر بھی حملہ نیٹو پر حملہ تصور کیا جائے گا۔‘

ہانو پیوکر کہتے ہیں ’اور یہ سوال پھر تمام اتحادیوں سے ہے کیا ہم ایک ساتھ ہیں یا نہیں؟‘

’پیوٹن پروفنگ‘

نیٹو کے مشرقی محاذ جس میں بالٹک ریاستوں اور پولینڈ میں اس بے غیر یقینی یا کم از کم غیر متوقع صورتحال کی جھلک ان قوانین کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے جو پورے علاقے میں متعارف کروائے جا رہے ہیں۔

پولینڈ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ملک کے ہر بالغ مرد کو جنگ کے لیے تیار رہنا ہوگا اور سال کے آخر تک ایک نیا فوجی تربیتی منصوبہ متعارف کرایا جائے گا۔

وزیرِ اعظم ڈونلڈ ٹسک نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ فرانس کی اس تجویز میں دلچسپی رکھتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یورپی اتحادیوں کے ساتھ نیوکلیئر چھتری شیئر کی جائے تاکہ اگر امریکہ اپنی نیوکلیئر حفاظت واپس لے لے تو یورپ کے اتحادیوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

Getty Imagesپولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے فرانس کی جانب سے یورپی ممالک کو `جوہری چھتری` کی تجویز میں دلچسپی ظاہر کی ہے

بالٹک ریاستوں میں رہنے والے ووٹرز کو دفاع کے لیے اضافی رقم مختص کرنے پر قائل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایسٹونیا ایک نیا قانون متعارف کروا رہا ہے جس کے تحت تمام نئے دفاتر اور اپارٹمنٹ بلاکوں کو ایک خاص سائز کے مطابق بنکرز یا بم پناہ گاہیں شامل کرنا لازمی ہوں گی۔

ٹالن نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے سال سے اپنے جی ڈی پی کا 5 فیصد دفاع پر خرچ کرے گا۔ لیتھوانیا کا ہدف 5-6 فیصد ہے۔

پولینڈ جلد ہی اپنے جی ڈی پی کا 4.7 فیصد دفاع پر خرچ کرے گا۔ اس کا مقصد یورپ میں سب سے بڑی فوج بنانا ہےجو برطانیہ اور فرانس کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ اسے تناظر میں رکھنے کے لیے امریکہ اپنے جی ڈی پی کا تقریباً 3.7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے، برطانیہ 2.3 فیصد خرچ کرتا ہے اور اسے 2027 تک 2.6 فیصد تک بڑھانے کا ارادہ ہے۔

روس کے قریب واقع ان ممالک میں یہ فیصلے ممکنہ طور پر ایک امید سے جڑے ہوئے ہیں جسے وہ ابھی تک ترک نہیں کر سکے ہیں۔یہ امید کہ وہ ٹرمپ اور ان کی سیکیورٹی کی یقین دہانیوں کو اپنے ساتھ رکھ سکیں گے۔

رواں ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے موقف کو ایک بار دہرایا ہے۔ ’اگر نیٹو ممالک پیسہ نہیں دیتے تو میں ان کا دفاع نہیں کروں گا۔ نہیں، میں ان کا دفاع نہیں کروں گا۔‘

نیٹو ممالک اپنے سالانہ دفاعی بجٹ کتنا رکھیں جسے ٹرمپ انتظامیہ کافی سمجھتی ہے۔

میتھیو وِٹیکر جو ٹرمپ کے نیٹو میں امریکی سفیر کے امیدوار ہیں، نے اس کی وضاحت کی ہے کہ ’کم سے کم دفاعی اخراجات کی سطح پانچ فیصد ہونی چاہیے، تاکہ نیٹو تاریخ کا سب سے کامیاب فوجی اتحاد بن سکے۔‘

ایسٹونیا کا پلان بی

واشنگٹن سے ملے جلے پیغامات کے دوران ایسٹونیایورپی اتحادیوں کی طرف دیکھ رہا ہے تاکہ وہ قابل اعتماد حمایت حاصل کر سکے۔ برطانیہ یہاں ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ ایسٹونیا میں برطانیہ کے 900 اہلکار تعینات ہیں جو اس کی برطانیہ کے باہر سب سے بڑی تعینانی ہے۔ برطانیہ نے وہاں اپنی موجودگی بڑھانے کا عہد کیا ہے۔

ٹاپا میں اپنے اڈے پر ہم نے بہت بڑے گونجتے ہوئے ہینگرز دیکھے جو بکتر بند گاڑیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میجر ایلکس ہمفریز جو ایسٹونیا میں چھ ماہ کے تعینات ہیں، ہمیں بتاتے ہیں جب آپ ’آپ چیلنجر مین بیٹل ٹینک دیکھیں گے جب ہم ہینگر کے دوسرے سرے کی طرف جائیں گے۔‘

BBCمیجر ایلکس ہمفریز کہتے ہیں کہ نیٹو اپنے مشرقی سرحد پر غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔

جب میجر ایلکس ہمفریز سے پوچھا گیا کہ کیا ایسٹونیانے برطانیہ سے وہاں اپنی موجودگی بڑھانے کی درخواست کی ہے تو ان کا جواب تھا ’میرے خیال میں نیٹو مجموعی طور پر غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔ یہ ہمارے اجتماعی دفاع کے لیے ایک بہت اہم محاذ ہے۔‘

بالٹک ریاستوں اور مشرقی یورپ کے تمام ممالک روسی فیڈریشن سے آنے والے واضح اور نمایاں خطرے کو محسوس کرتے ہیں۔

’ہم نہیں چاہتے کہ یہ جنگ میں بدل جائے، لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم مکمل طور پر متحد ہیں۔ ہم مکمل طور پر تیار ہیں تاکہ روسی فیڈریشن کے خلاف موثر کارروائی کر سکیں اور ایسٹونیا کا دفاع کر سکیں۔‘

برطانوی افواج یا نیٹو کی فوجیں کب اور کس صورت حال میں فوجی کارروائی کریں گی، یہ سیاسی فیصلوں پر منحصر ہوگا جو اس لمحے میں کیے جائیں گے۔

لہذا ایسٹونیا کچھ بھی ہلکے میں نہیں لے رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے روس کے ساتھ سرحد پر نئے فوجی بنکروں کی سختٹیسٹنک کر رہا ہے اور ڈرون ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ حالانکہ اس کی مسلح افواج اتنی طاقتور نہیں ہوں گی کہ وہ اکیلے روس کے حملے کو روک سکیں، ایسٹونیا یوکرین پر ہونے والے حملے سے حاصل کیے گئے اسباق کا مطالعہ کر رہا ہے اور وہ یقیناً کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کا مستقبل ایسا ہو جیسا یوکرین کا ہے۔

More from InDepthوائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات تکرار میں کیسے بدل گئی اور اس کے کیا اثرات ہوں گے؟روس کے یوکرین پر حملے کے تین برس: ٹرمپ کے ’جھوٹ‘، پوتن کی چال اور زیلنسکی کے ڈٹے رہنے کی کہانیچوہوں سے لڑائی، خفیہ ایجنٹ بننے کا شوق اور دھوکہ دینے کی صلاحیت: غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے پوتن روس کے طاقتور صدر کیسے بنے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More