Getty Imagesحضرت نوح کا ذکر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے علاوہ مسیحیت اور یہودیت میں بھی پایا جاتا ہے
’ہم نے اُسے اور جو کشتی میں اُس کے ساتھ تھے، اُنھیں نجات دی اور اُن سب لوگوں کو غرق کر دیا جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا۔‘
مذہبی روایات کے مطابق حضرت آدم کی دسویں پشت میں پیدا ہونے والے حضرت نوح کا ذکر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے علاوہ مسیحیت اور یہودیت میں بھی پایا جاتا ہے۔
ان میں یہ بتایا گیا کہ حضرت نوح ایک ایسے پیغمبر تھے جنھیں خدا نے ایک طوفان کے بارے میں متنبہ کیا تھا۔ انھیں ایک ایسی کشتی تعمیر کرنے کا حکم دیا گیا جس کی مدد سے چند ایمان لانے والوں اور جانوروں کے جوڑے کو بچایا گیا۔
حضرت نوح سے جڑے اس واقعے کے بارے میں تینوں مذاہب بات کرتے ہیں۔ مگر یہ کیسے ممکن ہوا، اس حوالے سے اسلام، مسیحیت اور یہودیت میں دی گئی تفصیلات کیا ہیں؟
نبوت
اسلامی سکالر وحید الدین خان اپنے مضمون ’حضرت نوح کا پیغمبرانہ رول‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔
ان کی تحریر میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے درج ہے کہ ’اللہ نے حضرت آدم کو جو شریعت دی تھی، اُن کے بعد کی نسلیں اُس پر باقی رہیں۔ مگر دھیرے دھیرے ان میں زوال آیا۔۔۔ جب بگاڑ کی یہ حد آئی تو اللہ نے ان کے درمیان اُن ہی کی قوم سے پیغمبر نوح کو پیدا کیا۔‘
سورہ المومنون کی آیات ہیں کہ ’ہم نے نوح کو اُس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا تو اُس نے دعوت دی کہ میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو۔ اُس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے۔ پھر کیا (اُس کے شریک ٹھہرا کر تم اُس کے غضب سے) ڈرتے نہیں ہو؟‘
عہد نامہ قدیم کی کتابِ پیدائش میں بیان ہے کہ حضرت نوح کو ایک ایسی قوم میں بھیجا گیا جو بدکرداری، ظلم اور بداعمالیوں میں مبتلا تھی۔
عہد نامہ جدید (پطرس 2:5 میں) حضرت نوح کو ’راست بازی کی منادی کرنے والا‘ کہا گیا، جنھوں نے اپنی قوم کو خبردار کیا۔
Getty Imagesقرآن کے مطابق حضرت نوح نے اپنی قوم کو مسلسل 950 سال تک حق کی طرف بلایا تبلیغ اور قوم کی سرکشی
قرآن کے مطابق حضرت نوح نے اپنی قوم کو مسلسل 950 سال تک حق کی طرف بلایا۔
اس سے متعلق قرآن کی سورہ العنکبوت میں ذکر ہے کہ: ’اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، پس وہ ان میں پچاس کم ایک ہزار سال رہا۔‘
تورات (کتاب پیدائش) میں اس مدت کو حضرت نوح کی عمر بتایا گیا ہے۔
اس طویل مدت میں انھوں نے دن رات، اعلانیہ اور خفیہ، ہر طریقے سے اپنی قوم کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے بقول ان کی قوم نے ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔
قرآن کی سورہ المومنون میں ہے کہ ’اُس کی قوم کے سرداروں نے جو منکر تھے، کہا کہ یہ تو بس تمھارے جیسا ایک آدمی ہے۔ یہ تم پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اللہ کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے اتارتا۔ ہم نے اِس طرح کی بات اپنے اگلے بزرگوں میں تو کبھی سنی نہیں۔
'کچھ نہیں، یہ ایک آدمی ہے کہ جس کو جنون لاحق ہو گیا ہے۔ سو کچھ دن اِس کا انتظار کرو، (اِس کے یہ وساوس ختم ہو جائیں گے)۔‘
سورہ القمر میں ہے کہ 'ہمارے بندے کو اُنھوں نے جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے اور وہ بری طرح جھڑکا گیا۔
’آخر اُس نے اپنے پروردگار سے فریاد کی کہ میں مغلوب ہو چکا، اب تو اِن سے بدلہ لے۔‘
کتاب ِپیدائش 6:5-7 میں ہے کہ خدا نے زمین پر انسانوں کی بداعمالیوں اور ان کے دلوں کے خیالات کی مسلسل برائی کو دیکھا اور دنیا کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
طوفانِ نوح اور کشتی کی تعمیر
قرآن میں ہے کہ جب قومِ نوح نے حق کو مسلسل ٹھکرایا اور ان کا مذاق اڑایا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا۔
سورہ المومنون میں ہے کہ 'پس ہم نے اس پر وحی بھیجی کہ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنا۔‘
بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کشتی کا سارا نقشہ، اِس کی جزئیات کی تفصیل کے ساتھ، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو خود بتایا تھا تاکہ یہ آنے والی صورت حال کا مقابلہ کر سکے۔
عہد نامہ قدیم (پیدائش 6:14-16) کے مطابق حضرت نوح کو تفصیلی ہدایات دی گئیں کہ کشتی کو گوفر لکڑی سے بنایا جائے اور اس کی لمبائی 300 ہاتھ، چوڑائی 50 ہاتھ اور اونچائی 30 ہاتھ ہو، جس میں تین منزلیں ہوں گی، اور ایک کھڑکی بنائی جائے گی۔
مسیحیت میں بھی حضرت نوح کی کشتی کی کہانی یہی ہے۔
بائبل (عبرانیوں) میں ہے: ’ایمان ہی سے نوح نے، جب خدا کی طرف سے اس چیز کی خبر پائی جو ابھی دیکھنے میں نہ آئی تھی، خوف کھا کر اپنے گھرانے کے بچاؤ کے لئے ایک کشتی بنائی۔‘
تب حضرت نوح کو حکم ملا کہ وہ اپنے اہلِ خانہ، ایمان لانے والوں اور ہر جاندار کے جوڑے کو کشتی میں سوار کر لیں۔
سورہ المومنون میں ہے کہ ’جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا اوراپنےگھر والوں کو (کشتی میں) لے لو، مگر ان کو نہ لینا جن پر (عذاب کا) حکم ہو چکا ہے۔‘
اسی طرح سورہ ہود کی آیت ہے کہ ’اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا، بے شک وہ غرق کیے جانے والے ہیں۔‘
سورہ ہود ہی میں ہے کہ ’اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا: اے میرے رب! میرا بیٹا (اکثر مفسرین کے مطابق کنعان) بھی میرے اہل میں سے ہے، اور یقیناً تیرا وعدہ سچا ہے، اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔‘
اللہ نے فرمایا: ’اے نوح! بے شک وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے، بے شک اس کا عمل نیک نہیں، پس مجھ سے وہ چیز نہ مانگ جس کا تجھے علم نہیں۔‘
قرآن کے مطابق، جب زمین سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے اور آسمان سے موسلا دھار بارش برسی، تو زمین پانی میں ڈوبنے لگی۔
سورہ القمر میں ہے کہ ’تب ہم نے موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیے اور زمین کو (اِس طرح) پھاڑ ا کہ وہ چشمے ہی چشمےہو گئی۔ پھر زمین و آسمان کا پانی اُس نشان پر باہم مل گیا جو اُس کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔‘
تورات کی کتاب پیدائش کے ساتویں باب میں آسمان سے پانی برسنا اور زمین کے سوتوں میں سے نکلنا لکھا ہے۔
Getty Imagesتورات میں حضرت نوح کے کسی بیٹے کی نافرمانی یا طوفان میں ہلاکت کا کوئی ذکر موجود نہیں حضرت نوح کی بیوی اور بیٹا بھی ہلاک ہوئے
سورہ التحریم سے علم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کی بیوی بھی ایمان نہیں لائی تھی اور وہ اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہوئی۔
اسی طرح جب طوفان آیا تو حضرت نوح کے ایک بیٹے نے کشتی پر سوار ہونے سے انکار کر دیا اور پہاڑ پر پناہ لینے کی کوشش کی۔
قرآن سورہ ہود میں اس واقعے کو یوں بیان کرتا ہے کہ ’نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور کہا، اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔ اس نے کہا، میں کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا، آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں، سوائے اس کے جس پر وہ رحم کرے۔‘
تورات میں حضرت نوح کی بیوی کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا، نہ ہی ان کے کسی بیٹے کی ہلاکت بیان کی گئی ہے۔ بلکہ، پیدائش 7:7 کے مطابق، نوح اپنی بیوی، بیٹوں (سام، حام، یافِث) اور ان کی بیویوں سمیت کشتی میں داخل ہوئے اور سب بچ گئے۔ تورات میں کسی بیٹے کی نافرمانی یا طوفان میں ہلاکت کا کوئی ذکر موجود نہیں۔
چونکہ عہد نامہ جدید میں حضرت نوح کی کہانی عہد نامہ قدیم (تورات) سے ماخوذ ہے، اس لیے یہاں بھی حضرت نوح کی بیوی یا کسی بیٹے کی ہلاکت کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ عبرانیوں 11:7 میں حضرت نوح کو ایمان کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ ان کا پورا گھرانا نجات پا گیا۔
پھر طوفان نے سب کچھ بہا دیا اور زمین پر صرف وہی بچے جو کشتی میں سوار تھے۔ کتابِ جوبلیز میں طوفان کے وقت حضرت نوح کی عمر 600 سال بتائی گئی ہے۔
دنیا کی سب سے زیادہ پائیدار ’قوم‘ نخجوانقدیم تہذیبوں میں ’جہنم‘ کا تصور اور دنیا کے مذاہب میں عالم برزخ کو کیسے بیان کیا گیازرتشت: ایک قدیم مذہب جس نے ’عقیدۂ توحید‘ کا پرچار کیایاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟طوفان کا خاتمہ اور نئی زندگی کی شروعات
بائبل میں لکھا ہے کہ پانی 40 دن اور 40 راتوں تک برستا رہا۔
چالیس دن بعد پانی کم ہونا شروع ہوا، اور کشتی ’جودی‘ نامی پہاڑ پر جا کر ٹھہر گئی۔ یہ مقام آج ترکی میں ارارات یا اراراط کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سورہ ہود میں ہے کہ ’اور کہا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان! رک جا۔ اور پانی سکھا دیا گیا اور معاملہ پورا کر دیا گیا اور کشتی جودی پر ٹھہر گئی۔‘
ترجمان القرآن میں ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ حضرت نوح کا ظہور اس سرزمین میں ہوا تھا جو دجلہ اور فرات کی وادیوں میں واقع ہے۔ ’دجلہ اور فرات آرمینیا کے پہاڑوں سے نکلے ہیں، اور بہت دور الگ الگ بہہ کر عراق زیریں میں باہم مل گئے ہیں اور پھر خلیج فارس میں سمندر سے ہم کنار ہوئے ہیں۔ آرمینیا کے یہ پہاڑ ارارات کے علاقے میں واقع ہیں۔ اسی لیے انھیں تورات میں ارارات کا پہاڑ کہا ہے۔ لیکن قرآن نے خاص اس پہاڑ کا ذکر کیا جس پر کشتی ٹھہری تھی، وہ جودی تھا۔‘
Getty Imagesترکی میں ماؤنٹ ارارات، جسے ایگری ماؤنٹین بھی کہا جاتا ہے، پر مبینہ طور پر نوح کی کشتی کا سراغ ملا ہےکوہ جودی کہاں ہے؟
اسلامی سکالر ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ ’زمانہ حال کے بعض شارحین ِتورات کے خیال میں جودی اس سلسلہ کوہ کا نام ہے جس نے ارارات اور جارجیا کے سلسلہ ہائے کوہ کو ملا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں سکندر کے زمانے کی یونانی تحریرات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، کم از کم یہ واقعہ تاریخی ہے کہ آٹھویں صدی مسیحی تک وہاں ایک معبد موجود تھا اور لوگوں نے اس کا نام کشتی کا معبد رکھ دیا تھا۔‘
وحید الدین خان لکھتے ہیں کہ حضرت نوح کی قوم میسو پوٹامیا کے علاقے میں آباد تھی۔ ان کے مطابق جب سیلاب کا پانی اونچا ہوا اور حضرت نوح کی کشتی اس میں تیرنے لگی تو وہ مختلف سمتوں میں جا سکتی تھی، مگر کشتی نے خدائی حکم کے تحت، ترکی کا رخ اختیا رکیا۔ بظاہر اس کا سبب یہ تھا کہ میسوپوٹامیا سے قریب ترین پہاڑی سلسلہ جہاں گلیشیر بنتے ہوں، وہ جودی یا ارارات کا سلسلۂ کوہ تھا۔
تقریباً 16 سو کلومیٹر کا سفر طے کرکے کشتیِ نوح ترکی کے مشرق میں واقع جودی پہاڑ پر پہنچی اور وہاں ٹھہر گئی۔
کتاب پیدائش میں ہے کہ ’اور خدا نے نوح اور سب جانوروں اور سب چرندوں کو یاد کیا جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، اور خدا نے زمین پر ہوا چلا دی اور پانی گھٹنے لگا۔‘
’اور ساتویں مہینے کی سترہویں تاریخ کو کشتی ارارات یا اراراط کے پہاڑوں پر جا ٹھہری۔‘
’نوح نے پہلے ایک کوّا چھوڑا، جو واپس نہ آیا۔ پھر انہوں نے ایک کبوتر چھوڑا، جو واپس آیا کیونکہ زمین ابھی خشک نہ ہوئی تھی۔‘
Getty Images
’سات دن بعد دوبارہ کبوتر چھوڑا، جو زیتون کی ایک پتی لے کر آیا، جس کا مطلب تھا کہ زمین پر پانی اتر چکا ہے۔‘
’جب تیسری بار کبوتر کو چھوڑا تو وہ واپس نہیں آیا، جس کا مطلب تھا کہ زمین خشک ہو گئی ہے۔‘
کتاب پیدائش میں یہ بھی درج ہے کہ ’نوح نے ایک قربان گاہ بنائی اور خدا کے لیے قربانی پیش کی، جسے خدا نے قبول کیا اور وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ ایسا طوفان نہیں لائے گا۔‘
’خدا نے نوح اور ان کی نسل کے ساتھ عہد کیا اور کہا کہ وہ زمین پر دوبارہ ایسا طوفان نہیں بھیجے گا اور اس عہد کی نشانی کے طور پر قوسِ قزح کو مقرر کیا۔‘
قرآن میں یہ بیان موجود نہیں۔ قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ ’ہم نے اس (كشتی) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔‘ دوسری جگہ ہے: ’ہم نے اُس (كشتی) کو ایک نشانی کے طور پر باقی رکھا، پھر کوئی ہے سوچنے والا۔‘
ترکی کے ارارات پہاڑ کے علاقے میں ایک کشتی نما چٹان بھی دریافت ہوئی ہے، جسے بعض محققین حضرت نوح کی کشتی سے منسوب کرتے ہیں۔
قرآن، تورات، اور مسیحی بائبل میں حضرت نوح کے بعد نئی زندگی کے آغاز میں چند بنیادی نکات مشترک ہیں، جیسے کہ ان کی نسل کا باقی رہنا اور زمین پر زندگی کا دوبارہ بحال ہونا۔
کتاب پیدائش کے مطابق نوح کے تین بیٹے، سام، حام، اور یافث، پوری دنیا میں انسانی نسل کے بانی قرار دیے گئے۔
مسیحیت میں تورات کی بیان کردہ تفصیلات کو برقرار رکھا گیا ہے۔
قرآن کی سورہ الصافات کی آیات ہیں کہ ’ہم نے اُس (نوح) کو اور اُس کے لوگوں کو بہت بڑی مصیبت سے بچا لیا۔ اور (بعد کے زمانوں میں) اُسی کی نسل کو باقی رکھا۔ اور پچھلوں میں ایک گروہ کو ہم نے اُس کی ملت پر چھوڑا۔
’نوح پر سلامتی ہے تمام دنیا والوں میں۔ ہم خوبی سے عمل کرنے والوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔‘
دنیا کی سب سے زیادہ پائیدار ’قوم‘ نخجوان’نوح کی کشتی‘ تھیم پارک میںقدیم تہذیبوں میں ’جہنم‘ کا تصور اور دنیا کے مذاہب میں عالم برزخ کو کیسے بیان کیا گیازرتشت: ایک قدیم مذہب جس نے ’عقیدۂ توحید‘ کا پرچار کیایاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟’بکتاشی‘ صوفی سلسلہ جو البانیہ میں ’ویٹیکن کی طرز پر نئی اسلامی ریاست‘ قائم کرنا چاہتا ہے